صحافت کا میر…!!

83

حامد میر پاکستان کے ایک بڑے اینکر کہلواتے ہیں۔ وہ قومی معاملات پر اپنی رائے دیتے ہیں ان کو پاکستان کے ایک بڑے ٹی وی کی سکرین اور اخبار میں کالم کی جگہ میسرہے۔ویسے تو قلمی بددیانتی ہمارے اکثر دانشوروں کا مسئلہ بن چکا ہے اور مجھے لگتا ہے کہ کچھ ایسی ہی علت حامد میر صاحب کے ساتھ بھی ہمہ وقت سفرمیں رہتی ہے۔میر صاحب نے بلوچستان میں دل دہلانے والی اور سفاکیت پر مشتمل دہشت گردی پراپنے کالم ’’بلوچستان کا مستقبل‘‘ میں کچھ اسی طرح سے بلوچستان میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد کے شناختی کارڈ دیکھ کران کو شہیدکرنے کو جوازفراہم کرنے کی کوشش کی ہے جو کہ صرف قلمی خیانت نہیں بلکہ دہشت گردی جیسے قبیح فعل میں سے بھی جوازکشیدنے کی کوشش ہے۔
میر صاحب نے دوباتوں سے اس دہشت گردی کو متنازع بنانے کی اپنے تئیں کوشش کی ہے ۔ایک تو وہ ایسی بحث کو درمیان میں لائے جو کسی بھی سطح پربحث تھی ہی نہیں ۔انہوں نے لکھا کہ مرنے(شہید)ہونے والوں کو پنجابی لکھنے اور کہنے پر سرائیکی لوگ احتجاج کررہے ہیں کہ سرائیکیوں کو پنجابی کیوں کہا۔دیانتداری سے بتائیں کیا ایسی کوئی بحث یا احتجاج آپ نے کہیں دیکھا ہے؟ ایسے نازک موقع پر ایسی باریک واردات ڈال کر میر صاحب کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں ؟۔
دوسری بات انہوں نے کہی کہ ماہ رنگ بلوچ سے اس دہشت گردی کی مذمت کامطالبہ کرنے والے پہلے یہ بتائیں کہ انہوں نے ماہ رنگ بلوچ کے والد کے قتل پرمذمت کیوں نہیں کی تھی۔یعنی میر صاحب کہہ رہے ہیں کہ چونکہ ’’کسی‘‘ نے ماہ رنگ کے والد کے قتل کی مذمت نہیں کی تھی اس لیے یہ جو کچھ اب ہوا ہے وہ ٹھیک ہے؟انہوں نے ایک تیسری واردات بھی ڈالنے کی کوشش کی ہے لکھتے ہیں کہ ایک بات جس کاکوئی ذکر نہیں کررہا وہ یہ ہے مرنے(شہید)والوں میں دوپشتون بھی تھے۔سمجھ سے باہر ہے کہ میر صاحب قومیت بیان کرکے کیا ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ پنجابیوں کے ساتھ اگرپشتون بھی ماردیے جائیں تو بیگناہوں کا قتل جائز ہوجانا چاہئے ؟۔
مجھے میر صاحب کی ذاتی سوچ اور رائے سے کچھ لینا دینا نہیں لیکن اعتراض اس بات پر کہ اگر کسی کو لکھنے اور بولنے کی جگہ ملی ہوئی ہے تو اس کی ذمہ داری بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے ۔ایمانداری کا تقاضا ہے کہ قلم اور زبان کو پاکستان کے مفاد میں استعمال کیا جائے ۔ایسی دہشت گردانہ وارداتوں پرشک کی گرد نہ ڈالی جائے ۔مجھے اس سے پہلے حامد میر صاحب کے ساتھ واٹس ایپ کے ذریعے رابطے کا اتفاق ہوچکا ہے ۔انہوں نے مدثر نارو کی نظم کا ایک بند اپنے کالم میں لکھا تو میں نے ان کے کالم کی تعریف کی اور کہا کہ مجھے یہ نظم پڑھنے کا اتفاق ہوا ہے مدثر کواتنا کڑوا سچ بولنے کی سزا یقینی تھی اس پر انہوں نے حیرت کا اظہار کیا کہ یہ نظم تو صرف ان کے ہی پاس ہے میں نے کہاں سے پڑھ لی اس پر خادم ان کی تسلی کروادی ۔اس کے بعد جب آزاد کشمیر میں احتجاج جاری تھا تو اس پر میر صاحب نے ایک کالم لکھا جس میں انہوں نے قراردیا کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ میں کشمیر کو پاکستان کا حصہ نہ ماننے کی سوچ موجو دہے ۔اس پر میں نے میر صاحب کو پیغام بھیجا کہ آپ نے اپنی خواہش کے مطابق اسٹیبلشمنٹ کو مطعون کردیا جس کا کوئی ثبوت آپ کے پاس نہیں تھا لیکن آپ اس کالم میں پی ٹی آئی کے ترجمان روف حسن کا ذکر کرنا بھول گئے جنہوں نے جناب کے ہی پروگرا م میں بیٹھ کر برملا کہہ دیا تھا کہ آزاد کشمیر پاکستان کا حصہ نہیں ہے۔ میرے اس پیغام پر میرصاحب غصہ کرگئے اور انہوں نے واٹس ایپ پر مجھے بلاک کردیا۔
یہ تو ذکر تھا مبینہ اہل دانش کی بددیانتی کا کہ میر صاحب نے کالم کے بعد اپنے شومیں بلوچستان کی ایپکس کمیٹی کے اجلاس پر بھی سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ایپکس کمیٹی پارلیمنٹ کا متبادل بن کرکا م کررہی ہے۔اب پتہ نہیں کہ ان کو بلوچستان پر ایپکس کمیٹی کے فیصلوں پر ہی اعتراض ہے یا سندھ پنجاب اور خیبرپختونخوا کی ایپکس کمیٹیوں پر بھی وہ یہی رائے رکھتے ہیں؟ کیونکہ یہ ایپکس کمیٹیاں چاروں صوبوں میں سانحہ اے پی ایس کے بعد نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے تحت بنی تھیں اورتمام صوبوں میں دہشتگردی کے حوالے سے پالیسی فیصلے انہی کمیٹیوں میں برسوں سے جاری ہیں۔
بلوچستان میں جو کچھ ہوا اور مسلسل ہورہا ہے اس کا کوئی جوازہے نہ ہی معافی ۔بلوچستان میں مسائل ہماری سوچ سے کہیں زیادہ ہیں اور حل بھی سادہ نہیں ہے۔یہ بات اب واضح ہورہی ہے کہ بلوچستان کا مسئلہ اب نہ کسی محرومی کا ایشو ہے اور نہ ہی ترقیاتی کاموں یا صوبے کا مختلف وجوہات کی بناپر ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانا یا وہاں کے سرداروں کی طرف سے دانستہ پیچھے رکھنا۔مجھے لگتا ہے کہ اب وہاں وہی صورتحال ہے جو کبھی خیبرپختونخوا میں ٹی ٹی پی کی تھی ۔بلوچستان میں دہشتگردی میں مصروف لوگ اب پاکستان کو توڑنے کے مشن پر ہیں اور اپنے تئیں وہ آزادی حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں۔ہمارا آئین ریاست سے وفاداری کا لازمی تقاضاکرتا ہے۔مسائل اور اختلاف ہر شہری کو ہوسکتا ہے لیکن اس کے اظہار یا حل کے لیے ریاست کے خلاف مسلح جدوجہد کی اجازت نہ کوئی قانون دیتا ہے نہ آئین۔میری خواہش بھی ہے اور دعا بھی اس وطن میں کسی کا خون بھی اتنا سستا نہیں ہونا چاہئے کہ کوئی بھی کہیں بھی آپ کو بغیر کسی وجہ کے گاڑی سے اتارے اور قتل کردے ۔ایسا کرنے والوں کو ان کی حرکت کا جوازدینے والے اپنے اندرکا خبث ظاہر کرتے ہیں۔
بلوچستان کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے وہی فارمولہ اپنانے کی ضرورت ہے جو وزیراعظم شہبازشریف نے ایپکس کمیٹی میں پیش کیا ہے کہ جو پاکستان کے آئین اور اس کے پرچم کو مانتا ہے اس سے بات کی جائے اس کو سنا جائے اورجائز مطالبات مان کران سے معذرت بھی کرنی پڑے تو حرج نہیں لیکن جو ریاست کوہی تسلیم نہیں کرتے ان کے درمیان ایک لکیر کھینچ کر ان کو آخری موقع دیاجائے اور پھر لکیر کے دوسری طرف رہنے کا آپشن چننے والوں سے وہی سلوک کیا جائے جو ریاستیں دشمنوں سے کرتی ہیں۔

تبصرے بند ہیں.