کچے ڈاکوؤں کاپکاعلاج

38

پولیس اہلکاروں کی شہادت کے بعدیہ بات اب کھل کرسامنے آگئی ہے کہ کچے کے ڈاکوؤں سے اس دھرتی پراب کوئی محفوظ نہیں۔کچے کے ڈاکوپہلے صرف عام لوگوں کونشانہ بناتے تھے لیکن اب انہوں نے عام لوگوں کے ساتھ خاص لوگوں کوبھی نشانہ بناناشروع کردیاہے۔پنجاب پولیس کے بہادرجوانوں کونشانہ بناکرکچے کے ڈاکوؤں نے ایک طرح سے یہ پیغام دے دیاہے کہ جوبھی قدم ان کی طرف بڑھیں گے یہ ان قدموں کے ساتھ ایساہی سلوک کریں گے جیساسلوک ان ظالموں نے پنجاب پولیس کے ساتھ کیا۔مٹھی بھرڈاکوؤں کے ہاتھوں ایک درجن پولیس جوانوں کی شہادت یہ ہمارے منہ پرکسی طمانچے سے کم نہیں۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگرپولیس اہلکاراورقوم کے محافظ ان ڈاکوؤں سے محفوظ نہیں توہمارے جیسے عام اورنہتے لوگ ان ظالموں اوردرندوں سے کیسے محفوظ ہوں گے۔۔؟عوام کی جان،مال،عزت اورآبروکی حفاظت یہ ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن کچے کے ڈاکوؤں کے معاملے میں ریاست تاحال اپنی یہ ذمہ داری پوری اور اداکرنے میں ناکام نظرآرہی ہے۔کچے کے ڈاکوؤں کی جانب سے بے گناہ شہریوں کی شہادت اوراغواء یہ نہ کوئی پہلاواقعہ ہے اور نہ کوئی آخری۔کہ اسے بھلا کر نظرانداز کر دیا جائے۔ کچے کے ڈاکو ایک عرصے سے ریاست کے اندر اپنی ریاست قائم کر کے شہریوں کی جان، مال، عزت اور آبروسے کھیل رہے ہیں لیکن کوئی ان سے پوچھنے والانہیں۔ان ظالموں اور خونی درندوں کے ہاتھ اورقدم اگرپہلے روک دیئے جاتے توآج ہمیں یہ دن دیکھنے نہ پڑتے۔پولیس جوانوں کی شہادت والاواقعہ فوری میڈیاکے ذریعے سامنے آیاتوہمارے حکمرانوں کوکچے والوں کے ان سیاہ وپکے کرتوتوں کاکچھ پتہ چلا ورنہ یہ واقعہ بھی کچے میں کہیں دب جاناتھا۔میڈیاپراگریہ واقعہ سامنے نہ آتاتوہمارے حکمرانوں کوپھریہ خبربھی نہ ہوتی کہ اس ریاست میں کچے والوں کی بھی کوئی ریاست ہے۔ جدید ہتھیاروں سے لیس کچے والے بدمعاش وبدقماش مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے ایک عرصے سے حکمرانوں کی ناک تلے قتل وغارت،لوٹ مار اور اغواء برائے تاوان کی وارداتیں کر رہے ہیں لیکن ہمارے حکمران ٹس سے مس نہیں ہورہے۔پچھلے سال بقرعیدسے کچھ دن پہلے ان لمبی لمبی مونچھوں والوں نے ہمارے آبائی ضلع بٹگرام کے تین غریب نوجوانوں کوصادق آبادسے اغواء کیااورپھران کی رہائی کے بدلے ایک کروڑ سے زائدتاوان کامطالبہ کیا۔ہمیں یادہے ان نوجوانوں کی بازیابی کے لئے جہاں بٹگرام میں گھرگھردعائیں مانگی گئیں تھیں وہیں تاوان کی رقم پوراکرنے کیلئے کئی علاقوں کی مساجدمیں چندے بھی کئے گئے تھے۔ پھر تاوان کی ایک بھاری رقم لیکر ان نوجوانوں کو زنجیروں سے آزاد کر کے چھوڑا گیا تھا۔ نہ جانے ان ظالموں نے ایسے کتنے غریب نوجوانوں اوربچوں کے سروں پر غریب لوگوں سے بھاری تاوانیں وصول کیں۔اللہ جانتاہے کہ ان بدبختوں نے بھاری تاوان نہ دینے پرقوم کے کتنے معصوموں کو زنجیروں کے ساتھ ہی اگلے جہان میں بھیجا ہو گا۔ معلوم نہیں آج بھی زنجیروں اور بیڑیوں میں جکڑے کتنے بدقسمت جوان ان درندوں کی قیدمیں شب وروز گزار رہے ہوں گے۔ان ظالموں کے سامنے اور سائے میں جوبھی آیاوہ پھران سے بچ نہ سکا۔ کچے کے پورے علاقے کوانہوں نے اس ملک کے اپنے باسیوں کے لئے نوگو ایریا بنا دیا ہے۔ جو سلوک یہ درندے کچے کے علاقے میں اس ملک کے شہریوں اور باسیوں کے ساتھ کررہے ہیں ایساسلوک اورکام تو کسی دشمن ملک میں بھی پاکستانیوں کے ساتھ نہیں ہوتاہوگا۔یہ ظالم نہ امیردیکھتے ہیں نہ غریب،ان کے ہاں بوڑھے، بچے اور جوان میں بھی کوئی فرق نہیں۔انہیں بس ہروقت شکارکی تلاش ہوتی ہے وہ چاہے کسی بھی رنگ ونسل میں ہو۔یہ نہ عام لوگوں کو معاف کرتے ہیں اورنہ یہ خاص لوگوں کوچھوڑتے ہیں۔جوبھی ان کے ہتھے چڑھاوہ پھربیڑیوں اورزنجیروں تک پہنچا۔ان ظالموں نے جال میں پھنسنے والے غریبوں پروہ وہ مظالم ڈھائے ہیں کہ جسے دیکھ کرشیطان بھی شرم سے ڈوب مر جائے۔ لوگ ان درندوں کوڈاکوکہتے ہیں لیکن یہ ظالم صرف ڈاکو نہیں بلکہ یہ دہشت گرد اور انتہا پسند بھی ہیں۔ ڈاکو صرف ڈاکہ مارتے ہیں لیکن یہ ظالم توڈاکے مارنے کے ساتھ اچھے بھلے انسان بھی ماردیتے ہیں۔ غریب، لاچار اور مجبورانسانوں کو بیڑیوں میں جکڑنے اور زنجیروں سے باندھنے والے ڈاکونہیں دہشتگرد، سفاک اورظالم ہوتے ہیں۔ پھر تاوان نہ دینے پرغریب مغویوں کوگولیوں سے بھوننے والوں کی درندگی اوردہشتگردی میں تو شک کاکوئی شبہ بھی باقی نہیں رہتا۔ آج ان ظالموں نے ان پولیس جوانوں کونشانہ بنایاکل کویہ اورپولیس اہلکاروں کونشانہ بنانے سے گریزنہیں کریں گے۔ ان کچے ڈاکوؤں کاپکاعلاج اب ضروری بہت ضروری ہے۔اب بھی اگران کواسی طرح چھوڑاگیاتوپھرکل کوان سے کوئی نہیں بچے گا۔ان کے ہاتھوں جام شہادت نوش کرنے والے پولیس اہلکاربھی آخرکسی کے بھائی ،باپ ،شوہر،چاچے،بھتیجے اوربوڑھی مائوں کی آنکھوں کی ٹھنڈنک اورنورنظرہوں گے۔ان کے بھی تومعصوم اورچھوٹے چھوٹے بچے گھروں میں ان کی راہ تک رہے ہوں گے۔ان ظالموں کی وجہ سے آخرکب تک آبادگھرویران اورمائوں کی گودیں اجڑتی رہیں گی۔۔؟ہم کب تک تاوانوں پرتاوان
دیتے اورجنازے اٹھاتے رہیں گے۔کچے کا پورا علاقہ اب ان دہشتگردوں سے آزادکراناہوگا۔ان درندوں کی پشت پرچاہے جوبھی ہوں۔ان کے سہولت کارجہاں کہیں بھی ہوں۔تاوان کی رقم سے حصے چاہے جن میں بھی تقسیم ہوتے ہوں۔ان کے پاس جدیداسلحہ اورہتھیارجہاں کہیں سے بھی آتے ہوں۔ ان سب باتوں اورسوالات کے باوجود جلد سے جلدان درندوں کومنطقی انجام تک پہنچانایہ نہ صرف ریاست کی ذمہ داری ہے بلکہ ہمارے حکمرانوں پر فرض کے ساتھ قرض بھی ہے۔ کچے کے مٹھی بھر مونچھوں والوں نے ریاستی رٹ کوعرصے سے چیلنج کیا ہوا ہے۔یہ آخرریاست ہے یاکوئی بناناری پبلک کہ گنتی کے چندغنڈے بھی ہم سے کنٹرول نہیں ہورہے۔

تبصرے بند ہیں.