برسوں پرانی بحث ہے، دنیا میں انڈہ پہلے آیا یا مرغی۔ اس معاملے پر سنجیدگی سے سوچ بچار کر لی جائے تو کسی نتیجے پر پہنچا جا سکتا ہے لیکن ایک اور معاملہ اس سے زیادہ الجھا ہوا ہے جس کی تہہ تک پہنچنا زیادہ مشکل معلوم ہوتا ہے یعنی کچے کے ڈاکو زیادہ خطرناک ہیں یا پکے کے ڈاکو اور کس نے کس کی کھوکھ سے جنم لیا۔
ہر زمانے میں ہر شہر میں ایک شخص کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ بہت خطرناک، جرائم پیشہ گروپ کا سرغنہ ہے، وہ قاتل، ڈکیت، رسہ گیر، نوسرباز، منشیات فروش، اغوا برائے تاوان کا ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ پولیس کو جل دے کر فرار ہونے کا ماہر بھی ہے۔ وہ شہر میں وارداتیں کرتا رہتا ہے مگر مفرور ہی بتایا جاتا ہے، لوگ لٹتے رہتے ہیں، جان سے جاتے ہیں، تمام جرم اسی شخص کے کھاتے میں ڈال دیئے جاتے ہیں۔ بقیہ کی گرفتاری اور ثبوت کے تمام رپورٹوں میں لکھا جاتا ہے کہ یہ سب جرم اسی شخص نے کئے ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ بہت خطرناک ہو چکا ہوتا ہے پھر اس خطرناک شخص کا سر اتارنے کا فیصلہ کر لیا جاتا ہے چونکہ وہ شخص بہت خطرناک قرار دیا جا چکا ہوتا ہے لہٰذا اس کے سر کی قیمت لاکھوں روپے مقرر کی جاتی ہے۔ یہ شخص پھر بھی گرفتار نہیں ہوتا پھر اس کے سر کی قیمت دس سے بیس اور بیس سے بڑھا کر پچاس لاکھ روپے کر دی جاتی ہے جس کے بعد اچانک ایک روز معلوم ہوتا ہے کہ وہ خطرناک ترین اشتہاری گزشتہ رات ایک پولیس مقابلے میں مارا گیا ہے۔ پولیس مقابلے کی تفصیلات کے مطابق وہ اپنے ساتھیوں سمیت ایک کار میں اپنی محبوبہ کے درشن کے لئے جا رہا تھا کہ ایک ناکے پر پولیس کے ہتھے چڑھ گیا۔ اس کے ساتھیوں نے پولیس اہلکاروں پر فائر کھول دیا، کوئی گولی کسی اہلکار یا افسر کو نہیں لگی جبکہ پولیس اہلکاروں کی طرف سے چلائی جانے والی گولیاں ٹھیک نشانے پر لگیں اور اس کے جسم کے پار ہو گئیں۔ پولیس فورس کی سانسیں بحال ہو جاتی ہیں، عوام بھی سکھ کا سانس لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں اب سکون ہو جائیگا۔ ٹھیک چند روز بعد شہر کسی اور خطرناک شخص کسی اور گینگ کے سربراہ کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔ ایک کمیٹی نکلنے کے بعد دوسری کمیٹی ڈال دی جاتی ہے۔ کچے کا علاقہ اور کچے کے ڈاکو بھی ایک کمیٹی ہیں، یہ کمیٹی ہر سال دو مرتبہ نکلتی ہے۔ پہلی مارچ اپریل دوسری اکتوبر نومبر میں۔ خاص ضرورت کے تحت یہ کمیٹی ایک دو ماہ پہلے بھی نکالی جا سکتی ہے۔
کچے کا علاقہ سندھ پنجاب کی حدود میں آتا ہے جبکہ ایک راستہ تیسری طرف نکلتا ہے، کئی برسوں سے کچے کے ڈاکوئوں پر باقاعدگی سے یلغار کی جاتی ہے لیکن نتیجہ صفر ہی رہتا ہے۔ دو صوبوں کی پولیس کی اس سے بڑی ناکامی اور کیا ہوگی۔ کچے کے ڈاکوئوں کے بارے میں آج تک جو کچھ کہا گیا وہ یکطرفہ ہے۔ اب ڈاکوئوں نے یوٹیوب چینل بنا لیا ہے لہٰذا اب دوسری طرف کا موقف بھی سامنے آئے گا۔ اس سے قبل ایک مرتبہ کچے کے ڈاکوئوں نے جلوس نکالا اور حکومت سندھ سے درخواست کی کہ انہیں سندھ پولیس کے ظلم و ستم سے بچایا جائے۔ اس احتجاج کی تصویریں ملک کے سب سے بڑے اخبار میں شائع ہوئی تھیں جب ان سے پولیس کے مظالم کے بارے میں پوچھا گیا تو معلوم ہوا کہ وہ صرف ایک معاملے میں انصاف چاہتے ہیں۔ پولیس ان سے ہر مہینے بھتہ لیتی ہے اور بروقت بھتہ پہنچانے کے باوجود انہیں تنگ کرتی ہے۔ ناکے لگا کر انہیں روکتی ہے اور ان کی جیبیں خالی کر دیتی ہے۔
چند روز قبل کمیٹی کسی وجہ سے پھنس گئی تو کچے کے ڈاکوئوں سے اصل پولیس مقابلہ ہوگا جس میں بندوقوں، آٹومیٹک رائفلوں اور راکٹ لانچروں کا استعمال کیا گیا۔ اس پولیس مقابلے میں درجن بھر پولیس اہلکار جاں بحق ہو گئے کچھ کو یرغمال بنا لیا گیا انہیں چھڑانے کے لئے جیل میں بند ایک ملزم کو رہا کیا گیا۔ کردار اور قانون کی اس سے بڑی کمزوری کیا ہوگی۔
کچے کے معزز ڈاکوئوں کی طرف سے یو ٹیوب پر موجود ایک کلپ میں بتایا گیا ہے کہ انہیں اسلحہ پولیس کی طرف سے ملتا ہے وہ اس کی نقد ادائیگی کرتے ہیں۔ چند ماہ قبل پولیس کی اسلحہ سے بھری گاڑی کچے کے علاقے کی طرف سپلائی کیلئے جا رہی تھی راستے میں پکڑی گئی تو ڈاکوئوں کے بیان کی تصدیق ہو گئی ورنہ اس سے قبل خیال کیا جا رہا تھا کہ یہ بیان انہوں نے دل پشوری کرنے کرنے کیلئے جاری کیا تھا۔ سندھ پولیس کے ایک ڈی ایس پی صاحب کا بیٹا پولیس کی گاڑی میں بھتہ وصولی مہم پر آیا کرتا تھا اس کی ریکارڈنگ بھی ٹی وی کلپس میں موجود ہے۔
ایک ڈاکو بھائی نے علاقے میں آنے والے یو ٹیوبر کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ وہ اللہ کے فضل سے گریجوایٹ ہے۔ پرامن اور قانون پسند شہری ہے چونکہ اس کا خاندان کچے کے علاقے میں ہے لہٰذا اسے بھی ڈاکو ہی شمار کیا جاتا ہے۔ ایک اور ڈاکو بھائی سے پوچھا گیا کہ راکٹ لانچر اور جدید رائفلیں آپ کے پاس کہاں سے آئیں تو انہوں نے نہایت معصومیت سے جواب دیا کہ ہم نے یہاں جنگلوں میں کوئی اسلحہ تیار کرنے کی فیکٹری تو نہیں لگا رکھی۔ ہمارے پاس جو بھی اسلحہ ہے وہ پولیس کا مہیا کردہ ہے۔ ڈاکو لیڈر نے اظہار خیال کرتے ہوئے بتایا کہ لانچز کے ذریعے چلائے جانے والے ایک راکٹ کی قیمت تیس ہزار روپے ہے، ہم اپنی حفاظت کیلئے اپنی آمدن کا ایک بڑا حصہ اسلحہ کی خریداری پر خرچ کرتے ہیں۔ گزشتہ روز اخبارات میں شائع ہونے والی ایک خبر میں بتایا گیا کہ پنجاب پولیس کے پچیس اہلکاروں نے راجن پور کے علاقے کچے کے ڈاکوئوں کے خلاف آپریشن میں حصہ لینے سے انکار کر دیا۔ وہ راستے میں ہی پولیس کی گاڑیوں سے اتر گئے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنے نقصان کے خود ذمہ دار ہیں جبکہ ان کے انچارج نے اس طرز عمل کے سبب ان کے خلاف کارروائی کی سفارش کی ہے۔ یہ پولیس اہلکار فاروق آباد کانسٹیبلری سے روانہ کئے گئے تھے جو ظاہر پیر انٹرچینج کے قریب اتر گئے جس کے بعد آئی جی پنجاب نے متبادل اہلکار بھجوائے۔
ایک ڈکو بھائی یہ بتاتے نظر آئے کہ ڈیل کے تحت بعض اوقات پولیس اہلکار اسلحہ چھوڑ جاتے ہیں۔ ایک گینگ کے سربراہ نے بتایا کہ ان کے قبیلے کے پاس ساٹھ ایکڑ زمین ہے وہ کاشتکاری کرتے ہیں جب فصلیں کھڑی ہو جاتی ہیں تو علاقے کے زمیندار اور پولیس کی فرمائشیں بڑھ جاتی ہیں جنہیں پوری نہ کرنے پر فصلیں زبردستی اٹھا لی جاتی ہیں۔ وہ پرامن لوگ ہیں، قانون کے مطابق زندگی گزارنا چاہتے ہیں لیکن انہیں بلاوجہ تنگ کیا جاتا ہے۔ ایک ویڈیو کلپ میں دکھایا گیا کمسن بچے ہاتھوں میں بندوقیں لئے نشانہ بازی کر رہے ہیں کہ جانے کب نیا آپریشن شروع ہو جائے، پکے کے ڈاکوئوں کے کارنامے تو روز آپ کے سامنے آتے رہتے ہیں فیصلہ آپ نے کرنا ہے بڑے کارنامے کس کے ہیں۔
تبصرے بند ہیں.