پنجاب ہائی وے پولیس کے نام کھلا خط

17

دنیا کے قریب پچپن ساٹھ ممالک جن میں امریکہ، کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی، سپین، سکینڈے نیوین ممالک، روس اور چین جیسے دنیا کے ترقی یافتہ ترین ممالک شامل ہیں دیکھنے کا موقع ملا بلکہ قریب 20 ممالک میں ان کی لوکل اور نیشنل ہائی ویز پہ ڈرائیونگ کا تجربہ بھی رہا۔ ہر ملک کے ہائی ویز کے قوانین وہاں کی جغرافیائی خدوخال اور موسم کے مطابق بنائے جاتے ہیں اور ہر جگہ وہاں کے عوام انہیں من و عن تسلیم کرتے ہوئے ان کی پاسداری کرتے پائے گئے۔ یاد ہے کہ جب سویڈن اور ناروے میں گاڑی چلائی تو حد رفتار 80-100 کلومیٹر رہی۔ اسی طرح جرمنی کی آٹوبان پہ رفتار بہت زیادہ رہی۔ امریکہ اور کینیڈا میں ایوریج 100-120 کلو میٹر رہی۔ لیکن جو چیز وہاں کی منفرد اور خوبصورت نظر آئی وہ ہر قسم کی ٹریفک کی طرف سے ہائی وے قوانین کی مکمل پاسداری تھی۔ جس میں بنیادی چیز لین ڈسپلن اور کنٹرولڈ سپیڈ ٹھہری۔ چاہے جتنا بھی رش ہو، ہیوی ٹریفک کو ہمیشہ اپنی کم سپیڈ اور لوڈ کی وجہ سے آخری لین میں ہی رواں دواں دیکھا اور لائٹ ٹریفک فاسٹ لینز استعمال کر کے اپنا رستہ بناتی نظر آتی رہی۔ اس ضمن میں شاہراؤں کے صحیح استعمال اور ٹریفک کی روانی کو یقینی بنانے کے لیے ان کی ٹریفک پولیس کا کردار ہمیشہ نمایاں نظر آیا۔

اب پچھلے کئی ہفتے سے وطن عزیز میں گاڑی چلانے کا اتفاق ہوا ہے۔ حیرانی اس وقت ہوئی جب تمام ہیوی ٹریفک کو فاسٹ لین میں انتہائی کم رفتار کے ساتھ گاڑیاں چلاتے دیکھا۔ حد تو اس وقت ہوتی رہی جب تمام تر کوشش کے باوجود ٹرک ڈرائیور حضرات فاسٹ لین چھوڑنے سے نا صرف انکاری رہے بلکہ انتہائی ڈھٹائی سے سپیڈ اور کم کر کے اپنے پیچھے لمبی لائنیں لگواتے رہے اور پیچھے آنے والی ٹریفک کو مجبور کرتے رہے کہ وہ ان کے لیفٹ سائیڈ سے غیر قانونی طور پہ اوور ٹیک کر کے آگے نکل جائیں۔ حیرت اس وقت بھی ہوئی کہ جب پی ایچ پی کے باوردی اہلکار سڑک کنارے گاڑیاں کھڑی کر کے موٹر سائیکلوں اور رکشہ ڈرائیور حضرات کے چالان تو کرتے نظر آئے لیکن پاس سے گزرتی فاسٹ لین میں چلتی ہیوی ٹریفک اور لیفٹ سائیڈ سے مجبوراً اوور ٹیک کرتی لائٹ ٹریفک سے چشم پوشی کرتے رہے۔ ایک جگہ رک کر کچھ اہلکاروں کی توجہ اس طرف مبذول کرائی تو انہوں نے یہ کہہ کر جان چھڑا لی کہ یہ لوگ صرف ایک آدھا میل ہی صحیح لین میں چلیں گے پھر دوسری طرف آ جائیں گے۔ ہمارے بحث کرنے پہ انچارج نے حکم صادر کیا کہ ہم اس سلسلے میں متعلقہ بڑے افسران سے رابطہ کریں اور ان کی جان چھوڑیں۔ لہٰذا ہم آدھا گھنٹہ لا حاصل بحث مباحثے کے بعد وہاں سے نامراد ہو کر آگے بڑھ گئے۔

اسی طرح پچاس سال کے طویل عرصے کے بعد وزیر آباد ضلع کی ایک مین روڈ جو ضلع کو دوسرے اضلاع حافظ آباد اور منڈی بہاؤالدین سے ملاتی ہے۔ اسے ڈیڑھ ارب روپے کی لاگت سے دوبارہ تعمیر کیا گیا۔ اب حالت یہ ہے کہ اس سڑک کو مکمل ہوئے چھ ماہ بھی نہیں گزرے کہ ہر روز یہاں سے 600 سے زیادہ ٹرک اور ڈمپر ڈبل وزن کے ساتھ بلا ناغہ گزر رہے ہیں اور سڑک کا ایک حصہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونا شروع ہو گیا ہے۔ قیاس ہے کہ اگر اتنی ہی تعداد میں اوور لوڈڈ ہیوی ٹریفک ایک ماہ اور گزری تو سڑک نام کی کوئی چیز باقی نا بچے گی۔ مقامی پولیس نے ایک دو دن کوشش کی لیکن جونہی وہ وہاں سے ہٹے۔ پھر اوور لوڈڈ ٹرک اور ڈمپر واپس آ گئے۔ جب دوبارہ رابطہ ہوا تو پتہ چلا کہ یہ ان کی ذمہ داری نا ہے بلکہ یہ پنجاب ہائی وے پولیس یا پنجاب ہائی وے پٹرولنگ یعنی پی ایچ پی کی ذمہ داری ہے کہ وہ اوور لوڈڈ گاڑیوں کو کسی بھی بڑی شاہراہ پہ آنے سے نا صرف روکیں بلکہ ٹریفک کی روانی اور صحیح لین کا استعمال کرائیں۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ پی ایچ پی کے اہلکار اس طرف توجہ دینے سے انکاری ہیں۔ اسی طرح وزیر آباد سے گوجرانوالہ جانے کے لیے جی ٹی روڈ کا استعمال ہوتا ہے۔ جی ٹی روڈ انتہائی مصروف اور آباد سڑک ہے لیکن یہاں بھی ہیوی ٹریفک کے فاسٹ لین کے استعمال کی وجہ سے ٹریفک کی روانی میں شدید خلل رہتا ہے۔ پچھلے ایک ماہ میں جی ٹی روڈ پہ مختلف اوقات میں سفر کرتے ہوئے ٹرکوں کے فاسٹ لین کے استعمال کی وجہ سے غلط سائیڈ سے اوور ٹیک کرتی ٹریفک کے کئی حادثات ہوتے دیکھے۔

پی ایچ پی کے افسران بالا سے درخواست ہے کہ وہ اس طرف فوری توجہ دیں اور ہیوی ٹریفک کے صحیح لین کے استعمال کو یقینی بنا کر نا صرف ٹریفک کی روانی کو مزید بہتر بنائیں بلکہ مجبوری میں لوگوں کو غلط سائیڈ سے اوور ٹیک کرنے کی وجہ سے درپیش حادثات کے تدارک کے لیے بھی اقدامات کریں۔ وزیر آباد تا حافظ آباد روڈ پہ اوور لوڈڈ ٹرک اور ڈمپرز کا داخلہ بند کریں اور سڑک کے معیار کے مطابق ایک خاص تعداد کو ہی یہ رستہ استعمال کرنے کی اجازت دی جائے۔ کیونکہ اربوں روپے کی لاگت سے سڑکیں ہر روز نہیں بنتی۔ اگر بنتی ہیں تو ہیوی ٹریفک کے مسلسل دباؤ کی وجہ سے عام حالات میں سالہا سال چلنے والی یہ شاہرائیں مہینوں میں ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہیں۔ جس سے سرکار کا مالی نقصان اور اہلیان علاقہ کی تکالیف میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ خدارا، ضلع وزیر آباد میں کوٹ ہرا کے مقام پہ اہلکار تعینات کریں جو نئی تعمیر شدہ سڑک کو اوور لوڈڈ ہیوی ٹریفک کی تباہی سے بچائیں۔ اسی طرح جی ٹی روڈ پہ لین ڈسپلن کی پابندی کو یقینی بنانے کے لیے فوری اقدامات کریں۔ کیونکہ وقت نے ثابت کیا ہے کہ یقیناً قوموں اور ملکوں کی ترقی میں چھوٹی بڑی شاہرائیں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ وطن عزیز میں جب ایک سرکاری محکمہ اچھا کام کر کے کسی علاقے کی ترقی کے لیے کوئی نئی شاہراہ بناتا ہے تو دوسرا سرکاری محکمہ اپنی بے توجہی سے اس کی تباہی کا بندوبست کر رہا ہوتا ہے۔

تبصرے بند ہیں.