سرکاری دفاتر میں پیپر … فری ورکنگ

30

ایک ایسے دور میں جب دنیا بھر میں ڈیجیٹل تبدیلی مختلف شعبوں کو نئی شکل دے رہی ہے، سرکاری دفاتر کو بھی کاغذ سے پاک آپریشنز اپنانے کے لیے کوششیں تیز تر کرنا ہوں گی۔ واضح رہے کہ دفاتر میں پیپر فری ورکنگ متعارف کرانے سے صرف کاغذ کی کھپت ہی کم نہیں ہو گی بلکہ ایسا کرنے سے کارکردگی، شفافیت اور پائیداری میں بھی خاطر خواہ اضافہ ممکن ہے۔ کاغذ سے پاک ورکنگ کیلئے کی جانے والی حکومتی کاوشوں کے پیچھے محرکات میں سے ایک ماحولیاتی پائیداری بھی ہے۔ سرکاری دفاتر روایتی طور پر کاغذ کے بڑے صارف ہیں۔ چونکہ کاغذ کی زیادہ پیداوار جنگلات کی کٹائی، پانی کے زیادہ استعمال اور توانائی کی زیادہ کھپت کی وجہ بن رہی ہے لہٰذا پیپر لیس ہو کر، حکومتیں نہ صرف اپنے کاربن فٹ پرنٹ کو کم کر سکتی ہیں بلکہ قدرتی وسائل کو بھی بچا سکتی ہیں اور عالمی ماحولیاتی کوششوں میں اپنا حصہ ڈال سکتی ہیں۔اس کے علاوہ کاغذ کے ریکارڈ کو پرنٹ کرنا، ذخیرہ کرنا اور برقرار رکھنا ایک مہنگا کام ہے۔ حکومتیں کاغذ، سیاہی، پرنٹرز اور فزیکل سٹوریج پر کافی زیادہ رقم خرچ کرتی ہیں۔ ای آفس سسٹم پر منتقلی نہ صرف ان اخراجات کو کم کر سکتی ہے بلکہ دستاویزات کی تلاش، آرکائیونگ اور نقل و حمل سے وابستہ اخراجات کو بھی کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔

سرکاری دفاتر میں کاغذ پر مبنی کارروائی اکثر وقت طلب ہوتی ہے اور اس میں انسانی غلطی کے امکانات بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ ڈیجیٹل سسٹم اپنانے سے تیز تر فائل ورک اور ریکارڈ تک آسان رسائی ممکن ہو سکتی ہے، بیوروکریٹک تاخیر کو نمایاں طور پر کم کیا جا سکتا ہے اور سرکاری ملازمین کاغذی کارروائی کے نام پر وقت ضائع کرنے کے بجائے ویلیو ایڈڈ کاموں پر زیادہ توجہ کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس سسٹم کو اپنانے سے سرکاری اور حساس دستاویزات میں چھیڑ چھاڑ یا نقصان کے خطرے کو بھی کم کیا جا سکتا ہے۔

ڈیجیٹل سسٹم یعنی کاغذ سے پاک سرکاری دفاتر کا مطلب یہ ہو گا کہ سرکاری دفاتر میں شہریوںکے کام تیزی اور کرپشن فری طریقہ انجام دئیے جا سکیں۔ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز آن لائن ایپلی کیشنز، ای دستخطوں اور ورچوئل کمیونیکیشن کو ممکن بنائیں گے اور اس کے نتیجہ میں لوگوں کی سرکاری دفاتر میں دھکے کھانے سے کافی حد تک جان چھوٹ جائے گی، خاص طور پر دور دراز یا غیر محفوظ علاقوں میں اس سسٹم کا بہت زیادہ فائدہ ہو گا۔ہمارے ملک میں بھی سرکاری دفاتر کے نظام کے ڈیجیٹلائز کرنے کی باتیں تو کافی عرصہ سے ہو رہی ہیں لیکن چونکہ اس عمل سے سرکاری بابووں کے اختیارات کے ناجائر استعمال اور دیگر گڑبڑوں پر ضرب پڑتی ہے اسی وجہ سے اب تک اس پر عمل درآمد ممکن نہیں ہو پا رہا تھا۔لگتا ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے اس معاملہ کی اہمیت اور اس کے نفاذ میں تاخیر کی وجوہات کو سمجھا ہے اسی وجہ سے انہوں نے وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی کمیونیکیشن اور متعلقہ اداروں کو ہدایت جاری کر دی ہیں کہ فوری طور پر وفاقی حکومت کے دفاتر میں ای آفس سسٹم کو لاگو کر کے پیپر لیس ماحول کو یقینی بنائیں۔

وزیراعظم نے زور دے کر کہا ہے کہ ای آفس سسٹم کو اپنانے میں کسی قسم کی تاخیر برداشت نہیں کی جائے گی۔ اس سلسلہ میں ایک ڈیڈ لائن مقرر کرنے کی ہدایت کی گئی ہے تا کہ اس مدت کے اندر تمام وفاقی دفتری فائلوں پر ای … آفس سسٹم کے ذریعے کارروائی کا آغاز کیا جا سکے۔ وزیر اعظم شہباز نے یہ بھی کہا کہ وہ اگلے مہینے سے ایسی کسی بھی فائل کا جائزہ نہیں لیں گے جو ای آفس پلیٹ فارم کے ذریعے جمع نہیں کرائی جائے گی۔ سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ آپریشنز کو ڈیجیٹائز کرنے کے ذریعے، حکومت سرکاری کاموں میں تاخیر کو کم کرنے، دستاویزات کے ضائع ہونے کے خطرے کو کم کرنے اور تمام وفاقی دفاتر میں زیادہ منظم ورک فلو کو بہتر انداز میں یقینی بنانے کی کوشش کر سکتی ہے۔ وزیر اعظم آفس نے پہلے ہی اپنے عملہ کے لیے ضروری ای آفس ٹریننگ مکمل کر لی ہے اور وزیر اعظم نے پچھلے ہفتے نئے سسٹم کے ذریعے فائلیں وصول کرنا شروع کر دی ہیں۔بلاشبہ ڈیجیٹل اور پیپر فری سسٹم کو متعارف کرانا اور اس پر کامیابی سے عملدرآمد کرانا حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہو گا اور اس میں ہارڈ ویئر، سافٹ ویئر اور نیٹ ورکس کو اپ گریڈ کرنے، سٹاف کی ضروری حد تک ٹریننگ اور اس ساتھ ساتھ ڈیٹا کے تحفظ اور سائبر سکیوریٹی کو یقینی بنانے پر ایک بڑا بجٹ صرف کرنا پڑے گا۔حکومتی ریکارڈ کی ڈیجیٹائزیشن میں ڈیٹا کی حفاظت اور رازداری کے معاملات بھی بہت اہم اور توجہ طلب ہوں گے اور ان معاملات میں کوتاہی سرکاری رازوں کے ساتھ ساتھ ملکی تحفظ کے لیے بھی خطرناک ہو سکتی ہے، حساس معلومات کو سائبر حملوں اور غیر متعلقہ افراد کی رسائی سے محفوظ رکھنے کے لیے بھی خصوصی اقدامات درکار ہوں گے۔

اپنی جدید ڈیجیٹل حکومت کے لیے مشہور، ایسٹونیا نے ای … گورنمنٹ سسٹم کے ذریعے اپنے شہریوں کو ووٹنگ سے لے کر ٹیکس فائلنگ تک وسیع پیمانے پر آن لائن عوامی خدمات تک رسائی کی اجازت د ے رکھی ہے۔ یہاں تقریباً 99 فیصد عوامی خدمات ڈیجیٹل طور پر دستیاب ہیں۔ سنگاپور کی حکومت نے اپنی عوامی خدمات کو ڈیجیٹل بنانے کے لیے سمارٹ نیشن پروگرام جیسے پروگرام متعارف کرائے ہوئے ہیں جن کا مقصد کاغذ کے استعمال کو کم کرنا اور عوامی خدمات کی فراہمی کو بہتر بنانا ہے۔ بھارت نے بھی ڈیجیٹل انڈیا جیسے اقدامات کے ذریعے ای … گورننس پروگرام شروع کیے ہیں۔
اگرچہ اس کام میں کئی چیلنجز درپیش ہوں گے لیکن پھر بھی وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے سرکاری دفاتر کو ڈیجیٹلائز اور پیپر فری کرنے کا بیڑا اٹھا لیا گیا ہے جو یقینی طور پر ایک احسن قدم ہے اور اس سے ناصرف سرکاری اداروں کی کارکردگی پر ایک مثبت اثر پڑے گا بلکہ عوام کو بھی کافی زیادہ ریلیف پہنچنے کے امکانات موجود ہیں۔ اس نئے سسٹم کے متعارف ہو جانے کے بعد یہ مشاہدہ کرنا بھی خاصا دلچسپ ہو گا کہ وہ سرکاری دفاتر جن کی جڑوں میں رشوت اور سفارش کا کلچر اس حد تک سرایت کر چکا ہے کہ اس کے بغیر کسی بھی کام کے ہو جانے کی امید ہی نہیں ہوتی، وہاں کے معاملات اس نئے نظام میں کس طرح چلیں گے اور وہ اہلکار جن کا سالہا سال کی رشوت ستانی کے بعد اب رشوت کے بغیر گزارا ہی ممکن نہیں وہ کیا لائحہ عمل اختیار کریں گے۔ یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ کہیں شہباز شریف صاحب کی اس ڈیجٹلائزیشن اور پیپر فری پالیسی کو اسی طرح ناکام تو نہیں بنا دیا جائے گا جس طرح لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے) کے دفاتر میں ون ونڈو آپریشن کو ناکام بنا دیا گیا تھا یا پھر کچھ بہتر صورتحال ہو گی۔

تبصرے بند ہیں.