ستم ظریف سلیب سسٹم

13

سخت گرمی اور حبس کے عالم میں مختلف قسم کے بڑھتے ہوئے ٹیکسز عوام میں ایک عجیب قسم کی بے چینی اور اضطراب کو جنم دے رہے ہیں جسے مزید ہوا سلیب سسٹم کے ظالمانہ اور جابرانہ نظام سے مل رہی ہے ۔سلیب سسٹم اصل میں آئی ۔ایم۔ ایف۔ کی طرف سے تجویز شدہ بلکہ حکماً نافذ العمل ایک ایسا پھندہ ہے جس نے ملک کے امیر و غریب کو اپنے شکنجے میں لے رکھا ہے۔ اپنی اپنی جگہ پر ہر کوئی پریشان ہے ۔پوری دنیا میں بزنس کا اصول ہے کہ جس قدرخریداری اسی قدر اس کی قیمت کم۔آپ ایک چیز خرید رہے ہیں تو ایک ہی کے پیسے دے رہے ہیں ، دو خرید رہے ہیں تو دو کے پیسے اور اگر زیادہ خرید رہے ہیں تو زیادہ کے پیسے ادا کر رہے ہیںبلکہ اگربہت زیادہ مقداریا تعداد میں خریداری کر رہے ہیں تو قیمت اور بھی کم ہو جاتی ہے بلکہ اکثر اوقات ساتھ میں بونس بھی مل جاتا ہے۔

یہ ازل سے خرید و فروخت کا اصول ہے مگر یہاں بالکل الٹ چل رہا ہے بجلی کے 100 یونٹس تک قیمت اور ہے، 100 سے 200 ، 200 سے 300 اور 300 سے 400تک ریٹ اور بڑھ جاتا ہے جبکہ 400 سے زائد کا ریٹ اور بھی زیادہ ہے ، اس کے علاوہ ساتھ ہی ساتھ ٹیکسز کی بڑھتی ہوئی شرح اس پر مستزاد ہے۔اور تو اور اس بات کا بھی کوئی پتہ نہیں کہ کب سابقہ استعمال شدہ یونٹس اور سابقہ مہینوں میں استعمال شدہ بجلی کسی فیول ایڈجسٹمنٹ یا ایڈوانس ٹیکس کی شکل میں سامنے آجائے۔جن کا تھوڑا بہت بھی بس چلتا ہے وہ سولر سسٹم لگا کر کسی نہ کسی حد تک اس چنگل سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں اور جن کا بس نہیں چل رہا وہ ظلم اور بے حسی کی چکی میں پس رہے ہیں۔سلیب سسٹم کے اس بے انصاف نظام کے تحت سلیب کی حد سے ایک یونٹ بھی مزید جلانے پر بجلی کی قیمت کئی سو گنا بڑھ جاتی ہے اور اس پر بھی بے انصافی کی حد یہ کہ آپ کو اگلے چھ ماہ کے لیے بل اسی بڑھی ہوئی شرح سے ہی آئے گا چاہے آپ نے سو یونٹ سے بھی کم استعمال کیے ہوں۔آجکل روٹی پانی سے زیادہ اکثریت اس فکر میں رہتی ہے کہ کہیں یونٹ 200 سے 201 نہ ہو جائیں۔۔ادھر یونٹ 200 سے بڑھے ، ادھر بل کہیں سے کہیں پہنچ گیا۔۔اس عالم بے یقینی اور استحصال میںجب کاروبار حیات چلانا مشکل ہو وہاں کاروبار دنیا کیا خاک ترقی کرے گا۔یہ سراسر بے انصافی ،ظلم اور استحصال ہے۔۔۔۔!

یہی حال گیس کے بلز کا ہے، وہاں بھی سلیب سسٹم کی تباہ کاریاں اور ہلاکت خیزیاں پوری طرح سے جاری ہیں ، ادھر گیس کے ا ستعمال نے مقررہ سلیب سے اگلے سلیب میں قدم رکھا، ادھر بل میں ایک دم سے ہزاروں کا اضافہ ہوگیا۔ بالکل اسی طرح کی صورتحال کا سرکاری ملازمین کو سامنا ہے جن کی تنخواہ سے سلیب سسٹم کے تحت ٹیکس بھی کاٹا جاتا ہے اور فکسڈ ٹیکس الگ سے وصول کیا جاتا ہے اور بعد میں وہ پھر سے بجلی، گیس اور دیگر یوٹیلٹی بلز کی شکل میں ٹیکس درٹیکس ادا کرتے ہیں ۔حکومت ہرشے پر ٹیکس لے رہی ہے۔ نہانے کے صابن سے لے کر ٹوتھ برش تک چھوٹی سی چھوٹی شے پر بھی سیلز ٹیکس ہے ۔حتیٰ کہ ’’ مہربانوں ‘‘ نے معصوم بچوں کے دودھ اور انسانی جان بچانے والی ادویات تک کو بھی نہیں چھوڑا۔ جائیداد ، گاڑیوں کی خرید و فروخت، بجلی ،گیس اور پٹرول کی شکل میں حکومت کے پاس عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنے، انہیں بے یقینی کے گرداب میں دھکیلنے اور سلیب سسٹم کے گورکھ دھند ے میں پھنسا کر اپنا مطلب نکالنے اور ٹیکس در ٹیکس نظام کو فروغ دینے کا ہتھیار ہاتھ آگیا ہے ۔جیسے ایک بارسودی کاروبار میں پھنسنے والے کی اس چنگل سے رہائی بہت مشکل ہو جاتی ہے ، اسی طرح ٹیکسیشن کے موجودہ نظام سے عزت اور وقار کے ساتھ عہدہ بر آ ہونا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔

ظلم کے نظام کے اس جاری و ساری سلسلے اور ابتر صورتحال میں اگر کسی طرف سے کوئی امید کی جا سکتی ہے تو وہ صرف اعلیٰ عدلیہ ہی ہے جو اس ساری صورتحال کا نوٹس لے کر عوام کو اس دلدل سے نکال سکتی ہے اور’’ جتنی کھپت اتنی لاگت‘‘ کی آسان اور صحت مند راہ پر ڈال سکتی ہے ورنہ تو حکومتی سطح پر فگر سسٹم ، فائلر اور نان فائلر کی آڑ میں لوگوں کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنا ہی رہ گیا ہے۔ اس سے ایک تو عوام الناس اور کاروباری حلقوں میں شدید بے چینی پھیل رہی ہے ۔ لوگ ایک عجب سی بے یقینی اور تذبذب کا شکار ہیں کہ پتہ نہیںآج کیا ہوگا اور کل کیا، اس ماہ کتنا بل آئے گا، اگلے ماہ کتنا ہوگا اورجاتے ہوئے گاڑی کا یہ کرایہ ہے توواپسی پر کیا ہوگا۔ ۔۔۔! اس شبانہ روز فکر اور پریشانی میں گرفتار مخلوق خدا کی راحت کا ساماں کرنے اور تسلی کے دو بول تک بولنے کو کوئی تیار نہیں۔عوام کے ٹیکس سے چلنے والے اداروں اور عوام کی خدمت پر مامور اہل اقتدار کا عوام سے رویہ تلخ تر ہے ۔۔ایسے میں کوئی جائے بھی تو کہاں جائے اور کرے بھی تو کیا کرے۔۔۔!آگے کنواں ، پیچھے کھائی والی بات ہے۔زندگی گزارنے کو زندگی کے لوازمات درکار ہیں اور وہ ہر گزرتے ہوئے لمحے عوام الناس کی پہنچ سے دور اور بہت دور ہوتے جارہے ہیں۔سفید پوشی تک کا بھرم رکھنا بھی مشکل سے مشکل تر ہو رہا ہے۔۔۔!

اس بے یقینی کا لازمی نتیجہ عوامی اور کاروباری سطح پر بد اعتمادی اور بد دلی کی صورت میں نکل رہا ہے، لوگ اندر ہی اندر گھٹن، اضطراب ،بے یقینی، عدم اعتماد اور بے چینی کا شکار ہو رہے ہیں جس کے لیے سلیب سسٹم اور دوسرے ٹیکس در ٹیکس نظام پر نظر ثانی کر کے یکساں، آسان اور تاجردوست نظام رائج کرنے کی ضرورت ہے ۔۔۔!

تبصرے بند ہیں.