گذشتہ پیر کو کراچی کے علاقہ کارساز میں ہونے والے ٹریفک کے المناک حادثہ نے ہر کسی کو دکھی کر دیا اور خاص طور پر باپ بیٹی کی موت نے اس حادثہ میں دکھ اور غم کے مزید کئی رنگ بھر دیئے ہیں۔ عمران عارف ایک کم آمدن والے شخص تھے اور ظاہر ہے کہ آج کے شدید مہنگائی کے دور میں کم آمدن والے لوگ رکشے ٹیکسیوں میں تو آنا جانا افورڈ ہی نہیں کر سکتے تو اگر تو اس روٹ پر کوئی بس یا کوچ چلتی ہے تو ٹھیک ہے ورنہ پھر موٹر سائیکل ہی غریب کا سہارا بنتی ہے اور اس دن بھی عمران عارف اپنی بیٹی آمنہ کو شام کے وقت اس کے دفتر سے واپس گھر لا رہے تھے کہ پیچھے سے ایک امیر زادی نے اپنی کار کی ٹکر سے اس غریب باپ بیٹی کو ہمیشہ کے لیے موت کی نیند سلا دیا۔ حادثات ہوتے رہتے ہیں اور یہ زندگی کا حصہ ہوتے ہیں اور دنیا بھر میں ہوتے ہیں لیکن وطن عزیز تو دیسے حادثات کا گھر بن کے رہ گیا ہے۔ پورے ملک میں آپ دیکھ لیں کہ بلوچستان میں بسوں اور ٹرکوں سے اتار کر اور باقاعدہ شناخت کر کے پنجابی بولنے والوں کو انتہائی بے دردی سے قتل کیا جاتا ہے اور حکومتی رد عمل دو تین پریس کانفرنسز اور مذمتیں۔ رحیم یار خان میں ڈاکو گھات لگا کر پولیس پر فائر کھول دیتے ہیں اور ان پر راکٹ لانچر سے حملہ کرتے ہیں اور ایک پولیس اہلکار کو اغوا تک کر لیا جاتا ہے جس کی وڈیو بھی منظر عام پر آتی ہے اور بصد شکر ہے خدائے بزرگ و برتر کا کہ اس مغوی پولیس اہلکار کو ڈاکوئوں کے چنگل سے رہا کرا لیا گیا ہے اور کچے کے علاقہ میں آپریشن شروع کر دیا گیا ہے۔ یہی حال خیبر پختون خوا کا ہے کہ وہاں پر بھی آئے روز سکیورٹی فورسز پر حملے ہو رہے ہیں اور درجنوں سکیورٹی اہلکار جام شہادت نوش کر رہے ہیں۔ دہشت گرد بھی مارے جا رہے ہیں لیکن مسائل حل نہیں ہو پا رہے لیکن ان مسائل پر کسی اور نشست میں گفتگو ہو گی آج تو کراچی ٹریفک حادثہ پر بات کریں گے۔
کراچی کا کارساز کا علاقہ یہ شاہراہ فیصل کا وہی علاقہ ہے کہ جہاں 18 اکتوبر 2007 کو شہید بینظیر بھٹو کی وطن واپسی پر ان کے استقبالی قافلہ پر دو خود کش حملے ہوئے تھے اور اسی علاقہ میں یہ حادثہ بھی ہوا جو کئی جانیں لے گیا۔ جیسا کہ عرض کیا کہ دنیا میں حادثات ہوتے رہتے ہیں اور ان میں ظاہر ہے کہ لوگوں کی اموات بھی ہوتی ہے لیکن ہر حادثے کے کچھ المناک پہلو ہوتے ہیں جن کا احساس صرف حادثہ میں مرنے والوں کے لواحقین کو ہوتا ہے۔ کارساز حادثہ میں جس باپ بیٹی کی موت ہوئی ہے ہم صرف اس پر بات کر سکتے ہیں کالم لکھ سکتے ہیں۔ جس کی گاڑی نے ٹکر ماری اس امیر زادی کے خلاف دل کی بھڑاس نکال کر ہم واپس اپنے زندگی کے جھمیلوں میں مصروف ہو جائیں گے لیکن ایک لمحہ کے لیے رک کر سوچیں کہ جس گھر کے دو بندے کمانے والے تھے اور دونوں موت کے منہ میں جا کر منوں مٹی تلے سو چکے ہیں تو ان کی حالت کیا ہو گی۔ بہت عرصہ پہلے کالج کے زمانے میں ڈائجسٹ میں ایک کہانی پڑھی جو آج تک یاد ہے کہ ایک لڑکے کا والد فوت ہو جاتا ہے اور وہ اپنے والد کی میت پر زار و قطار روتا ہے اور اتنا روتا ہے کہ سب کو اس سے ہمدردی ہو جاتی ہے کہ اس کو اپنے والد سے کتنا پیار ہے لیکن وہ لڑکا جو سوچ رہا ہوتا ہے اسے پڑھ کر دل خون کے آنسو رونے لگ جاتا ہے۔ وہ لڑکا کہتا ہے کہ کوئی شک نہیں کہ مجھے اپنے والد سے بے انتہا پیار تھا لیکن میرے رونے کی اصل وجہ یہ تھی کہ گھر میں دوسرے دن کھانے کے لیے کچھ نہیں تھا اور نہ ہی کوئی پیسہ تھا۔ جس نے ٹکر ماری ہے یا جو بھی ڈرائیور تیز رفتاری، نشہ یا کسی بھی وجہ سے ایکسیڈنٹ کرتا ہے اور اس میں جو اموات ہوتی ہیں مارنے والوں کو یا کسی اور کو احساس نہیں ہوتا لیکن جن گھروں کے کفیل مرتے ہیں ان کی تو دنیا اجڑ جاتی ہے اور دنیا ہی نہیں اجڑتی بلکہ ذاتی تجربہ کی بنیاد پر کہہ رہے ہیں کہ بہت سوں کی تو نسلوں کا مستقبل تباہ ہو جاتا ہے اور وہ دوسرے کے زیر نگیں ہو کر رہ جاتے ہیں۔ سب سے پہلے حادثہ کی اصل وجہ تیز رفتاری اور اگر وہ بی بی نشہ میں تھی تو اس پر بات ہونی چاہیے اور انہی وجوہات کی بنا پر ملک میں حادثات ہوتے ہیں۔
جرم کرنے والے امیروں کے پاس اتنا پیسہ ہوتا ہے کہ وہ ان مجبور بے بس اور لاچار لوگوں کو کہ جن کے پاس آمدن کا کوئی ذریعہ رہتا ہی نہیں ہے ان کی اس مجبوری سے فائدہ اٹھا کر ان کے منہ اپنی دولت سے بند کر دیتے ہیں اور اسے دیت کا نام دے کر اس پر مذہب کا لبادہ اوڑھا دیا جاتا ہے۔ موجودہ کیس میں ابھی تک کوئی آفر تو نہیں ہوئی لیکن ریاست کو چاہیے کہ وہ مرنے والے خاندانوں کا مداوا کرے اور ان کی مالی مدد کرے کہ مرنے والے تو واپس نہیں آ سکتے لیکن جو زندہ ہیں ان کی زندگیوں میں تو آسانیاں پیدا کرنے کے اسباب مہیا کیے جا سکتے ہیں۔ دوسری جو سب سے اہم بات عرض کرنا تھی کہ ماضی کے اس طرح کے جتنے بھی واقعات ہوتے ہیں امیر امراء کے ہاتھوں جو قتل عمد بھی ہوئے ہیں ان میں انہیں سزا نہیں مل سکی تو اس کی وجہ ہمارا کمزور نظام انصاف ہے یا کمزور نظام قانون یا کمزور نظام ریاست لیکن جو بھی ہے اس کیس میں بھی امکان یہی ہے کہ غریب کی مجبوریوں کو امیر کی تجوریوں کے منہ کھول کر انہیں خرید لیا جائے گا اور یہ تو ایک طے شدہ حقیقت ہے اور صدیوں کے نچوڑ پر مبنی سچائی ہے کہ جس معاشرے میں جزا اور سزا کا قانون درست کام نہیں کرتا تو وہاں پر جرم کبھی رک نہیں سکتے اس لیے کہ سزا کا خوف ہی در حقیقت مجرم کو جرم کرنے سے روکتا ہے اور اگر سزا ہی نہیں ملنی تو بھاشن، تقریروں اور مذمتوں سے اگر کام بننے لگتے تو کشمیر اور فلسطین سمیت دنیا میں تمام مسائل حل ہو چکے ہوتے۔
تبصرے بند ہیں.