ماضی کے جھروکوں سے جھانکتا ہوں تو عمران نیازی کے ساتھ گزارے سیاسی لمحات کو سوچ کر ایک بات تو بہرحال خود بخود تسلیم کر لیتا ہوں کہ منافقت میں اُس شخص کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ اُس نے وزیر اعظم کا حلف اٹھانے سے پہلے اپنے کسی بانی رکن یا اہم کارکن کو یہ احساس تک نہیں ہونے دیا کہ وہ کس حد تک بے رحم ایجنڈے پر ہے۔ مجھے یہ بھی تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ ہم نے ایک نالائق قیادت کے علم تلے ایک بہتر اور مضبوط پاکستان کا خوا ب دیکھا اور اپنے اس خواب میں حقیقت کا رنگ بھرنے کیلئے اپنی تمام صلاحیتیں کسی فضول خرچ بچے کی طرح پی ٹی آئی پر لُٹا دیں۔ مجھے اس کا ہرگز افسوس نہیں کہ زندگی کے اتنے ماہ و سال کی مقصدیت ہم حاصل نہ کر سکے البتہ اس بات کا دکھ ضرور ہے کہ بہت نزدیک جا کر ہماری واپسی کا سفر شروع ہوا۔ عمران نیازی کو اگر اقتدار کی ہوس نہ ہوتی تو بھوک کی یہ آگ جو آج ہر گھر کو نگلنے کیلئے تیار بیٹھی ہے بس پلٹ کر محلوں کو لوٹنے والی تھی۔ یہ لازمی نہیں تھا کہ ہر بار اسٹیبلشمنٹ ہی اپنے ترتیب دیئے ہوئے پروگرام کے مطابق کامیاب ہو۔ وقت ہے، الٹی چال بھی چل سکتا تھا لیکن یہ اب ماضی کا قصہ ہے اور ہم حقیقت کی ایک بے رحم دنیا میں رہ رہے ہیں۔ عمران نیازی نے جرائم کی جتنی فہرست اپنے خلاف بنوا لی ہے وہ شیطان کی آنت سے بھی کہیں طویل ہے۔ اس پنجرے سے نکلتے ہوئے اُسے ابھی بہت وقت لگے گا اور اگر جلد نکل بھی گیا تو اپنا بہت کچھ پاکستان کو واپس کر کے جائے گا جو اُس نے مکاری اور منافقت کی بنیاد پر پاکستان سے ہتھیا رکھا تھا۔ جھوٹی قیادت، غیر نظریاتی سیاست، بد ترین کرپشن، اپنے ہی ورکرز کا سیاسی قتل عام، بزدار، گوگی اور پنکی کی کارستانیاں اور پاکستان کے اداروں کے خلاف سازشیں، ریاست پاکستان پر طویل عرصہ تک قبضے کی منصوبہ بندی، عدلیہ کی غیر آئینی حمایت، کشمیر پر مجرمانہ خاموشی اور ایسے لا تعداد کیسز جن کی فہرست کیلئے کئی کالمز درکار ہیں۔ عالمی طاقتیں پاکستان کو اپنے کھیل کا میدان بنا رہی ہیں بلوچستان میں ہونے والی خون ریزی بھی اُسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جس میں پاکستان کو چاروں طرف سے گھیرا جا رہا ہے۔ بلوچستان میں بیرونی اور خیبر پختونخوا میں اندرونی دشمنوں نے اودھم مچا رکھا ہے۔ کچے کے ڈاکوئوں اور بلوچ لبریشن آرمی کے بدنما عمل نے ہر روح زخمی کر دی ہے۔ ان خبروں میں عمران نیازی کہیں دب گیا ہے جس کو رہا کرانے کیلئے کبھی کسی برطانوی یونیورسٹی کے چانسلر کا الیکشن لڑانے کی تیاری کی جا رہی ہوتی ہے اور کبھی امریکی سینٹ قرارداد اُس کے حق میں منظور ہو رہی ہوتی ہے۔ اب تو پی ٹی آئی نے ٹرمپ کے انتخاب جیتنے کے ساتھ عمران نیازی کی رہائی اور اقتدار میں واپسی کو مشروط کرنا شروع کر دیا ہے یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے ایبسلیوٹلی ناٹ کہہ کہہ کر آسمان سر پر اٹھا رکھا تھا۔ عمران نیازی کے تمام بیانیے اپنی موت آپ مر رہے ہیں۔ اُن کی ہمشیرہ نے پی ٹی آئی کی قیادت خود سنبھال لی ہے سو عمران کا موروثی سیاست کا بیانیہ بھی اپنی موت آپ مر گیا ہے۔
9 مئی تو بہت بعد کی بات ہے حقیقت یہ ہے کہ جس دن عبد العلیم خان کے بجائے بزدار کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا تھا میرا سیاسی تعلق تو اُسی دن عمران نیازی سے ختم ہو گیا تھا کیونکہ میں عبد العلیم خان اور اُس کی صلاحیتوں سے تو خوب واقف تھا لیکن بزدار نامی شخص کی جو پہلی تصویر مجھے ملی اُس میں موصوف مشرف دور میں پرویز الٰہی کی فائلیں اٹھائے اُس کے ساتھ ساتھ تھے۔ بانی اراکین کو بزدار کے ساتھ مکمل تعاون کے احکامات سیف اللہ نیازی کی طرف سے موصول ہوئے لیکن جس شخص کی شکل تو دور اُس کا نام بھی 27 جولائی 2018ء سے پہلے کبھی نہیں سنا تھا اُس کے ساتھ کیسے چلا جا سکتا تھا؟ عبد العلیم خان بڑے ظرف کا آدمی ہے اُس نے بزدار کی تعیناتی کے بعد بھی مکمل تعاون کیا لیکن کم ظرف انسان کے ساتھ فیض کر کے انسان ہمیشہ بے فیض رہتا ہے۔ میاں محمد بخش صاحب نے درست فرمایا ہے کہ
نیچاں دی آشنائی کولوں فیض کسے نہ پایا
کیکر تے انگور چڑھایا ہر گچھا زخمایا
یہی عبد العلیم خان کے ساتھ ہوا جس نے اپنی صلاحیتیں اور سرمایہ سب کچھ عمران نیازی پر نچھاور کر دیا تھا۔ خدا جانتا ہے کہ عبد العلیم خان سے طویل اور مختصر ملاقاتوں میں اُس نے کبھی عمران نیازی کے یوٹرن پر کوئی گلہ یا شکایت نہیں کی البتہ ایک بہتر پاکستان کیلئے اُس نے پھر بھی اپنا کردار خوب نبھایا لیکن جب خرابی اوپر سے نیچے آ رہی ہو تو پھر معاملات کبھی درست نہیں ہوتے۔ ارسطو نے کہا تھا کہ اچھے انسان کے ساتھ کبھی بُرا نہیں ہوتا۔ وہی عمران نیاز ی جو کل تک دوسروں کو جیلوں میں بند کرا کر بغلیں بجا رہا تھا، سابق وزیر اعظم کو جیل میں بند کر کے اُس کا اے سی اتروا رہا تھا آج اُسے سات کمروں کی بیرک بھی کال کوٹھری دکھائی دیتی ہے۔ علیم خان اچھا انسان ہے اللہ نے اُس کے ساتھ اچھا سلوک کیا۔ عمران نیازی آج جیل میں ذلت آمیز دن گزار رہا ہے اور عبد العلیم خان کے پاس تین وفاقی وزارتیں ہیں۔ نجکاری کے حوالے سے امید ہے کہ اکتوبر میں پی آئی اے کا ٹینڈر چھپ جائے گا۔ ملازمین کو پانچ سال تک ملازمت کی ضمانت دی جائے گی، پی آئی اے یونین کے ساتھ مکمل بات چیت ہو گی اور بہت حد تک ہو بھی چکی سو امید کی جا سکتی ہے کہ وہ عبد العلیم خان جو
کل عمران نیازی کو کہہ رہا تھا کہ اگر بزدار کی ہر نالائقی کا ذمہ دار آپ مجھے سمجھتے ہیں تو آپ مجھے مرکز میں بلا لیں لیکن عمران نیازی نے مرکز میں نت نئے کھیل کھیلنے تھے سو اُسے ایسے کسی شخص کی ضرورت نہیں تھی جس کا اپنا دماغ کا م کرتا ہو۔ عمران نیازی کو سیاسی دماغوں اور دولے شاہ کے چوہوں بارے بہت معلومات تھیں اُسے اپنے گرد دھمال ڈالنے والے چوہوں کی فوج چاہیے تھی سو اِن حالات میں عبد العلیم خان کی گنجائش واقعی ہی نہیں بنتی تھی۔ علیم خان آج خود ایک بڑی سیاسی جماعت کا بانی صدر ہے اور پاکستان بھر میں آئی پی پی کے دفاتر میں دن رات اضافہ ہو رہا ہے۔ اس وقت پنجاب میں آئی پی پی کی قیادت شب و روز محنت کر کے اپنے قائد عبد العلیم خان کا ساتھ دے رہی ہے اور مجھے یقین ہے کہ آنے والے دنوں میں آئی پی پی کے ورکروں کی تعداد ہزاروں نہیں لاکھوں میں ہو گی کیونکہ عمران نیازی نے مسلم لیگ ن کی قیادت کی جس تواتر اور تسلسل کے ساتھ کردار کشی کی ہے پی ٹی آئی کا ورکر وہاں تو جانے سے رہا۔ پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب میں سنجیدہ نہیں اور پی ٹی آئی کو گود لینا چاہتی ہے مگر عمران نیازی تو اپنا بخار کسی کو نہیں دیتا پارٹی کیسے دیدے گا؟ عمران نیازی اپنے انجام کو پہنچنے والا ہے سو پی ٹی آئی کے ورکر کے پاس عبد العلیم خان اور آئی پی پی سب سے بہترین آپشن ہو گا۔
تبصرے بند ہیں.