وزیر اعظم صاحب معیشت کی درستی پر توجہ دیں

24

ملک کی ترقی اور ہمارے جیسے ملک کیلئے جہا ں ہمیں مضبوط اقتصادی پالیسیوں اور امن کی اشد ضرورت ہے وہاں ہمار ے کرتا دھرتا ناکام نظر آ رہے ہیں بنیادی مسئلہ امن و امان کا ہے کپتان حکومت کے خاتمے کے بعد امن و امان کے حوالے سے جو کچھ پاکستان کی سڑکوں پر ملک کی جڑوں کو کمزور کرنیوالے مناظر عوام نے دیکھے مگر افسوس کہ وہ مناظر ہماری عدلیہ، ہمارے کرتا دھرتا شائد نہ دیکھ سکے یہ ایسے واقعات تھے جن کے مجرم چوبیس گھنٹے نہیں تو کم از کم ایک ہفتہ میں سنگین سزائوںکے مستحق تھے مگر ایسا نہ ہو سکا 16ماہ ہو چکے ہیں اور ملک میں افراتفری پھیلانے والے مضبوط ہو رہے ہیں، بیرون ملک میں انکے حواریوں نے نام نہاد انسانی حقوق کی تنظیموں سے راہ رسم بڑھا کر، پاکستان کے نام پر کمائی جانے والی دولت لٹا کر 9 مئی کے شاہکاروں کو جلا بخشی ہے اور قانونی اداروںسے رہائی حاصل کر کے فتح کا نشان بناتے ہوئے گھروں کو چلے جاتے ہیں انصاف میں تاخیر مزید تباہی کا ذریعہ بنی ہے اور تاحال کوئی امید نہیں۔ لگتا ہے ایسے ہی چلتا رہیگا اور پھر انتخابات یا کسی نگران حکومت کی طرف چلے جائینگے، ماضی قریب کی نگران حکومت بھی ایک تماشا تھی، بھانت بھانت کے لوگ بھرتی ہوئے اور انہوں نے اپنی ماتحت وزارتوں میں اپنے حواریوںکو بھرتی کیا۔ اب حکومت جلسے روکنے پر اپنی توانائیاں خرچ کر رہی ہے جس سے خواہ مخواہ میں کپتان معصوم بن کر اپنی جماعت کا ووٹ بڑھا رہا ہے۔ وہ تو بھلا ہو کپتان کی جماعت کے خود ساختہ لیڈران کا جو جماعت پر قبضہ کرنے کیلئے مختلف گروہوں میں دن رات مصروف ہیں اس اقدام سے شائد موجودہ حکومت کو کچھ فائدہ ہو جائے جس میں میاں شہباز شریف کے وزراء کا کوئی کارنامہ نہیں، انصاف کی تاخیر اور دنیا کے عجیب ترین مراعات یافتہ قیدی کی روزانہ جیل میں پریس کانفرنسوں، جماعت کے مختلف دھڑوں سے اجلاس، جیل سے احکامات نے عوام کے ذہنوںکو نقصان پہنچایا ہے کہ ’’ہم کس ملک اور کس قانون‘‘ کے تحت رہ رہے ہیں، ہمارے ملک کے کرتا دھرتا چاہتے کیا ہیں؟؟؟ موجودہ وزراء لگتا ہے نوکر شاہی پر تکیہ کیے ہوئے ہیں، نوکر شاہی بھی عجیب مخلوق ہوتی ہے، جب تک تنخواہیں اور مراعات حاصل کرتی ہے صحافت کے قائد محترم مجید نظامی نے مجھے ایک مسئلے پر کہا تھا نوکر شاہی تنخواہ اور مراعات لیکر محب وطن ہوتی ہے، جبکہ ملک کے ایماندار صحافی اور عوام رضا کارانہ محب وطن ہوتے ہیں۔ اسکا تجربہ مجھے جدہ میں گزشتہ تیس سال رہنے کے دوران ہوا۔ تنخواہ دار نوکر شاہی کی باتیں سنیں تو وہ بات چیت سے قائد اعظم کا بھائی نظر آتا ہے ، اور ریٹائرمنٹ کے بعدکبھی ان سے ملیں تو وہ ملک کے مستقبل سے شاکی ہوتا ہے ، کالم کہیں اورنکل رہا ہے ، ہمیشہ کی طرح میری اور ہر محب وطن پاکستانی کی خواہش ہے کہ ہماری معیشت کی سمت درست ہو جائے ، حکومت کی شاہ خرچیوں پر قابو پایا جائے ،جو اربوں روپے لوٹ رہے ہیں یا لوٹ چکے ہیں اورکہیںنہ کہیں حکومت میں بیٹھے ہیں یا تاحال مراعات لے رہے ہیں ان سے ملک کے خزانے میں واپس کرائی جائے اگر میاں شہباز شریف ایسا کر لیں تو اصل معنوں میں ’’خادم پاکستان‘‘بن جائینگے ، ان میں صلاحیتیں ہیں مگر نہ جانے کیوںہاتھ بندھے ہیں، بقول میاںنواز شریف کے کہ اگر ہاتھ باندھ کر حکومت کرنا ہے تو حکومت چھوڑ دو( یہ بات میاںنواز شریف کو بھی تاخیر سے سمجھ سے آئی ہے) ۔ میاںخاندان تجارتی مہارت کے حوالے سے معروف ہے اس میںوزیر اعظم شہباز شریف سر فہرست ہیںجو اقربا ء پروری اور کرپشن سے پاک ہیں اپنے فیصلوں پر عمل درآمد کراسکتے ہیں اسی لئے وزارت عظمیٰ کیلئے ہمیشہ نظر ان پر جاکر ٹھہرتی ہے۔ وہ ملک کے اقتصادی معاملات کو درست کرنے کیلئے بلا خوف سخت اقدامات کرسکتے ہیںعوام انکے ساتھ ہوں گے۔ پاکستان کو متعدد اقتصادی مسائل کا سامنا ہے، جن میں افراط زر کی بلند شرح، بڑے مالیاتی خسارے، سرمایہ کاری کی کم سطح اور عوامی قرضوں کی بلند سطح شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ملک غربت، بے روزگاری، اور آمدنی میں عدم مساوات کی بلند سطح کے ساتھ جدوجہد کر رہا ہے۔ حکومت کو بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے، صحت کی دیکھ بھال اور تعلیم جیسی بنیادی خدمات کی فراہمی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے میں بھی چیلنجز کا سامنا ہے۔ ان معاشی مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک جامع نقطہ نظر کی ضرورت ہے جس میں ڈھانچہ جاتی اصلاحات، بہتر طرز حکمرانی، اقتصادی ترقی اور ترقی کی حوصلہ افزائی کے لیے ہدف شدہ پالیسیاں شامل ہوں۔ پاکستان کے معاشی مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک جامع اور کثیر جہتی نقطہ نظر کی ضرورت ہے۔ یہاں کچھ ممکنہ حل ہیں جو ملک کی اقتصادی صورتحال کو بہتر بنانے میں مدد کر سکتے ہیں:
ملک کے خسارے کو کم کرنے اور عوامی قرضوں کی سطح کو کنٹرول کرنے کے لیے سخت مالیاتی پالیسیوں کا نفاذ۔
پیداواری صلاحیت اور مسابقت کو بہتر بنانے کے لیے زراعت، توانائی، اور مالیاتی خدمات جیسے اہم شعبوں میں ساختی اصلاحات ۔
کاروبار کرنے میں آسانی کو بہتر بنا کر، ریگولیٹری رکاوٹوں کو دور کر کے اور ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے مراعات فراہم کرکے سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنا۔
کمزور آبادی کو معاشی جھٹکوں سے بچانے اور غربت کو کم کرنے کے لیے سماجی تحفظ کے جال کا نفاذ۔
انسانی سرمائے کو بڑھانے اور ملازمت میں اضافہ کرنے کے لیے تعلیم اور ہنر کی تربیت کے معیار کو بہتر بنانا ہوگا ۔
برآمدی منڈیوں اور مصنوعات کو متنوع بنانا تاکہ چند شعبوں اور ممالک پر انحصار کم کیا جا سکے۔
کاروباری ماحول کو بہتر بنانے اور اقتصادی ترقی کو فروغ دینے کے لیے اداروں کو مضبوط کرنا، شفافیت کو بڑھانا اور بدعنوانی کا مقابلہ کرنا۔
اقتصادی ترقی اور انضمام کو فروغ دینے کے لیے علاقائی تعاون اور تجارتی روابط کو بڑھانا۔
یہ عوامل پاکستان کے معاشی چیلنجوں سے نمٹنے میں مدد کر سکتے ہیں۔ ان کے نفاذ کے لیے مضبوط سیاسی عزم، موثر پالیسی سازی اور حکومت، نجی شعبے، سول کے درمیان تعاون کی ضرورت ہوگی۔

تبصرے بند ہیں.