جناب محسن نقوی صاحب!
چند گزارشات آپ کی خدمت میں پیش ہیں۔ آپ ہمیشہ خوش قسمت ٹھہرے پہلے نگران وزیراعلیٰ پنجاب بنے پھر آپ کو کرکٹ بورڈ کا چیئرمین اورپھر سینیٹر سے وزیرداخلہ کے منصب پر بٹھایا گیا یعنی آپ اس کہاوت پر پورے اترنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ دوکشتیوں میں ایک سوار کامیاب ہوسکتاہے مگر ہمارے نزدیک ایسا ممکن نہیں آپ کو کسی بھی کامیابی کیلئے ایک ہی کشتی میں سوار ہونا پڑے گا آگے آپ کی مرضی میں ایک کشتی کا ذکر کروں گا جس کے چپوآپ سے صحیح نہیں چل رہے۔
پاکستان بنگلہ دیش کے اس وکٹ پراڑ گیا جہاں دونوں ٹیموں نے چاردن میں نوسو سے زائد سکور بناچکی تھیں۔ پانچویں روز ہم نے شکست کا لیبل ماتھے پر سجا لیا اور کرکٹ کے مبصرین یہ دعوے کررہے تھے کہ یہ میچ بری بنائی گئی پچ کی وجہ سے برابر ہو جائے گا میرے نزدیک یہ دعویٰ کرنے والے شاید یہ بات کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہماری ٹیم دنیا کی اکلوتی ٹیم ہے جس کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے ہارنے پر آئے تو صرف چند اوورز میں اورجیتنے پر آئے (کبھی کبھی) توپھر جیت جاتے ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم بنگلہ دیش سے کیوں ہارے ؟ اس لیے ہارے کہ ہمیں اب ہارنے کی عادت پڑ گئی ہے دسمبر 2023ء میں ہم ورلڈ کپ ہارے مارچ 2024ء میں ہم T20ورلڈ کپ میں ہارے اب بنگلہ دیش کی اس ٹیم سے پہلی بار اپنے ہی گھر ہارے جو بنگلہ دیش میں آنے والے حالیہ انقلاب آنے کی وجہ سے ذہنی طورپر اپ سیٹ تھی اور اس کا ایک کھلاڑی شکیب الحسن ٹیم میں شامل تھا جس کو سابق وزیراعظم حسینہ واجد کی جماعت کا قومی اسمبلی کے رکن کے طورپر گرفتاری کا پروانہ جاری ہوا یہ اس بنگلہ دیشی ٹیم سے ہاری جو گزشتہ دوسال سے کسی ملک کے خلاف نہیں جیت سکی اور جیتی بھی تو پاکستان کی اس ٹیم کے خلاف جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ بہت بڑی ٹیم ہے ہمارے بہت بڑے سپرسٹار میں کوئی خان تو کوئی آفریدی کوئی شاہین تو کوئی تیس مار خان ہے مگر ٹیم کی کارکردگی کیا ہے کہ ہم ایک برابری کی طرف جاتا ہوا ٹیسٹ بڑے آرام سے پلیٹ میں رکھ کر بنگلہ دیش کے حوالے کرکے پاکستان کے خلاف پہلا ٹیسٹ جیتنے کا اعزاز بھی اس کو دلوا دیا۔
بنگلہ دیش سے ہارنے پر ہم پوری ٹیم کو مبارکباد دیتے ہیں اور مبارک باد دیتے ہیں بحیثیت چیئرمین کرکٹ بورڈ محسن نقوی کہ آپ تو سسٹم ٹھیک کرنے آئے تھے اور آپ نے ایک پریس کانفرنس میں کہہ گئے کہ میرے پاس کوئی الہ دین کا چراغ نہیں ہے کہ راتوں رات ٹیم کی کارکردگی کو بہتر کردوں۔ میں یہاں آپ کی خدمت میں یہ عرض کرتا چلوں کہ آج سے چھ ماہ قبل آپ کو سیاسی خدمات کے عوض چیئرمین کرکٹ بورڈ بنایا گیا تھا تو آپ نے اس وقت فرط جذبات سے یہ اعلان کیا کہ میں کرکٹ بورڈ کے ساتھ ٹیم کو صحیح سمت کی طرف لے آؤں گا اور بورڈ میں ایک بڑی سرجری ہوگی میں نے انہی دنوں آپ سے گزارش کی تھی کہ سمت بدلنے کی بجائے بورڈ کے اندر بیٹھے مافیا کو جب تک آپ نہیں ختم کریں گے اس وقت تک کرکٹ بورڈ کے معاملات نہ تو ٹھیک ہوں گے نہ ٹیم بنے گی اور پھر وہی ہوا نہ ٹیم بدلی ، نہ مافیا کو بورڈ سے ختم کیا گیا نہ پرانی اور ناکام پالیسز کو بدلا گیا آپ نے آتے ہی سابقہ بورڈ کے سفارشی افسران کو فارغ کرکے انہی تنخواہوں پر ان افراد کو نامزد کردیا جو نہلے پہ دھیلا تھے یہ کوئی بڑی تبدیلی نہیں تھی آپ نے کرکٹ کی بہتری کیلئے ڈومیسٹک کرکٹ کو ازسر نو تشکیل دینے کا اعلان کیا اس اعلان کو ہوئے تین ماہ سے زیادہ عرصہ بیت چکا ہے اور اس ڈومیسٹک کرکٹ کمیٹی کو ئی اجلاس نہیں کیا گیا پھر آپ ہی نے کہا کہ ہم علاقائی کرکٹ کی پروموشن کے لیے ایسوسی ایشنز اوراداروں کی کرکٹ کو بحال کریں گے اس پر بھی عمل درآمد نہ ہو سکا پھر آپ نے سینئر اور تجربہ کار سابقہ کھلاڑیوں کو بلایا ان سے تجاویز لیں اور وہ تجاویز بند فائل تک محدود ہیں۔
جناب محسن نقوی صاحب آپ نے پہلے وہاب ریاض اور محمد حفیظ جیسے کھلاڑیوں کو منیجمنٹ اور ٹیم سلیکٹڈ کیلئے میدان میں اتاراوہ دونوں ناکام ہو گئے تو اب آپ نے اپنی بے پناہ وزارتی مصروفیات کے سبب وقار یونس کواپنا نائب مقرر کردیا تنقید برائے تنقید اور اختلافات برائے اختلافات سے ہٹ کر بات کریں تو وقار یونس پر ماضی قریب میں بڑے سنگین الزامات لگے اور ان کی سابقہ بورڈ میں لگی ڈیوٹیوں کی طرف دیکھیں تو ان کوبھی نکالا گیا اب نکالنے کا مطلب تو آپ سمجھتے ہیں، چلیں آپ پھر ایک تجربہ رہے ہیں اس بات کو جانتے ہوئے بھی کہ آزمائے کو نہیں آزمانا چاہئے ابھی تک ان کی کوئی ایک پرفارمنس سامنے نہیں آئی اللہ کرے وہ آپ کی توقعات پر پورا اتریں مگر ٹیم اور بورڈ کے حالات کا اندازہ آپ پاکستان کی شرمناک شکست سے لگا سکتے ہیں کہ آپ گزشتہ چھ ماہ سے ایک ہی ٹیم کو کھلائے جارہے ہیں اب ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے پاس گزشتہ ایک سال سے وہی بیس سے پچیس کھلاڑیوں کا ایک سکواڈ ہے۔ آپ اسی میں سے ٹیم کو سلیکٹ کرتے ہیں آزمائے ہوئے کارتوسوں کو بار بار آزماتے اور پھر کہہ دیتے ہیں کہ ان شاء اللہ تبدیلیاں لائیں گے یادرکھیں آپ نہ صرف خود کواندھیرے میں رکھ رہے ہیں بلکہ ان 24کھلاڑیوں کو جو جیتنے کی صلاحیت نہیں رکھتے قوم کی خواہشات کو بھی روند رہے ہیں۔
محسن نقوی صاحب! پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان دوٹیسٹ میچوں کی سیریز نہیں ہے یہ ٹیسٹ کرکٹ ورلڈ چمپئن شپ ہے جس کے لیے آپ نے تیاری نہیں کی اور ابھی تک کی اس ورلڈ چمپئن شپ میں جو ناقص پرفارمنس سامنے آئی ہے اس سے تو لگتا ہے کہ ہم ٹیسٹ چیمپئن شپ کے سیمی فائنل میں بھی نہیں پہنچ پائیں گے اور یہ بھی محسن نقوی الیون کی طرف سے ایک ریکارڈ ہوگا کہ پہلے ہم ورلڈ کپ پھر T20ورلڈ کپ اور اب ٹیسٹ کرکٹ چیمپئن شپ میں بھی ہارکر تھری صفر سے شکستوں کا جھومر اپنے ماتھے پر سجائیں گے یعنی ہماری ٹیم نے گزشتہ چھ ماہ میں بڑے ایونٹ جیتنے کی کوشش ہی نہیں کی لہٰذا اس تمام خراب ترین پرفارمنس کے بعد بھی ٹیم میں سازشی اور ناکام کھلاڑیوں کو فارغ اور قومی سطح کی کرکٹ سے نئے کھلاڑیوں کو سامنے نہیں لایا جائے گا ہم ہارتے رہیں گے۔ یہ آپ اتفاق کرتے ہیں کہ موجودہ پوری کی پوری محسن الیون کو گھر بھیجنا بہت ضروری ہوگیا ہے؟ یہ تو وہ تھکے ہوئے گھوڑے ہیں جو ریس کے لیے میدان میں تو اترتے ہیں مگر آخری نمبروں پر شمار کئے جاتے ہیں۔
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کادرد ہمارے جگر میں ہے
کیا خوب امیر نے کہا آپ نے تو خنجر مارمارکر ہمارے سینوں کا براحال کردیا ہے اور ہم ہیں کہ بار بار جگر کا درد سمجھتے ہوئے ناامیدی کے چراغ جلائے رکھتے ہیں یہ کس قدر بدقسمتی کی بات ہے کہ کبھی آئرلینڈ زمبابوے کبھی افغانستان تو کبھی امریکہ کی بچوں کی ٹیم اور اب بنگلہ دیش سے شکست کا داغ اپنے ماتھے پر سجا بیٹھے اور ہم نے آپ ہی کے دور میں بڑے عالمی ٹورنامنٹوں میں ہارنے کی ہیٹ ٹرک بھی مکمل کرلی اور وہ کھلاڑی کبھی ناقابل شکست تھے۔ آج انہوں نے یہ بھرم بھی توڑ دیا۔ کیا آپ قوم پر یہ احسان کر سکتے ہیں کہ جس طرح یہ ٹیم پرفارمنس دے رہی ہے اب اس کو فارغ کرنے کا وقت آگیا ہے۔
اور آخری بات…!
کپتان شان مسعود نے بنگلہ دیش سے عبرت ناک شکست کے بعد قوم سے معافی مانگی ہے۔ ہائے رے شومئی قسمت معافی مانگی تو کب جب ہم سب کچھ لٹا بیٹھے میرے نزدیک یہ قصور کپتان کا نہیں بلکہ آپ کو سلیکٹ کرنے والوں کا ہے جنہوں نے اپنی آنکھیں بند اور ان کی سوچ پر تالے لگ چکے ہیں اس لیے کہ ہمارے کرکٹ بورڈ کا بابا آدم ہی نرالا ہے جدید کرکٹ کے دور میں رہتے ہوئے ہم ابھی تک یہ بات ہی نہیں سمجھ پائے کہ پوری دنیائے کرکٹ میں جو تین فارمیٹ میں کرکٹ کھیلی جارہی ہے یعنی ایک روزہ، T20اور ٹیسٹ کرکٹ ان تمام فارمیٹ کیلئے الگ الگ ٹیمیں میدان میں اتاری جاتی ہیں اور ہم ایک ہی ٹیم سے تینوں فارمیٹ کا کام لے رہے ہیں یعنی دوکپتان ایک ٹیم تین فارمیٹ یہ کارنامہ بھی محسن نقوی صاحب آپ ہی کے دور میں ہونا تھا۔خدا تعالیٰ آپ کو اچھے فیصلے کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔
تبصرے بند ہیں.