دل چیرتے واقعات…؟؟؟

22

روزانہ دل چیر دینے والے واقعات رونما ہو رہے ہیں کئی گھرانے اجڑگئے کئی سہاگنوں کے سہاگ لحد میں اتر گئے لیکن بے حس زمانے کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی ایک سے بڑھ کر ایک سانحات آئے روز دیکھنے کو مل رہے ہیں جس میں جگر گوشے موت کے منہ میں چلے گئے،بدقسمت خاندان رو دھو کر بیٹھ جاتا ہے نہ عدالتیں سنتی ہیں اور ہی کوئی اور؟ پولیس میں تًو انسانیت نام کی کوئی چیزہے ہی نہیں اگر کچے کا سانحہ دیکھیں تو اس میں ادارے کی نا اہلی کی وجہ سے کئی جانیں گئیں،کیونکہ مجبور اور بے کس اہلکاروں نے ویڈیوبنا کر بھیجی کہ ہماری مدد کی جائے مگربلٹ پروف گاڑیوں میں گھومنے والوں نے کوئی ایکشن نہ لیا ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وزیر اعلٰی مریم نواز اس سانحہ کے ذمہ داروں کیخلاف ایکشن لیتیں ؟زبان زد عام ہے کہ قانون صرف ماڑوں کیلئے ہے تگڑے کیلئے کوئی قانون نہیں وہ بندے ماردیں کسی کی عزت سے کھلواڑ کریں کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں؟ثاقب نثار کو ایک وقت تھا ملک کو سدھارنے کا دورہ پڑاتھا دورے کرتے کرتے جب وہ کراچی جیل گئے تو وہاں شرجیل میمن سے ٹاکرا ہو گیا جن سے کڑوا پانی برآمد ہواجو لیبارٹری جاتے جاتے شہد بن گیا ؟گزشتہ دنوں ایک امیر زادی نے پاپڑ بیچ کر بیٹی کو ایم بی کروانے والے باپ کو بیٹی سمیت مار ڈالا جس کے بعد فوری طور پر ملزمہ کو ذہنی مریضہ قرار دیدیا گیارولا پڑا تو تندرست ہونے کی رپورٹ آ گئی ورنہ ملزمہ توبیچزمیں موجیں کر رہی ہوتی ،کراچی میں باپ بیٹی کو کچلنے والی بگڑی امیر زادی 9کمپنیوں کی مالکن ہے شور پر ملزمہ کا پاگل پن کا ڈرامہ بے نقاب ہو گیاکہا جاتا ہے کہ باپ نے پاپڑ بیچ بیچ کر بیٹی کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا، جب بیٹی باپ کا ہاتھ بٹانے کے قابل ہوئی تو حادثے میں باپ بیٹی دونوں کی جان چلی گئی،جناح ہسپتال کے ماہر نفسیات کی عدالت میں پیش کرائی گئی رپورٹ سامنے آگئی جس میں وہ مکمل تندرست قرار دی گئی اگر ملزمہ ذہنی مریضہ ہے تو اسے گاڑی چلانے کی اجازت کس نے دی؟ اب یہاں سوال یہ بنتا ہے کہ وہ کون سے خفیہ ہاتھ تھے جنہوں نے حادثہ ہوتے ہی ملزمہ کہ بچانے کیلئے نفسیاتی مریضہ قرار دیدیا اگر کسی ادارے میں رتی برابر بھی شرم ہے تو وہ اس کی انکوائری کروائے؟ حادثے میں جاں بحق آمنہ کے متعلق معلوم ہوا ہے کہ وہ گھر میں سب سے چھوٹی اور باپ کی لاڈلی تھی، باپ نے پاپڑ بیچ بیچ کر بیٹی کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا، ایم بی اے کرایا اور جب بیٹی باپ کا ہاتھ بٹانے کے قابل ہوئی تو حادثے میں باپ بیٹی دونوں کی جان چلی گئی،یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آمنہ نجی یونیورسٹی سے ایم بی اے کرنیکے علاوہ ایک آئی ٹی کمپنی میں ملازمت بھی کر رہی تھی،سی سی ٹی وی فوٹیج میں ملزمہ کی غفلت سامنے آئی ہے اس کے باوجود قانونی پے چیدگیوں کے نام پر ملزمہ کوریلیف دیا جا رہا ہے ٹگڑے تگڑے وکیل کرکے متاثرہ خاندان کو ہلکان کیا جائے گا نامی گرامی وکیل ایک سے بڑھ کر ایک جھوٹ پڑھائیں گے ملزمہ کو کہ جس سے وہ سزا سے بچ جائے پولیس والے اپنے طور پر ایڑھی چوٹی کا زور لگائیں گے امیر زادی کو بچانے کیلئے کیونکہ قتل کا ایک کیس پولیس والوں کیلئے سال کی روٹیاں فراہم کرتا ہے، باپ بیٹی کو مہنگی گاڑی سے کچلنے والی امیرزادی کو بچانے کیلئے نظام حرکت میں آ گیا ہے اگر ملک میں اسلامی نظام ہوتا تو عدالتوں کچہریوں سے جان چھوٹ جاتی اور متاثرہ خاندان کو انصاف مل چکا ہوتا، کہا جا رہا ہے کہ ملزمہ نتاشہ شراب کے نشے میں دھت ہونے کے باعث اپنی لینڈ کروزر پر قابو نہ رکھ سکی اور بے گناہ کئی جانوں پر ظلم کر بیٹھی ،ملزمہ کو حسب روائت عدالت میں ذہنی معذور ثابت کرنے کی کوششیں شروع کردی گئیں،ہو سکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں امیر زادی کا خاندان اثر ورسوخ استعمال کر کے اس کو ذہنی مریضہ ثابت کروانے میں کامیاب ہو کر بری کروالیں جس کے بعد شہر قائد والے واقعے سے یہ سبق ضرور سیکھ لیں کہ آپ کی جان کوڑیوں کی سی ہے ،آئندہ کچھ روز میں خاتون اور ان کے اہل خانہ اپنے جرم کے بدلے لواحقین کو راضی نامہ کرنے کی پیشکش کریں گے اور ہر صورت میں راضی کروا کے ہی دم لیں گے؟ جس کے بعد ریمنڈ ڈیوس کی یاد تازہ ہو جائے گی جس نے ایک منٹ میں دو نوجوانوں کو ہلاک کردیا تھا بعد میں اسے باعزت امریکہ بھیجا گیاشائد اس کیس کا انجام بھی کچھ ایسا ہی ہو،ملزمہ کے بارے میں خودکشی کرنے کی افواہیں بھی پھیلائیں گئیں ، بار بار ذہنی حالت کے معائنے اور متعلقہ نفسیاتی پیمانے پر پتہ چلا کہ فوری طور پر جان بوجھ کر خود کو نقصان پہنچانے یا خودکشی کا خطرہ نہیں جس کے بعد ملزمہ کو شعبہ نفسیات سے فارغ کردیا گیا ،ذمہ دار چاہیں تو سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ کردیتے ہیں ایسے ہی جیسے لاہور میں امیربالاج ٹیپو قتل کے مرکزی ملزم احسن شاہ کو مبینہ پولیس مقابلہ میں پار کردیا ،پولیس نے روایتی موقف اختیار کیا کہ ملزم کو نشاندہی کے لیے شاد باغ لیجایا جا رہا تھاکہ اس کے بھائی علی رضا اور نامعلوم ساتھیوں نے چھڑانے کے لیے حملہ کردیا جن کی فائرنگ سے ملزم احسن شاہ زخمی ہوگیا جسے فوری ہسپتال پہنچایا گیا ، جس سے وہ جانبر نہیں ہوسکا اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہر بار گولی ملزم کو ہی کیوں لگتی ہے کوئی پولیس والا زد میں کیوں نہیں آتا کاش عدالتیں اس بارے میں ازخود نوٹس لیں اور تہہ تک جائیں کہ مرکزی ملزم کو کس کے کہنے پر ٹھکانے لگا یا گیا؟ دل چیرتے واقعات پر آنسو پہانے کو دل کرتا ہے ہے کوئی جو پرسا دے؟۔

تبصرے بند ہیں.