اس میں شک نہیں کہ پاکستان کی زمین پر جہاں قدرت نے دنیا کے سب سے بڑے برف پوش پہاڑ ایستادہ کر رکھے ہیں وہیں بہترین موسم، ندیاں، نالے، آبشاریں، جھرنے اور نہریں، دریا، سمندر، مبہوت کر دینے والی جھیلیں اور دلفریب وادیاں دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچنے کی بھرپور کشش رکھتی ہیں ۔پاکستان کی خوبصورت وادیوں میں سے ایک وادیٔ کاغان ہے ‘جو بالا کوٹ سے شروع ہو کر اونچے اونچے پہاڑوں اور گھنے جنگلوں کے درمیان دریائے کنہار کے ساتھ ساتھ تقریباً155کلو میٹر بابو سر ٹاپ تک جاتی ہے یہ وادی کا بلند ترین 13700 فٹ اونچا مقام ہے اس سے آگے گلگت کی حد شروع ہو جاتی ہے۔ ہم نے اسی خوبصورت وادی کے سفر کا ارادہ کیا اور دوستوں کے ہمراہ لاہور سے بذریعہ موٹر وے وادیٔ کاغان کی طرف روانہ ہوئے ۔ ہمارا پہلا قیام بھیرہ انٹر چینچ تھا، یہاں نماز کی ادائیگی کے بعد بذریعہ مانسہرہ موٹروے ہم بالاکوٹ کی طرف عازم سفر ہوئے ۔ بالاکوٹ پہنچ کر ایک ڈھابہ نما ہوٹل سے رات کا کھانا کھایااور رات تقریباً بارہ بجے ہوٹل پہنچ گئے۔ سفر کی تھکان غالب تھی اور پہاڑی سلسلوں کا کافی عرصہ بعد سفر کیا تھا لہٰذا ہوٹل پہنچ کر آرام کی غرض سے لیٹے تو جلد ہی نیند نے اپنی آغوش میںلے لیا۔ صبح اٹھے تو بالاکوٹ شہر بھی جاگ چکا تھا، 2005ء کے زلزلے کے بعد جو تباہی آئی تھی اب یہ شہر اس سے سے نکل کر دوبارہ زندگی کی رنگینیوں کی طرف آ چکا ہے۔ بالاکوٹ کو سید احمد شہیدؒ اور شاہ اسماعیل شہیدؒ کی تحریک مجاہدین کے باعث تاریخی اہمیت حاصل ہے۔ دونوں عظیم ہستیوں کے مزارات اسی شہر میں واقع ہیں۔ہم نے مقامی افراد سے معرکہ بالاکوٹ کے ہیرو سید احمد شہیدؒ اور شاہ اسماعیل شہید ؒ کے مزارات کا پتہ پوچھ کر وہاں کا رخ کیا ۔ مزار پر پہنچے ،وہاں فاتحہ خوانی کی اور ان عظیم ہیروز کو خراج تحسین پیش کیا۔ جب ہم واپس ہوٹل پہنچے تو باقی دوست نیند سے بیدار ہو چکے تھے ،اب ہماری منزل پہاڑوں کے دل ناران کا خوبصورت سیاحتی مقام تھا۔ بالاکوٹ سے صبح کا ناشتہ وہاں کے روایتی چپل کباب کا کیا اور اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گئے۔ پہاڑوں کے بیچوں بیچ بل کھاتی ایک رویہ سڑک اور اردگرد بلند وبالا پہاڑ انتہائی خوبصورت سماں پیش کر رہے تھے۔ بالاکوٹ سے ہمارے سفر میں دریائے کنہار بھی شامل ہو چکا تھا جو کسی بچے کی طرح شرارتیں کرتا ہمارے ساتھ ساتھ دوڑ رہا تھا۔ دریائے کنہار کو وادی کاغان کی ریڑھ کی ہڈی کہا جاتا ہے ، 166 کلومیٹر طویل یہ دریا اپنی تمام تر دلکشی، خوبصورتی اور رعنائی کے ساتھ پوری وادی میں سانپ کی طرح بل کھاتا، مچلتا، گنگناتا اور محبتوں کے نغمے سناتا رواں دواں رہتاہے۔
حسین نظاروں کے سنگ جب سفر آگے بڑھ رہا تھا تو آسمان کو چھوتے سبز چادر اوڑھے پہاڑ میری ساری توجہ کسی مقناطیس کی طرح اپنی جانب کھینچ چکے تھے۔بلند چوٹیوں والے سرسبز پہاڑ اور ان کے دامن میں بہتا شفاف پانی، گمان ہوتا کہ کسی یورپی ملک میں ہیں مگر جوں ہی گاڑی سڑک پر کسی گڑھے سے گزر کر اچھلتی تو ہوش آتا کہ نہیں یہ پاکستان ہی ہے۔ تقریباًتین گھنٹے سفر کے بعد ہم ناران پہنچ گئے، قدرتی ماحول کی تلاش میں ہم نے مین بازار سے ذرا ہٹ کر دریا کے کنارے ایک خوبصورت ہوٹل میں قیام کیا اور فطری ماحول میں تین دن گزارے۔ہوٹل پہنچے تو دوستوں نے طے کیا کہ بغیر کوئی وقت ضائع کیے اس وادی کے جھومر یعنی جھیل سیف المکوک کی طرف روانہ ہوا جائے، وہاں تک آپ اپنی گاڑی میں نہیں جا سکتے کیونکہ راستہ بڑا خطرناک ہے۔ چنانچہ جیپوں کے ذریعے پر خطر راستے پر جھیل کی طرف سفر کا آغاز کیا۔ پتھریلے راستوں پر جب جیپ ہچکولے بھر رہی تھی تو ہمارا دل مٹھی میں آ رہا تھا۔ تاہم وہاں پہنچ کر ساری تھکان اور ڈر دور ہو گیا اور اس خوبصورت جھیل کے قدرتی نظاروں نے ہمیں اپنے سحر میں لے لیا۔ اونچے پہاڑوں میں گھری اس جھیل کا لوک داستانوں میں بھی ذکر آتا ہے۔اس جھیل کی دلکشی کا شاید ہی کوئی مقابلہ ہو اور اسے ایشیا کی خوبصورت جھیل ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ ڈرائیور نے جیپ پارک کی اور ہم پیدل ہی جھیل کی طرف چل پڑے جو تھوڑی دور اترائی پر تھی۔ اس جھیل کی خاص بات یہ ہے کہ اس کا پانی پہاڑوں سے نہیں آتا بلکہ جھیل کی تہہ سے نکلتا رہتا ہے۔بلندوبالا پہاڑوں کے درمیان جھیل کے ٹھہرے ہوئے پانی میں ان پہاڑوں کا عکس صاف نظر آرہا تھا۔تھوڑی دیر کیلئے دنیا و مافیہا سے بے خبر اس رومانی منظر میں ایسا کھو گیا کہ وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوا جب ایک دوست نے آواز دی کہ اندھیرا ہونے سے پہلے یہاں سے نکلنا ہے ۔ اگلی صبح ہماری منزل اس وادی کے آخری مقام بابوسر ٹاپ تھی لیکن راستہ میں گاڑی خراب ہو گئی، گاڑی ٹھیک ہونے میں کچھ وقت لگا تو دوستوں نے فیصلہ کیا کہ آج کا دن دریا کنہار کے خطرناک پانی میں رافٹنگ کی جائے کیونکہ اس کے بغیر بھی اس وادی کی سیر ادھوری محسوس ہو گی۔ اسی غرض سے ہم نے ایک جگہ گاڑی روکی اورحفاظتی اقدامات کے ساتھ دریا کی موجوں میں اترنے کا فیصلہ کیا،یہ بڑا ٰایڈونچر تھا۔ کشتی کو چلانے کا وقت آیا ہدایات کار نے بھی اس انداز سے ہدایات دیں کہ کشتی کو کیسے کنٹرول کرنا ہے،لیفٹ رائٹ،سٹاپ وغیرہ ۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے کوئی غلطی ہوئی تو بس پھر پتا نہیں واپس ہم اپنے گھر والوں کو ملیں گے یا خدانخواستہ پھر کہیں پتھروں کے درمیان اٹکے ہی رہ جائیں گے۔کشتی جب دریا کے بالکل درمیان میں گئی اک دم سے سارا ڈر ایسے ختم ہوا جیسے اڑ ہی گیا ہو اور یہی وہ لمحہ تھا جس کا انتظار تھا اس قدر لطف اندوز ہوئے کہ اس کے بعد پھر ہم تھے،پانی تھا، لہریں تھی اور ہمارے ہاتھ میں پکڑی بوٹنگ سٹک تھی۔رافٹنگ کے اس ایڈونچر سے دوست خوب لطف اندوز ہوئے۔ اپنے ٹور کے آخری روز بابوسر ٹاپ کی طرف روانہ ہوئے تو راستہ میں واقع لولوسر جھیل پر بھی مختصر قیام کیا ، یہ جھیل بھی خوبصورتی میں اپنی مثال آپ تھی ۔تین گھنٹے سفر کے بعد جب بابوسر ٹاپ پہنچے تویہاں کے حسین مناظر نے سفر کی ساری تھکان ختم کر دی۔ لاہور کی گرمی کے ستائے ہم جب سطح سمندر سے 13 ہزار 700 فٹ بلند بابو سر ٹاپ پہنچے تو سرد ہوائوں نے ہمارا استقبال کیا۔ بابوسر ٹاپ کے دلفریب مناظر ایک عجیب اور خوشگوار سماں پیش کرتے ہمیں خوش آمدید کہہ رہے تھے اوریہی وہ لمحہ تھا جب بے اختیار یہ کہنا پڑتا ہے کہ واقعی قدرتی حسن سے مالا مال پاکستان میں بابو سر ٹاپ کو قدرت نے اپنے تمام ترحسن ودولت سے نوازا ہے۔ وادیٔ کاغان میں اتنے زیادہ سیاحتی مقام ہیں کہ ہفتوں وہاں رہنے کے باوجود آپ سارے مقام نہیں دیکھ سکتے۔ دلوں کو موہ لینے والے قدرتی مناظر، راگ الاپتے دریائے کنہار اور روح میں سکون اتارتی وادی نے اس سفر کو ہمیشہ کیلئے یادگار بنا دیا۔
تبصرے بند ہیں.