گزشتہ ایک ہزار برس سے برّصغیر میں، بارگاہِ رسالتؐ کے سفیر سیّدِ ہجویر کارِ سفارت سر انجام دے رہے ہیں۔ لاکھوں کروڑوں سینوں میں پیغامِ رسالتؐ، دینِ اسلام کی شمع روشن فرما رہے ہیں۔ ہم اہلِ لاہور کی خوش نصیبی، کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کو محبوب ہستی ہمارے ہاں قیام فرما ہے۔ ایک کم فہم اور کم علم طالب علم اس ہستی کی شان کیا بیان کر سکتا ہے جس کی شان میں خواجہ خواجگان رطب للسان ہے۔ مولانا جامیؒ سے لے کر علامہ اقبالؒ تک سب مشاہیرِ امت جس کی منقبت کہنا اپنے لیے اعزاز تصور کرتے ہیں … اور دَورِ حاضر کے درویش اور دانشور حضرت واصف علی واصفؒ جس کی شان میں کمال کے قطعات ومناقب کہتے ہیں:
السّلام اے سیّدِ ہجویر قطب الاولیاء
السّلام اے مرکزِ توحید انوارِ الٰہ
23 اشعار پر مشتمل یہ منقبت شعر و اَدب کی دنیا میں بھی ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ معروف منقبت مزارِ اقدس حضرت علی بن عثمان ہجویری کے مشرقی برآمدے میں ایک قدِ آدم سنگِ سفید پر نصب ہے۔ دربارِ عالیہ کا توسیعی پروگرام جاری ہے، تعمیری مراحل مکمل ہونے پر اسے ضرور کسی شایانِ شان مقام پر اَز سرِ نَو نصب کیا جائے گا۔
آمدم برسرِ مطلب، اہلِ معرفت کو اہلِ معرفت ہی بہتر بیان کر سکتے ہیں۔ کامل کی سند کامل ہی دے سکتا ہے۔ ہم ایسے ناقص و ناکس سائلینِ این و آں، محلِ معرفت میں جلوہ افروز شہنشاہِ اقلیم ِ عرفان کی منزلت و جلالت سے فقط مبہوت ہی ہو سکتے ہیں۔ ہمارا کمال شاید اظہارِ عجز ِ بیان ِ معرفتِ اہلِ معرفت ہے۔ ہم تو ہر سال محض دم بخود ہونے کے لیے عرس میں حاضر ہوتے ہیں … امسال 981 واں عرس تھا … ہم سوچتے ہیں اور پھر حیران و ششدر رہ جاتے ہیں کہ اللہ اپنے محبوب ولی کی شان ہر آن کس طرح بڑھاتا ہی چلا جاتا ہے۔ کیا کسی بشر کی قسمت میں اس قدر پذیرائی بھی ممکن ہے؟ ’’فاذکرونی اذکرکم‘‘ کی عملی تفسیر ہر سال دہرائی جاتی ہے اور پہلے سے بڑھ کر نظر آتی ہے۔ کیا محبوبِ ذاتِ کبریاؐ کے محبوب بھی زمرہ ورفعنالک ذکرک میں شامل ہیں؟ شہیدانِ جلوہِ میم یقیناً زندہ و جاوید ہیں۔ زندہ تو وہی ہے جس کا ذکر زندہ ہے … جس کی عزت دلوں میں نافذ ہے۔ عجب بات ہے، کہ ایک نام ہے، اور اس نام کے پردے میں ایک
راز ہے۔ علی نام ہی کچھ ایسا ہے … بلندی کا استعارہ … عُلو کا اشارہ … عُلو کی شان میں غُلو کا امکان نہیں … دور دور تک نہیں۔ کوئی کسی بلندی پر پہنچے تو اس پر مزید بلندی کھلتی ہیں۔
چاند اہلِ دل کا نظارہ ہے … دل، دریا اور سمندر میں اٹھنے والی لہروں کا مؤثر سبب ہے۔ کیفیات کا مدّ و جزر ایسے ہی رونما نہیں ہوتا … اس کے لیے کسی چاند جیسے چہرے کی پُر کشش رونمائی درکار ہوتی ہے۔ چاند کا نظارہ کرنے کے لیے، چاندنی کی ٹھنڈک محسوس کرنے کے لیے، کچھ دیر کے لیے دماغ کی تپش سے نکلنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ ہمارا چاند بھی اسی شمسِ بازغہ سے روشنی لیتا ہے، جس کی قسم ربِ کائنات نے اپنے کلام میں اٹھائی ہے …’’اور اس شمس کی قسم جب وہ روشنی دینے لگے‘‘… بے شک اس میں نشانیاں ہیں اولوالباب کے لیے … اولوالباب اہل دل کو کہتے ہیں … الباب ’’لُب‘‘ کی جمع ہے، اور لُب … دل اور محبت کے معنی میں آتا ہے۔ قرآنی تفکر کے لیے دل درکار ہوتا ہے۔ حکم ہے، کیا اِن کے پاس دل نہیں، پھر یہ سوچتے کیوں نہیں۔ اب کیا کریں … کدھر جائیں … آیات اور نشانیاں دل والوں کے لیے ہیں، ہدایت تقویٰ والوں کے لیے … اور نصیب صرف ادب والوں کے لیے!! بے ادب اور بے عقل کے لیے تو تلاوتِ آیات بھی فائدہ نہیں دیتی … کہ ان کی سماعتوں اور نگاہوں پر ایک بھاری پردہ ہے۔ پردہ غفلت کا ہو یا غرور کا … اسے ہٹانا انسان کے بس میں کہاں! ایسا معلوم ہوتا کہ غفلت کا پردہ عارضی ہوتا ہے … کشف المحجوب کی اصطلاح میں ’’غینی …، اور غرور کا پردہ مستقل یعنی ’’رینی‘‘ ہوتا ہے۔ بس! کسی کی نگاہِ لطف قلب میں نہاں لطف کو عیاں کرے … تو غفلت کا پردہ چاک ہو … محجوب مکشوف ہو، مطلوب محبوب ہو … اور میسّر غوّاصی ِ کشف المحجوب ہو۔
’’کشف المحجوب‘‘ کا مطالعہ کرنے والا، اگر قلبِ سلیم کا مالک ہے تو وہ اُس خزانے کے نقشے تک ضرور پہنچتا ہے جس خزانے کی تقسیم کے سبب ہر خاص و عام صاحبِ کشف المحجوب کو ’’داتاگنج بخش‘‘ کے نام سے پکارتا ہے۔ یہ گنج، گنجِ مخفی ہے … اہلِ عرفان اس کی فراواں تقسیم پر مامور ہیں … یہاں اس صاحبِ جود و سخا کی داد وہ دہش کا یہ عالم کہ زبانِ خلق میں داتاؒ کہلائے … زبانِ نقارہِ خدا ہے۔ کوئی طالب ہو تو یہ اُس کو اُس کی طلب کے سوا بھی دیتے ہیں۔ طالب کی طلب بقدرِ شعور و ظرف ہے۔ دینے والوں کی سخاوت یہ ہے کہ وہ اس کے شعور اور ظرف میں بھی بتدریج اضافہ کیے چلے جاتے ہیں۔ وہ اپنے سائل کو طالب بنا دیتے ہیں۔ سائل اشیاء و مقامات کی طلب میں ہوتا ہے۔ طالب فقط ذات کا طالب ہے … واحد، تنہا۔ سائل سوال پورا ہونے کے بعد لوٹ جاتا ہے، طالب کا سوال ہی کچھ ایسا ہوتا ہے کہ اسے ٹھہرانا پڑ جاتا ہے۔ اسے قیام دئیے بغیر کوئی چارہ نہیں رہتا۔ طالب اپنے مطلوب کے ہمراہ ہو جاتا ہے۔ مطلوب حالتِ قیام میں ہے، تو طالب بھی کب تک تغیر و فساد میں رہے گا۔ اگر توحید حدث اور حوادثِ زمانہ سے ورا ہے تو معرفتِ توحید ِ ذات کا حامل بھی ماورائے تغیر و زمانہ ہو گا۔
کشف المحجوب ایک سائل کے سوال میں لکھی گئی، یہ سوال اپنے سائل کو طالب بنا گیا … چنانچہ حضرت ابو سعید ہجویری اپنے مطلوب کے ہمراہ یہاں قیام فرما ہیں۔ سوال پر غور کریں اور پھر مسئول کے پیمانہِ جود و سخا پر، کہ اس سوال کے جواب میں ایک ایسی مکمل کتاب تحریر فرما دی جو رہتی دنیا تک ہر سالک کو مکمل کرنے کا سامان اپنے اندر بہم موجود رکھتی ہے۔ کشف المحجوب میں ابو سعید ہجویریؒ کا سوال یوں درج ہے: سیّدِ ہجویرؒ لکھتے ہیں:
’’سائل ابو سعید ہجویریؒ نے یہ سوال کیا ہے: مجھے بیان فرمایئے: تصوّف کے راستے کی حقیقت اور صوفیاء کے مقامات کی کیفیت، اور اُن کے اقوال و نظریات، رموز و اشارات اور یہ کہ دِلوں پر اللہ کی محبت کے ظاہر ہونے کی کیفیت کیسی ہوتی ہے؟ اور یہ کہ اِنسان کی عقل اُس کی حقیقت کی دریافت سے حجاب میں کیوں رہتی ہے؟ اوریہ کہ نفس اُس سے گریزاں کیوں ہوتا ہے؟ اور یہ کہ انسانی روح اُس کی پاکیزگی کے بیان سے سکون و آرام کیسے پاتی ہے؟ اور اِن تمام اُمور کے متعلق دیگر معاملات کی بھی وضاحت فرمائیں! ’’سبحان اللہ! کیا طلب ِ بے پایاں ہے ایک مریدِ صادق کی، اور کیا عطائے فراواں ہے ایک مرشدِ کامل کی!
امسال عرس کا رنگ کچھ عجب تھا … زائرِ مدینہ کو انوارِ مدینہ یہاں میسر تھے۔ رنگِ جمالِ مصطفیٰ دلوں پر ضیا پاشی کر رہا تھا۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ کا یہ شعر شعور کے پردے پر باربار منعکس ہو رہا تھا:
داتاؒ کی گلی کافی غریبوں کے لیے ہے
داتاؒ کے بھی روضے پہ ہیں انوارِ مدینہ
تبصرے بند ہیں.