یک نہ شد دو شد کے مصداق ابھی وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے صوبہ پنجاب کے طول و عرض خاص طور پر بین الصوبائی شاہراہوں اورلاہور سمیت مختلف شہروں میں خطرناک حد تک بڑھ جانے والی ڈکیتی اور راہزنی کی وارداتوں پر برہمی کا اظہار کیا ہی تھا اور پولیس کی قیادت کو ہدایات جاری کیں کہ وہ امن و امان کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے ہر صورت میں اپنا موثر کردار ادا کرے کہ اس دوران پتا چلا کہ کچے کے ڈاکوؤں نے بڑی آسانی سے پنجاب پولیس کے ایک درجن اہلکاروں کو شہید کردیا ہے۔پولیس اہلکاروں کی ہلاکت کے حالیہ واقعہ نے پنجاب پولیس کی اعلیٰ قیادت و افسران کی نااہلی، پروفیشنل تربیت کے فقدان اور فنڈز میں ہونے والے گھپلوں کو طشت ِ ازبام کردیا ہے۔ پنجاب پولیس کواپنے مغوی اہلکار کو چھڑوانے کے لیے ڈاکوؤں کے ایک ساتھی کو چھوڑنے کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں۔حیران ہوں کہ کسی اعلیٰ پولیس افسر کے ماتھے پر عرق ندامت نہیں ماسوائے چند روایتی بیانات کے۔ آئی پنجاب کا دعوی ہے کہ وہ بدلہ لینگے۔ ارے بھائی! بدلہ کیا ہوتا ہے۔ کچے کے پورے علاقے میں ڈاکوؤں اور سماج دشمن عناصر کی عملاً حکومت ہے۔ ڈاکو سوشل میڈیا پر بیانات دے رہے ہیں کہ وہ آئی جی پنجاب کو دھمکا رہے ہیں۔ جب اعلیٰ پولیس افسران ٹک ٹاک اور سوشل میڈیا پر اداکاری کے جوہر دکھانے کے علاوہ کچھ نہ کرینگے اور اپنی پروفیشنل ڈیوٹی سے پہلو تہی کرینگے تو پھر کوئی نہ کوئی سانحہ تو برپا ہو ہی گا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کچے اور اسکے گردو نواح میں عوام کے جان و مال کے تحفظ پر مامور پولیس کی حفاظت کیسے کی جائے۔ کچے کے علاقہ میں جس طرح بھاری اسلحہ پہنچ چکا ہے وہ اس بات کی جانب اشارہ کرتا ہے یہ علاقہ جلد دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ میں بدل سکتا ہے ۔ پولیس کی اپنی ہی ایک رپورٹ کئی حقائق پر سے پردہ اٹھاتی ہے۔ کئی پس پردہ چہرے سامنے آتے ہیں۔ کہنے کو یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ جب رہبر رہزن اور چور چوکیدار بن جائے تو پھر نہ کسی کی جان محفوظ رہتی ہے اور نہ ہی مال۔۔
گزشتہ ایک دہائی کے دوران یہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے سینکڑوں نام نہاد آپریشن کیے گئے لیکن یہاں ڈاکوؤں کی حکومت جوں کی توں برقرار ہے یہ عقدہ آج تک حل نہیں ہو سکا کہ ایسا کیوں ہے؟۔
رپورٹ کے مطابق 2023 میں کچے کے علاقہ میں ڈاکوئوں کے خلاف ہونے والے آپریشن میں ایک ایسی سہولت کاری کا انکشاف ہوا ہے جو بذات خود پولیس کی جانب سے کی گئی۔ عوام اور سرکار کو پولیس افسران سینہ ٹھوک کر یہ بتاتے رہے کہ وہاں چھپے ہوئے ڈاکوؤں اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف بڑا آپریشن کر رہے ہیں تو دوسری جانب پولیس ہی کے بعض اہلکار و افسر ڈاکوؤں کی سہولت کاری و پشت پناہی کر کے انہیں بچاتے رہے۔ یہی نہیں بلکہ یہ پولیس اہلکار بے گناہ افراد کو تشدد کا نشانہ بناکر، جھوٹے مقدمات میں پھنسا کر اور ان کی زمینوں کو ہتھیاکر خوب مال پانی بھی بنایا۔ پولیس رپورٹ کے مطابق کوٹ سبزل اوربھونگ کے ایس ایچ او سمیت 5 اہلکاروں نے ڈاکوئوں کی سہولت کاری کی اور پنجاب پولیس کے کچھ دیگر اہلکاروں نے بھی کچے کے ڈاکوؤں کے سہولت کاری کی۔
رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا کہ آپریشن کے دوران بیگناہ افرادکو جعلی مقابلوں میں پکڑا گیا اور رشوت لی گئی جبکہ ایس ایچ اوکوٹ سبزل اور ایس ایچ اوبھونگ نے کروڑوں روپے کی زرعی زمین کسانوں سے زبردستی ہتھیائی۔ رپورٹ میں یہ بات بھی بتایا گیا کہ کچے میں تعینات ایس ایچ اوز مقامی کاشتکاروں سے سکیورٹی کے نام پر بھتہ لیتے تھے اور اگر کوئی زمیندار اْن ایس ایچ اوز سے تعاون نہیں کرتا تو ڈاکوؤں کی طرف سے اسے دھمکیاں دی جاتیں۔ رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ سی آئی اے انچارج محمد سلیم بھی ڈاکوؤں کے دست راست پائے گئے ایک جانب وہ حقائق قابل غور ہیں جو اس رپورٹ میں منکشف کیے گئے ہیں دوسری جانب اس رپورٹ کی صحت پر بھی بہت سارے سوالات اٹھتے ہیں۔
پہلا سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب اتنی بڑے پیمانے پر ایک بڑا آپریشن کیا جا رہا تھا تو ایسے میں کیسے پولیس کی صفوں میں کالی بھیڑیں اتنے اطمینان سے یہ کارروائیاں کرتے رہے۔ کیا ان کے افسران بالا خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے؟ اس طرح کے آپریشنز کے دوران علاقے سے لمحہ بہ لمحہ رپورٹ اعلیٰ افسران تک پہنچتی ہے ایسا کیوں کر ہوا کہ کہ پولیس اہلکار جعلی پولیس مقابلے بھی کر رہے تھے، لوگوں کی زمینیں بھی ہتھیار رہے تھے اور لوگوں کو لوٹ بھی رہے تھے لیکن اس کی بھنک کسی کو نہ پڑی؟۔کچے کے حوالے سے پولیس کی رپورٹ بھی اسی طرح کا کوئی قصہ نظر آتی ہے جس میں اس کھیل میں ملوث اعلیٰ پولیس افسران، علاقہ کے بااثر وڈیروں اور چوہدریوں کو تو بچا لیا گیا ہے تاہم چند چھوٹے اہلکاروں پر سارا معاملہ ڈال کر فائل بند کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
زیادہ عرصہ نہیں ہوا جب ایک بڑے پولیس عہدے دار نے قائمہ کمیٹی کے سامنے پیش ہو کر یہ بتایا تھا کہ کچے کے ڈاکوؤں کے پاس افغانستان میں موجود امریکہ کا جدید ترین اسلحہ ہے جس کی موجودگی میں ڈاکوؤں پر قابو پانا آسان نہیں۔ یہاں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ افغانستان سے لے کر کچے کے علاقے تک درمیان میں ایک لمبا فاصلہ ہے جہاں پولیس سمیت قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سیکڑوں ناکے موجود ہوتے ہیں یہاں سے گزر کر یہ اسلحہ کیسے کچے کے ڈاکوؤں تک پہنچتا ہے ہنوز حل طلب سوال ہے۔
زیادہ عرصہ نہیں ہوا جب آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے یہ نوید سنائی تھی کہ بہت جلد کچے کے ڈاکوؤں کے اوپر قابو پا لیا جائے گا اور یہ علاقہ ڈاکوؤں سے صاف کرا لیا جائے گا تاہم حقیقت اس کے بالکل برعکس نکلی ڈاکوؤں کی کارروائیاں سندھ تک پہنچ گئیں۔ پنجاب کی طرح سندھ کی بھی شاہراہیں غیر محفوظ ہو چکی ہیں۔ پنجاب پولیس کا کچے میں کیا جانے والا آپریشن بری طرح ناکام ہوااور پنجاب پولیس کے اس حوالے سے کیے گئے بلند و بانگ دعوے دھرے کے دھرے نظر آتے ہیں۔ کچے کے ڈاکو لوگوں کو کبھی نوکریوں کا جھانسہ دے کر کبھی خواتین بن کر اور کبھی سستی گاڑیاں خریدنے کا جھانسہ دے کر ارد گرد کے علاقوں میں بلوا کر اغوا کرتے ہیں اور کروڑوں روپے ہتھیا لیتے ہیں اس دوران وہ کئی افراد کی جان بھی لے چکے ہیں وہ کچے کے علاقے میں کھلے عام دندناتے پھرتے ہیں اور انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔
چونیاں میں جس طرح گھر میں گھس کر مرد پولیس اہلکاروں نے عورتوں پر تشدد کیا اور ایک اور واقعے میں جس طرح خاتون کو زمین پر لٹا کر تشدد کا نشانہ بنایا گیا یہ اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں پنجاب پولیس کے اعلیٰ افسران چاہے کتنی ہی ٹک ٹاک بنا لیں حقائق اس سے مختلف ہیں حقیقت میں روزانہ ایسے درجنوں واقعات تھانوں میں رونما ہوتے ہیں جن میں عام شہریوں اور بے گناہ لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔موجودہ حکومت اگر پولیس کا قبلہ درست کرنا چاہتی ہے تو اسے اس کی تربیت اور عوام کے ساتھ رویے پر خصوصی توجہ دینا ہو گی۔ اعلیٰ پولیس افسران کو باور کرنا ہوگا کہ محض ٹک ٹاک بنانے سے کام نہیں چلے گا انہیں عوام کی خدمت کے لیے اپنے اے سی والے دفاتر سے باہر نکل کر سڑکوں پر آنا پڑے گا ۔
تبصرے بند ہیں.