بلوچستان ایک دفعہ پھر دہشت گردی کی بہت بڑی واردات سے لرز اٹھا ہے بلوچ لبریشن فرنٹ (BLF) نے دہشت گردی کے پیر کے دن ہونے والے واقعات کی ذمہ داری قبول کر لی ہے جس میں 40 بے گناہ شہریوں کو چن چن کر ان کی علاقائی شناخت کی تصدیق کے بعد موت کے گھاٹ اتارا گیا جس کے بعد پولیس سٹیشن پر خود کش حملہ ریلوے پل کی تباہی اور درجنوں گاڑیوں کو نذر آتش کرنے کا سلسلہ شروع ہوا دہشت گردوں کے مقابلے میں 14 سکیورٹی اہل کار شہید ہوئے جبکہ 21 دہشت آپریشن میں مار ے گئے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے ان واقعات کی ذمہ داری براہ راست انڈیا پر ڈال دی ہے اگر یہ درست ہے تو پھر پاکستان کو دنیا میں انڈیا کے خلاف اپنا سفارتی مؤقف زیادہ موثر طریقے سے پیش کرنا ہو گا ۔
یہ پاکستان کو اندر سے غیر مستحکم کرنے کی سازش ہے۔ بلوچستان کے مسئلے کے سیاسی حل کی ضرورت ہے ایسے لگتا ہے کہ وہاں کی سیاسی پارٹیاں عوام کی نمائندگی کرنے سے قاصر ہیں ورنہ جتنے تواتر سے وہاں حکومتیں بنتی اور ٹوٹتی ہیں اگر یہ سیاسی لوگ عوام کی حقیقی نمائندہ ہوتے تو وہاں اب تک امن و امان قائم ہو چکا ہوتا۔آپ نے دیکھا ہو گتا کہ وفاق کی بڑی سیاسی پارٹیوں میں کوئی پارٹی بھی وہاں اپنا اثر و رسوخ نہیں رکھتی۔ وہ لوگ جب بھی الیکشن جیت لیتے ہیں وہ مل کر بر سر اقتدار پارٹی کے ساتھ مل کر اقتدار میں حصہ دار بن جاتے ہیں ایک الیکشن میں ایک پارٹی اور اگلے ہی الیکشن میں دوسری پارٹی میں جانا ان کا معمول ہے۔
بلوچستان قدرتی وسائل سے مالا مال پاکستان کا رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے۔ جسے ہمارے مخالفین پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں یہاں پر ریکوڈیک کی شکل میں اربوں ڈالر کے زیر زمین تانبے سونے اور دیگر معانیات کے بے پناہ ذخائر ہیں جن سے فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا۔
حالیہ دہشت گردی کی لہر کے اسباب کے پیچھے ریکوڈیک منصوبہ کے شروع ہونے سے پہلے ہی اس کے راستے میں رکاوٹ ڈالنا ہے۔ یاد رہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے مارچ کے آخری ہفتے میں کن یسیڈین مائننگ کمپنی بیرک گولڈ کے سربراہ مارک برسٹو اور ان کے وفد کے ساتھ اسلام آباد میں تفصیلی ملاقات کی تھی۔ اس کمپنی نے پاکستان کے ساتھ 57 بلین ڈالر کا معاہدہ کیا ہے جس کی رو سے 2028ء میں ریکوڈک منصوبے پر پروڈکشن کا آغاز ہونا ہے ابتدائی طور پر یہ 10بلین کا معاہدہ ہے اور اگلے سال تھی 2025ء میں چاغی کے مقام پر کمپنی نے اپنی mines یا کانیں تعمیر کرنے کا کام شروع کرنا ہے لیکن اس کام کے آغاز سے پہلے کمپنی بلوچستان میں اپنے ملازموں کی جانوں کے تحفظ کی ضمانت مانگ رہے ہے یاد رہے کہ معاہدے کے مطابق ریکوڈک سے حاصل ہونے والی کاپر اور سونے کی کھیپ میں 50 فیصد ٹھیکیدار یعنی بیرک گولڈ کا ہو گا باقی آدھا یا نصف وفاقی اور بلوچستان کے درمیان ففٹی ففٹی ہو گا۔ کمپنی مقامی لوگوں کو روزگار دینے اور مقامی ترقیاتی ڈھانچے کی تعمیر میں حصہ ڈالنے کی پابند ہو گی۔
اس وقت دنیا بھر میں بجلی پر چلنے والی گاڑیوں یعنی الیکٹرک وہیکل یا EV انڈسٹری سرماریہ کاری کے لحاظ سے سرفہرست ہے کیونکہ آنے والا دور EV کا دور ہے جس کے لیے کاپر سے بنی بیٹریاں استعمال ہوتی ہیں جو موبائل فون بیٹری کی طرح چارج ہوتی ہیں۔ دنیا بھر کی نظریں اس وقت کاپر یا تانبے کے ذخائر پر ہیں اور بلوچستان کا ریکوڈیک کا پر کالامحدود ذخیرہ ہے جس کو بروئے کار لا کر پاکستان نہ صرف اپنے قرض اتار ہو سکتا ہے بلکہ مشرق وسطیٰ کی تیل کی دولت کی طرح ان سے آگے نکل سکتا ہے۔ انڈیا اور افغانستان نہیں چاہتے کہ پاکستان کاپر میں بریک تھرو کر کے اپنی غربت سے نجات حاصل کرے۔ انڈیا افغانستان میں بیٹھے پاکستان دشمن عناصر کو پیسہ اور تربیت فراہم کرتا ہے یہ پرانی باتیں ہیں۔ تازہ ترین وارداتوں کا ہدف یہی ہے کہ بیرک گولڈ کمپنی سکیورٹی خدشات کا باعث اپنے اس معاہدے پر کام میں تاخیر کر دے یا معاہدہ کینسل کر دے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ پاکستان کے لیے بہت بدقسمتی کی بات ہو گی۔ ریکوڈیک منصوبے کی سائٹ چونکہ افغانستان اور ایران کی سرحد کے قریب ہے لہٰذا وہاں سکیورٹی کے حالات پیدا کرنا دشمن طاقتوں کیلئے قدرے آسان ہے۔ بی ایل ایف کو کمزور کرنے کے لیے سب سے پہلے ان کو ملنے والے غیر ملکی پیسے کو سپلائی لائن کو کاٹنا ہو گا۔ اس وقت بلوچستان حالت جنگ میں ہے۔
ایک اہم پہلو یہ ہے کہ بلوچستان میں ایران عراق جانے والے زائرین کی بسوں پر مسلسل حملوں کے پیش نظر یا تو یہ روٹ عارضی طور پر بند کر دیا جائے یا سکیورٹی اداروں کی نگرانی میں ان کو محفوظ راہداری دینے کا انتظام کیا جائے تا کہ اس طرح کے واقعات کو روکا جاسکے۔
تبصرے بند ہیں.