ماہ اگست اور پاکستانی سیاحت

9

پوچھنے والے پاکستانی شمال کی سیاحت کا مناسب وقت اکثر دریافت کرتے ہیں، ہمارا جواب ہوتا ہے، وسط جون سے جولائی کا آخری ہفتہ۔

ہم نے پچیس سالہ سیاحتی تجربات کے دوران دیکھا ہے اگست کا مہینہ ہمیشہ سیاحت پر بھاری ہوتا ہے۔ دو سال قبل جون کے وسط میں مکمل ہونے والی نومل تا نلتر زیرو پوائنٹ، کارپٹڈ سڑک اگست کے آغاز میں سیلاب کی نذر ہوتے دیکھی تھی۔

جون سے جولائی ناران، کالام، کشمیر اور گلگت بلتستان کی تمام سڑکیں لینڈ سلائڈنگ سے پاک ہوتی ہیں اور تمام راستے بھی کھلے ملتے ہیں، کیونکہ وہ دن وادیوں پر بارشیں برسنے کے نہیں صرف بوندا باندی کے لیے مخصوص ہیں۔

پاکستان کی تمام بلندیاں ہر سال ستمبر سے مئی تک برف باری کی وجہ سے نو گو ایریاز میں بدل جاتی ہیں۔ جب تمام درے بند ہوتے ہیں تو وہاں پر بسنے والے لوگ محصور ہو جاتے ہیں۔ گلگت بلتستان آنے جانے والے مسافر اور سیاح ہوائی جہاز کے علاوہ قراقرم ہائی وے پر براستہ بشام اور کوہستان ملک کے میدانی علاقوں تک رسائی حاصل کرتے ہیں۔ درہ برزل، بابو سر ٹاپ، درہ درکوٹ، لواری ٹاپ، خنجراب پاس سمیت اٹھارہ درے جون کے وسط میں برف کی لپیٹ سے کچھ کچھ باہر آتے ہیں تو طرفین کی گزرگاہیں کھلتی ہیں۔ یہ وقت سیاحت کے لیے موزوں ہوتا ہے، جب سڑکوں پر رش کم، ہوٹل سستے، راستے کھلے، لینڈ سکیپ سرسبز اور جھیلیں نیلگوں ہوتی ہیں۔ یہی میرا پسندیدہ موسم ہے جب زیر مرمت سڑکیں مکمل ہو کر گزرنے والوں کی منتظر ہوتی ہیں۔ ہوٹلوں میں بستر صاف اور ریستوران شفاف ملتے ہیں۔

مجھے پسندیدہ دنوں میں کبھی سیاحتی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ مگر ہر سال اگست میں نکلنے والے دوست کبھی مہانڈری پل پر گھٹنے ٹیکتے ملتے ہیں اور کبھی پارس میں لینڈ سلائیڈنگ کی زد میں آ کر مدد کے لیے پکار رہے ہوتے ہیں۔

اگست میں حادثات بھی معمول سے زیادہ ہوتے ہیں۔ امسال رواں ماہ کے دوران قراقرم ہائی وے کے کچھ حصے سیلاب میں بہہ گئے اور پانچ سے زائد مقامات پر سڑک بند بھی رہی۔ گرمیوں کے عین عروج کے دنوں میں ناران سیاحوں سے خالی نظر آیا اور کالام میں بھی الو بولنے لگے، وجہ صرف یہ ہے کہ بارش کی وجہ سے سیلاب اور گلیشئر پگھلنے میں تیزی ندیوں کو دریاؤں میں بدل دیتی ہے جس سے سڑکوں پر لینڈ سلائیڈنگ تو ایک طرف پوری گزر گاہ ہی دریا برد ہو جاتی ہے۔

اگست کے پہلے دو ہفتوں کے دوران سکردو جگلوٹ روڈ سات بار بند ہوئی، شگر روڈ سیلاب کی وجہ سے بے قابو لہروں کی زد میں آ گیا اور اسکولے، کے ٹو روڈ کے سیاح بے بس نظر آئے۔ خپلو میں بھی اگست کا مہینہ ملتی جلتی صورت حال سے دوچار رہا۔ کئی پل بہہ گئے، کئی آبشاریں حسن فطرت سے عذاب الٰہی میں تبدیل ہوئیں، کتنے دریا بستیوں کو نگل گئے۔

بارشیں ہوئیں تو پتھر ہو چکی برف بھی پگھل کر دریاؤں کی روانی میں شدت کا باعث بنی اور سیلاب ہر طرف تباہی مچاتا گیا۔ چوٹیوں پر جمی برف اور ڈھلوانی سبزے کو سیلابی ریلوں نے نگل لیا۔ تمام دروں نے اپنے دروازے سیاحوں پر اس لیے بند کر لیے کہ وادیوں کو باہم جوڑتی رابطہ سڑکیں صفحہ ہستی سے مٹ گئیں۔

ماہ اگست میں سیاحت پر نکلنے والوں کو ہر سال ریسکیو کرانا پڑتا ہے۔ اس سال بھی صورت حال مختلف نہیں رہی۔ چودہ اگست گزرتے ہی ہر طرف پانی ہی پانی نظر آیا ہے اور سیلاب پہاڑی دروں سے اتر کر میدانی علاقوں میں پھیل گیا ہے۔ مہانڈری پل بہہ جانے سے ہزاروں سیاح ناران میں محصور ہو گئے تھے۔

اگست میں سیاحت کے لیے آنے والے اپنے پروگرام میں تبدیلی لائیں اور جولائی کے آخری ہفتے تک کوہ نوردی کا شوق پورا کریں کیونکہ بارشیں اپنے مخصوص ایام سے آگے پیچھے ہونے والی نہیں ہیں۔

ماہ اگست کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ جولائی میں دس ہزار روپے میں ملنے والا کمرا پانچ سو میں بھی کوئی نہیں لیتا۔ اگست ہل سٹیشنز کے کاروباری طبقہ کے لیے بھی بھاری رہتا ہے اور سیاحوں کے لیے بھی۔

تبصرے بند ہیں.