محترم جناب آئی جی صاحب!

14

یہ کیاپاکستان ہے یہ کیسے پاکستان کا قانون ہے جہاں دہشت گردوں اور ڈاکوؤں نے اس دھرتی کو لہو لہو کردیا ہے ہماری بے بسی کا یہ عالم ہے کہ کتنے قانونی ادارے ہیں کتنے نوجوان ہیں جو صرف مٹھی بھر ڈاکوؤں کو پکڑ نہیں سکتے۔

گزشتہ دنوں کچے کے علاقے میں بے لگام ڈاکوؤں نے بارہ سے زائد پولیس اہلکاروں کو شہید کردیا ان شہادتوں کا سلسلہ دوتین عشروں سے جاری وساری ہے اور یہ بے لگام ڈاکو اس قدر مضبوط ہیں کہ انہوں نے ریاست کی رٹ کو بھی چیلنج کردیا ہے مگر ان پر کوئی ہاتھ ڈالنے والا نہیں ہے ہمارے ادارے ناکام کوششیں کررہے ہیں ریاست کے اندر بدمعاش ریاست کی رٹ قائم کرنے والے کیا اتنے طاقتورہیں کہ ان پر ہاتھ نہیں ڈالا جاسکتا۔

کچہ میں کبھی چھوٹو، کبھی اندھڑ، کبھی لاکھانی، کبھی لاشاری کی شکل میں چھوٹے چھوٹے سانپ مقامی وڈیروں اور سیاستدانوں کی سہولت کاری کے بل پر عوام اور دوسرے اضلاع سے آئے ناتجربہ کار پولیس کانسٹیبلری کے جوانوں کو ڈستے رہیں گے۔ اورکیا یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا۔

محترم جناب آئی جی صاحب! ڈاکوؤں کے حملوں میں بچ جانے والے خوش نصیب جوانوں کی پیشانیوں کو چوم کر فوٹوگرافی کروانے، یا شہید ہونے والوں کے یتیم بچوں کو گود میں لیکر پیار کرنے اور جائے شہادت پر کیمروں کے سامنے ڈاکوؤں کو انگلی دکھا کر نشان عبرت بنانے کے اعلانات کے ساتھ نعرہ تکبیر لگانے سے اس فورس کی قیادت کا حق ادا نہیں ہو سکتا، ہنگامی دورے کے ساتھ ساتھ وہاں کچھ حقیقی اور عملی اقدامات بھی لینے کی ضرورت ہے۔ آپ کے وہاں تعینات کئے جانے والے DPO/RPO بلاشبہ ماضی کی طرح پورے ہندوستان میں تعینات ہونے والے انگریز افسروں کی طرح بہت ذہین اور اسمارٹ ہوں گے، لیکن ان کا مشاہدہ اور تجربہ مقامی لوگوں، ماتحت پولیس سے سنی سنائی باتوں اور واقعات پر مشتمل ہے۔

اگر آپ واقعی کچہ کے اس علاقے کو امن کا گہوارہ بنانے کیلئے اتنے ہی مخلص ہیں تو پھر کچہ کی پولیسنگ سے متعلق اہم ترین فیصلے لاہور کے اپنے خوبصورت اور ٹھنڈے کانفرنس رومز میں سینئر قیادت کے درمیان نہیں بلکہ اس علاقے میں ڈیوٹی کرنے والے بہترین شہرت کے حامل SHOs اور جوانوں کو شامل کرکے کریں جن کا بچپن اور جوانی اسی علاقے میں گزری ہو، جو اس علاقے کے مقامی کیڑوں اور باہر سے وارد ہوئے کیڑوں اور پرندوں کی نسلوں اور ان کی نقل و حرکت سے بھی اچھی طرح واقف ہوں، وہ لوگ ان کتوں اور خنزیروں کے لئے صحیح دہشت اور خوف کی علامت ہیں ناں کہ پولیس میں نئے نئے بھرتی ہوئے دور دراز اضلاع کے یہ جوان جنہیں ٹریننگ ختم ہوتے ساتھ ہی دو سال کے لئے PC میں پھینک دیا جاتا ہے، یہ بیچارے ابھی اپنے بوڑھے ماں باپ کو خود کو وردی میں جی بھر کر نظر آنے کا ارمان بھی پورا نہیں کر پاتے کہ ان کے خون میں لت پت لاشے قومی پرچم میں لپیٹ کر ان کے گھروں کو پہنچا دئیے جاتے ہیں، ان بچوں پر رحم کریں، یہ بھارت یا اسرائیل کے شہری نہیں ہیں اسی دھرتی کے بیٹے ہیں۔اس پورے علاقے میں عارضی و مستقل سکیورٹی چیک پوسٹوں، پٹرولنگ پلان کو انہی مقامی SHOs اور جوانوں کی مشاورت سے از سر نو ترتیب دیا جائے۔ ان علاقوں میں پولیس کے پاس موسمی و جغرافیائی اعتبار سے مضبوط اور جدید ترین گاڑیاں اور ہتھیار فراہم کئے جائیں، جب ڈاکوؤں کے پاس LMG, راکٹ لانچر، اورmm 14.7 اینٹی ائیر کرافٹ گنز ہوں تو کیا برسوں پرانی ناکارہ SMG, MP5, اور پسٹلز ان کا مقابلہ کر سکتے ہیں؟

اس علاقے میں نوگو ایریاز اور ڈاکوؤں کے لئے محفوظ ٹھکانوں کی بقا مقامی سیاستدانوں کی آشیر باد کے بغیر ہرگز ممکن نہیں۔یہاں یہ طے شدہ بات ہے خدارا ایسے DPOs/RPO تعینات کریں جنہیں مقامی MPA/MNA کے مفادات سے زیادہ عوام اور اپنی فورس کی زندگیاں عزیز ہوں۔ قریباً اس کی ایک مثال دوں گا کہ دو سال قبل اسی ضلع رحیم یار خان کے دو بہترین SHOs نوید نواز واہلہ اور سیف اللّٰہ ملہی نے اپنی اور اپنے خاندانوں کی زندگیاں داؤ پر لگا کر 30 کے قریب بدمعاش مہلک کتے مار کر اس پورے ایریا کو امن کا گہوارہ بنایااور ان خطرناک ملزمان کا بھاری اسلحہ مارٹر گولے، راکٹ لانچر، مشین گنز بھی برآمد کیں۔ ایک پولیس کا جوان بھی آپریشن میں شہید ہوا۔ ضلع رحیم یار خان کا بچہ بچہ آج بھی پولیس کے ان ہیروز کے ناموں اور کارناموں سے واقف ہے، آپ کے اپنے ہی اس وقت کے DPO/RPO جو بہت اچھی شہرت کے حامل افسر ہیں، نے اپنی زندگیاں داؤ پر لگا کر یہاں امن بحال کرنے والے ان دونوں SHOs کو قائد اعظم پولیس میڈل کے لئے ریکمنڈ کیا، لیکن آپ کو بھی یہ جان کر شرم ضرور محسوس کرنی چاہئے کہ ان دونوں کو ان کے احسانات کے بدلے میں پیپلز پارٹی کے مقامی MPA کے دباؤ پر ایک کو 450 کلومیٹر دور ضلع بہاولنگر تبادلہ کر دیا گیا اور دوسرے SHO کو اسپیشل برانچ ہیڈکوارٹر لاہور ٹرانسفر کر دیا گیا۔ اور یہی نہیں موصوف MPA کے مفادات کو شدید نقصان پہنچانے کے جرم میں ان دونوں کے قائد اعظم پولیس میڈل کے لئے بھجوائے نام بھی اوپر سے منسوخ کروا دئیے گئے۔ اور ان علاقوں میں ویسے ہی گندے اور بدنام زمانہ SHOs تعینات کئے گئے جن کا کام صرف سائیں کی خدمت کرنا ہے،جناب آئی جی صاحب یہ انتہائی شرم کا مقام ہے کہ اس نیک نام اور باضمیر RPO کیلئے بھی جو اپنے ان ہیروز کی خدمات کا معترف تو آج بھی ہے لیکن انہیں اوپر سے آئے دباؤ سے نہ بچا سکا۔ اللہ کریم ہمارے ان باضمیر افسروں کو بھی ہمت اور قوت گویائی عطا کرے کہ وہ بڑے عہدوں پر بیٹھے چاپلوسوں کے سامنے سرنگوں کرنے کی بجائے استعفیٰ دیکر عزت و وقار کے راستے کا انتخاب کریں۔
اور آخری بات …
ہمیں خبر تھی لٹیروں کے سب ٹھکانوں کی
شریک جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے
جناب آئی جی صاحب! اب بیانات ، فوٹو سیشن کا دور نہیں ہیں 18آپریشن ، اربوں روپے اور ان گنت نوجوانوں کی شہادتیں…اب نہیں تو کب ایک ہی آپریشن کریں گے اور بہادری کے تمغے سینوں پر سجائیں۔

تبصرے بند ہیں.