جو کچھ گزشتہ دِنوں بنگلہ دیش میں ہواوہ اِنسانی تارِیخ میں پہلی بار نہیں ہوا۔ گزشتہ ساٹھ سال میں بھی یہ کئی بار، کئی جگہ ہوچکا ہے۔ اِیران، لیبیا، عراق، رومانیہ، سابقہ سوویت یونین، مصر غرض ایک فہرست اَیسے ممالک کی موجود ہے جہاں حکمرانوں کو اْٹھا کر پھینک دِیا گیا۔ خود ہمارے ملک میں یہ کام ہوچکا ہے۔
دیکھنا یہ چاہیے کہ کیا وجہ ہے کہ یہ واقعہ بار بار پیش آتا ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں نے گزشتہ واقعات سے کوئی سبق نہیں سیکھا ہوتا۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ صدام حسین، رضا شاہ پہلوی، معمر قذافی، چاؤ شسکو، حسنی مبارک وغیرہ واقعی غلط تھے۔ میں تو اَیسا نہیں ہوں۔ میں تو جو کررہا ہوں وہ بالکل دْرست ہے۔ یہ ملک کے مفاد میں ہے کہ میں ہی یہاں کا حکمران رہوں۔ میں سب کچھ ملک اَور قوم کی بھلائی کے لیے کررہا ہوں۔ یہ وہ میٹھی گولی ہے جو حکمران اَپنے آپ کو دیتے ہیں۔ چنانچہ وہ سب کچھ وہی کرتے ہیں جو اْن سے پہلے کے لوگوں نے کیا تھا۔ پھر اْن کا اَنجام بھی تقریباً ویسا ہی ہوتا ہے۔
حسینہ واجد نے اَپنے دورِ حکمرانی میں ہر طرح کا ظلم ڈھایا۔ اْس نے بے شمار لوگوں کو قتل کروایا۔ اْس نے جسے مروانا ہوتا تھا اْس کے بارے میں یہ کہا جاتا تھا کہ یہ شخص ملک کا غدار ہے کیونکہ اِس نے 1971ء میں مجیب الرحمان کا ساتھ نہیں دِیا تھا۔ جسے نوازنا ہوتا تھا اْس کے بارے میں یہ کہا جاتا کہ اِس نے آزادی کی تحریک میں بڑا زوردار کردار اَدا کیا تھا یا یہ اْن لوگوں کی اَولاد ہے جو آزادی کے لیے لڑے تھے۔ چنانچہ ملک برہمنوں اَور شودروں میں تقسیم ہونے لگا تھا۔ پھر یہ کہ حسینہ واجد نے اَپنے لیے جاگیریں اَور جائیدادیں بھی بنائیں۔ ملک سے باہر، سوئس بینکوں میں اگر اْس کے کچھ اکاؤنٹ بھی تھے تو وہ اِس پر مستزاد ہوں گے۔
ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ جبر اَور ظلم میں فرق ہے۔ جبر کی حکومت کئی جگہ آج بھی موجود ہے۔ ایک مثال چین ہے۔ مغرب میں بھی ممالک میں جبر کی حکومتیں پائی جاتی ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں اَیسا ہی سلسلہ ہے۔ لیکن چونکہ وہاں ظلم نہیں ہورہا، لوگوں کو اْن کے حقوق آسانی سے مل رہے ہیں اِس لیے اْن حکومتوں کے خلاف کہیں کوئی طاقت ور آواز بلند نہیں ہورہی۔ بنگلہ دیش میں ظلم ہورہا تھا۔ لوگوں کو اْن کے حقوق سے محروم کیا جارہا تھا۔ اِس میں شک نہیں کہ معاشی ترقی بھی ہورہی تھی لیکن پتا یہ چلا کہ دولت ظلم کا مداوا نہیں کرپاتی۔
سوال یہ ہے کہ اِس سارے سلسلے سے کن کو سبق لینا چاہیے۔ اِس میں کس کس کے لیے عبرت ہے۔ پہلی عبرت تو حکمرانوں کے لیے ہے۔ جو یہ سمجھے کہ میں خدا بن چکا ہوں اَور اَب جو چاہوں کروں مجھے کوئی نہیں پوچھے گا، وہ دراصل ایک سراب کے پیچھے بھاگ رہا ہوتا ہے اَور ایک بلبلے میں زندہ ہوتا ہے۔ جونہی بلبلہ پھٹتا ہے سب کچھ یک دم ختم ہوجاتا ہے۔ اکثر زندگی بھی ختم ہوجاتی ہے۔ یہ بہت خوفناک صورتِ حال ہے جو ایک بھیانک انجام پر منتج ہوتی ہے۔ دْوسری عبرت یہ اِنتظامیہ کے لیے ہے۔ جو بیوروکریٹ اَور دْوسرے سرکاری عہدے دار اْس حکمران کے آگے سجدے میں جاتے ہیں جو اَپنے آپ کو خدا سمجھنے لگتا ہے، وہ بھی ملک اَور قوم کا بیڑہ غرق کرنے میں کلیدی کردار اَدا کرتے ہیں۔ جب حکمران تبدیل ہوتے ہیں تو اَیسے سرکاری عہدے داروں کو چن چن کر برے انجام تک پہنچایا جاتا ہے۔ آپ دیکھ لیں کہ بنگلہ دیش میں چیف جسٹس اَور سنٹرل بنک کا گورنر خود ہی استعفیٰ دے کر گھر چلے گئے۔ یہ چیز بتاتی ہے کہ وہ حسینہ واجد کی بندگی میں اِتنا آگے تھے کہ اْن کا شمار بڑے پجاریوں میں ہونے لگا تھا۔ چیف جسٹس اگر حکمران کا چمچہ بن جائے تو پھر کسی کو بھی اِنصاف کی کوئی توقع نہیں رہتی۔ جہاں سے اِنصاف ملنا چاہیے تھا وہاں تو ظالم کا ساتھی براجمان تھا۔ چنانچہ ملک میں جو ہورہا ہوگا اْس کا اَندازہ آسانی سے لگایا جاسکتا ہے۔ آہستہ آہستہ تمام بڑے عہدے دار اَپنی جگہ سے ہٹا دیے جائیں گے۔ ہمیشہ اَیسے ہی ہوتا ہے۔ اِن عہدے داروں کے بغیر کوئی حکمران بھی خدا نہیں بن سکتا۔ تیسری عبرت عوام کے لیے بھی ہے۔ عوام ہی اِن حکمرانوں کو تخت سلطنت پر بٹھاتی ہے۔ وہ اْن کے نعروں اَور بڑی بڑی باتوں کو وعدے سمجھ لیتی ہے۔ یہ وہ وعدے ہوتے ہیں جن کے نصیب میں وفا ہونا نہیں لکھا ہوتا۔ وعدہ کرنے والے کو پہلے دِن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ یہ باتیں بس یونہی کہہ رہا ہے۔ عوام بار بار ایک ہی سوراخ سے ڈسی جاتی ہے۔ اِنھیں پھر بھی عقل نہیں آتی۔ اْنھیں ہر نیا شخص ایک مسیحا لگتا ہے جس کے بارے میں وہ سمجھتے ہیں کہ یہ پہلوں جیسا نہیں ہوگا۔ یہ فیصلہ کرتے ہوئے وہ اْس شخص کے بارے میں کوئی خاص تحقیق نہیں کرتے۔ عقل و خرد سے نہیں سوچتے۔ وہ سمجھتے ہیں جو سمجھنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ وہ پھر دھوکا کھاجاتے ہیں۔ حسینہ واجد نے پندرہ برس حکمرانی کی۔ یہ ایک طویل عرصہ ہوتا ہے۔ اگر اِتنے عرصے کے بعد بھی اْسے اِس ذلت کے ساتھ ملک سے نکلنا پڑا تو کہیں کچھ بہت ہی غلط تھا۔چوتھی عبرت پولیس اَور قانون نافذ کرنے والے اِداروں کے لیے ہے۔ اْنہوں نے سمجھا تھا کہ وہ طلباء کے اِحتجاج کو دبالیں گے۔ اْنہوں نے بے پناہ مظالم ڈھائے۔ تین سو کے قریب طلباء جان سے گئے۔ گویا تین سو والدین کی زِندگیاں اْجڑ گئیں۔ بھائی بہنوں کے ساتھ جو ہوا وہ الگ ہے۔ نتیجہ پھر بھی وہ نہیں نکلا جو پولیس نے چاہا تھا۔ اِتنے ظلم کا کسی نے کبھی حساب بھی دینا ہے۔ وہی پولیس اہلکار یہاں بھی مقدمے اَور سزائیں بھگتیں گے۔ آخرت میں اْن کے ساتھ جو ہوگا، وہ اِس پر مستزاد ہوگا۔ اْنہیں کیا حاصل ہوا؟ کچھ کو ترقی مل گئی، کچھ کو اِنعامات مل گئے۔ بس، اِس پر ہی اْنہوں نے اَپنی دْنیا اَور عاقبت داؤ پر لگادی۔ یہ سراسر گھاٹے کا سودا تھا۔
پاکستانیوں کو بھی عبرت حاصل کرنی چاہیے۔ یہاں بھی ظلم اَپنی حدوں کو چھورہا ہے۔ عوام ایک چکی میں پسی ہوئی ہے۔ ایک خاص طبقہ عیاشی کررہا ہے۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو جان بوجھ کر تعلیم سے ہی دور رکھا جارہا ہے کہ وہ اِن حکمرانوں کے لیے خطرہ نہ بن سکیں۔ یہاں بھی جو آتا ہے وہ کچھ عرصہ گزر جانے کے بعد خود کو خدا سمجھنے لگتا ہے۔ حبیب جالب نے آج سے تقریباً پچپن سال پہلے جنرل یحییٰ خان کی تصویر کو مخاطب کرکے کہا تھا
تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا
اْس کو بھی اَپنے خدا ہونے پہ اِتنا ہی یقیں تھا
تبصرے بند ہیں.