حواس و عقل اور وحی!

16

ہر عہد کے انسان کی طرح دور جدید کے انسان کو بھی کچھ بنیادی سوالات کا سامنا ہے مثلاً اس دنیا کا آغازکیسے ہوا اور اس کا انجام کیا ہے؟ کیا یہ زندگی حقیقی ہے یا عارضی۔ اگر یہ عارضی ہے تو حقیقی زندگی کہاں ہے۔ کائنات بحیثیت مجموعی کیا ہے اور اس کو نظم و ضبط میں رکھنے والی ذات کون سی ہے۔ انسانوں کا اس ذات اور کائنات سے کیا تعلق ہے۔ انسان خود مختار ہے یا کسی مافوق الفطرت ہستی کو جوابدہ ہے۔ ان بنیادی سوالات کے جوابات کے لیے ہمارے پاس تین ذرائع ہیں، حواس، عقل اور وحی۔ ہمارے پاس علم حاصل کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ حواس خمسہ ہیں۔ کیا حواس مذکورہ بنیادی انسانی سوالات کو ایڈریس کر سکتے ہیں؟ اس کا جواب بھرپور تاکید کے ساتھ دیا جا سکتا ہے کہ ہرگز نہیں۔ کیونکہ حواس ایک خاص حد تک حصول علم میں ہمارے معاون ہوتے ہیں اس سے آگے ان کی رسائی نہیں ہوتی۔ مثلاً میری آنکھیں ایک خاص حد تک دیکھ سکتی ہیں، میرے کان ایک خاص ہرٹز تک کی آواز سن سکتے ہیں۔ اسی طرح بعض اوقات بعض حسیں ہمیں دھوکہ دے دیتی ہیں، مثلاً دور سے چمکتا ہوا سراب مجھے پانی دکھائی دیتا ہے، آسمان پر اڑنے والا جہاز مجھے چھوٹا سا دکھائی دیتا ہے۔ مختلف اسباب کی بنا پر ذائقہ کی حس بھی مجھے غلط نتائج تک پہنچا دیتی ہے۔ معلوم ہوا حواس کی تگ و دو ایک خاص حد تک ہے اور وہ اس حد سے باہر جا کر ہمیں علم بہم نہیں پہنچا سکتے۔ حواس خود اس کائنات اور زندگی کے پابند، اس کی حد کے اندر محدود ہیں اور اس کائنات اور زندگی سے باہر وہ کسی چیز کی موافقت یا مخالفت نہیں کر سکتے۔ یہ صرف اس کے محسوس ہونے یا نہ ہونے کا بتا سکتے ہیں موجود ہونے یا نہ ہونے کا نہیں بتا سکتے۔ معلوم ہوا حواس کی رسائی بنیادی انسانی سوالات تک نہیں ہے اور نہ ہی وہ ان کے جوابات دے سکتے ہیں۔

حصول علم کا دوسرا بڑا ذریعہ عقل ہے، دیگر مخلوقات سے انسانی امتیاز عقل کی بنیاد پر ہے۔ عقل کی حقیقت یہ ہے کہ عقل اپنا طبعی فریضہ سر انجام دینے کے لیے تنہا کافی نہیں ہوتی بلکہ اپنے علاوہ کچھ بنیادی حقائق کی محتاج ہوتی ہے۔ اسے نتائج کے حصول کے لیے پہلے سے معلوم حقائق سے مدد لینا پڑتی ہے۔ جہاں انسان کو یہ بنیادی معلومات میسر نہ ہوں وہاں عقل بھی کچھ نتائج مہیا نہیں کر سکتی۔ مثلاً ایک ذہین آدمی جس کو اعداد کا علم نہ ہو وہ کتنا ہی عقل مند اور ذہین کیوں نہ ہو وہ ریاضی کا سادہ سوال بھی حل نہیں کر سکتا۔ جس انسان کو حروف تہجی کا علم نہ ہو وہ عقل و قیاس سے کتنا ہی کام کیوں نہ لے ایک سطر نہیں پڑھ سکتا۔ اب بنیادی انسانی سوالات کو دیکھیے، یہ تمام سوالات مابعد الطبیعات کے ہیں اور مابعد الطبیعات کے بارے انسانی علم صفر ہے۔ ایسی صورت میں عقل بے بس ہے لہٰذا اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ غیر جانبدار بن کر سکوت اختیار کرے۔ یہ نہ تو اپنی طرف سے ان مسائل پر لب کشائی کر سکتی ہے نہ قانوناً اس کو یہ حق ہے کہ اپنی نارسائی کی بنا پر ان کا انکار کرے۔ جس طرح ایک نابینا کو حق نہیں کہ وہ بینا کے مشاہدات کا انکار کرے نہ ہی وہ چشم بینا کے مشاہدات کی تشریح کر سکتا ہے۔

افسوس یہ ہے کہ زمانہ قدیم سے ہی انسان نے اپنے فطری تجسس اور کچھ مدعیان عقل کی خود فریبی میں آ کر بنیادی انسانی سوالات اور مابعد الطبیعات کے مسائل میں جستجو شروع کر دی اور اپنی اس جستجو اور انسانی موشگافیوں اور قیاس آرائیوں کو فلسفہ کا نام دے دیا۔ انسانی تاریخ کا یہ حیرت ناک پہلو ہے کہ ڈھائی ہزار سال سے انسان فلسفے کے نام سے ایسی حقیقتوں کے بارے میں بڑی ادعائیت کے ساتھ جستجو اور حقیقت کا اعلان کرتا رہا۔ اگرچہ تاریخ میں بعض فلاسفر نے اس طرز استدلال پر سوال اٹھایا مگر ان کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔

یہی وجہ ہے کہ امام غزالیؒ فلسفہ کی بے بسی دیکھ کر تصوف اور مشاہدہ حق کی طرف مائل ہوئے تھے اور انہوں نے فلاسفہ کی اس غلطی کی نشاندہی کی تھی کہ فلاسفہ کے الہیاتی علوم و مسائل بخلاف منطق و ریاضی کے محض ظن و تخمین پر مشتمل ہیں جن کی کوئی اساس نہیں۔ ابن خلدون ؒ نے بھی فلاسفہ کی اس غلطی کو واضح کیا تھا۔ انہوں نے عقل کی مثال ایک ترازو سے دی تھی کہ عقل وہ ترازو ہے جو صرف سونا تولنے کے لیے ہے لیکن ہم اس میں پہاڑ تولنا چاہتے ہیں۔ ظاہر ہے اس میں ترازو کا کوئی قصور نہیں کہ اس کی صلاحیت ہی اتنی ہے۔ ابن تیمیہ ؒ نے بھی عقل کی اس نارسائی کو واضح کیا تھا اور متکلمین اسلام کے تسامحات اور غلطیوں کو واضح کرنے کی کوشش کی تھی۔ مغربی فلسفیوں میں کانٹ نے بھی عقل کی محدودیت کو تسلیم کیا ہے۔ کانٹ کی تنقید عقل محض پر علامہ اقبالؒ نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس نے روشن خیالوں کے کارناموں کو خاک کا ڈھیر بنا دیا ہے۔ مولانا ابو الحسن علیؒ ندوی علم الکلام کو مذہبی فلسفہ ڈکلیئر کر کے اس کی بھی مذمت کرتے ہیں کہ مذہبی فلسفہ میں متکلمین نے بنیادی انسانی سوالات کو عقل اور حواس کے ذریعے ایڈریس کرنے کی کوشش کی جو کہ ناممکن ہے۔

حواس و عقل کی کم مائیگی اور بے بسی کے بعد بنیادی انسانی سوالات اور مابعد الطبیعات کے بارے میں اصولی پوزیشن یہی بنتی ہے کہ ان کے بارے میں وحی کے دئیے گئے علم سے روشنی اور ہدایت حاصل کی جائے۔ وحی کا تعلق اس زندگی اور کائنات سے ماوراہے لہٰذا یہ وحی کا ہی استحقاق ہے کہ ان مسائل میں اس کی حتمی پوزیشن کو تسلیم کیا جائے اور اس کے بتائے گئے حقائق کو تسلیم کر کے سر تسلیم خم کر دیا جائے۔

تبصرے بند ہیں.