یورپ یاترا!

78

یہ آج سے چند برس پیشتر دو ہزار سولہ کی بات ہے میں جرمنی کے شہر فرائے برگ میں بیچ بازار ایک بنچ پر اکیلا بیٹھا حیرانی اور اشتیاق سے اپنے ارد گرد سے گزرنے والے حسین ’’ قدرتی مناظر‘‘ کا ایسے نظارہ کر رہا تھا جیسے کسی دیہاتی بچے کو پہلی بار شہر میں کھلونوں کی بہت بڑی دکان میں ایک ساتھ ڈھیر سارے خوبصورت کھلونے دیکھنے کو مل گئے ہوں۔ سچی بات ہے انگریزی فلموں میں دیکھا ہوا یہ دلکش منظر میرے جیسے سیدھے سادے ’’پینڈو‘‘ شخص کے لیے کسی طلسمِ ہوش ربا سے کم نہیں تھا۔ میرے ارد گرد رنگوں اور خوشبوئوں کا ایک ایسا منہ زور سیلاب تھا جس میں کسی مزاحمت کے بغیر میں اس کے رخ پر بہتا چلا جا رہا تھا۔ مجھے ایسے دکھائی دے رہا تھا جیسے بسنت کے دن نیلگوں آسمان پر بہت سی رنگی برنگی پتنگیں شوخ ہوائوں کے سنگ لہلہاتی اور بل کھاتی ایک ساتھ اُڑ رہی ہوں۔ ابھی میں اس رنگ برنگے اور خوشبوئوں سے مہکتے دلکش منظر میں ہی کھویا ہوا تھا کہ اس دوران میرے فون پر واٹس ایپ میسج کی ٹون بجی۔یہ لاہور سے استاد محترم عطاء الحق قاسمی صاحب کا میسج تھا جو میرے یورپ آنے کے پہلے دن سے فون اور میسجز کے ذریعے مجھ سے مسلسل رابطے میں تھے اور میری خیریت دریافت کرنے کے ساتھ مجوزہ سفر کے حوالے سے گاہے گاہے اپنے قیمتی مشوروں سے میری رہنمائی بھی فرما رہے تھے۔ قاسمی صاحب نے پوچھا تھا ’’سنائو یورپ پہنچ کر کیا محسوس کر رہے ہو؟ ‘‘۔ میں نے ایک نظر دوبارہ اپنے ارد گرد سے گزرتے حسین قدرتی مناظر کی طرف دیکھا اور ایک سرد آہ بھرتے ہوئے جوابی میسج کیا ’’سر جی بڑی دیر کر دی ہے‘‘۔ جس پر قاسمی صاحب نے ہنستے ہوئے میسج کیا ’’پتر! پہلے آ کے تم نے کون سے تیر مار لینے تھے‘‘۔ اس پر مجھے بھلوال میں اپنے استاد ملک افتخار صاحب کا وہ خود ساختہ قول یاد آ گیا جسے وہ ہم جیسے نالائق طالبعملوں کو سبق یاد نہ کرنے پر شرمندہ کرنے کے لیے اکثر سنایا کرتے تھے کہ ’’جیہڑے ایتھے بھیڑے اوہ لاہور وی بھیڑے‘‘ مطلب جو بھلوال میں نکمے اور نالائق ہیں وہ لاہور میں بھی نکمے ہیں۔ اس کے بعد میں کتنی ہی دیر تک وہاں اکیلا بیٹھا نامور سفرنامہ نگار مستنصر حسین تارڑ کی خوش قسمتی اور اپنی نالائقیوں کو یاد کر کے کڑھتا رہا کہ ’’کاش ہم بھی چاچا جی تارڑ کی طرح پڑھے لکھے اور حسین و جمیل ہوتے‘‘۔ اس دوران میں نے قاسمی صاحب کے دئیے گئے ’’معنے‘‘ کو دھونے کے لیے اپنے کتے کے ہمراہ میرے قریب سے گزرتی ہوئی ایک ’’میم‘‘ کو دیکھ کر تارڑ صاحب جیسی سمائل دینے کی کوشش بھی کی لیکن پتا نہیں اُس کج فہم نے کیوں اپنا منہ دوسری طرف پھیر لیا جس پر میں ’’صاحب کو دل نہ دینے پر کتنا غرور تھا‘‘ کا سوچ کر میں اپنا سا منہ لے کے رہ گیا۔ اس پر غصے میں ایک بار تو میرے جی میں آیا کہ اس ’’بے وفا‘‘ کو بھرے بازار میں روک کر سب کے سامنے اونچی آواز میں یہ شعر سنائوں ’’تو ہے ہرجائی تو اپنا بھی یہی طور سہی/ تو نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی‘‘ لیکن پھر یہ سوچ کر میں نے اپنے دل کو سمجھایا کہ ’’شیوہ عشق نہیں ہے حُسن کو رسوا کرنا‘‘۔ اس سے پہلے کہ میں وہاں ٹوٹے دل کے ساتھ اور کچھ الٹا سیدھا سوچتا اللہ بھلا کرے جرمنی میں مقیم میرے دوست سہیل قمر اور اُن کے بھائی رضوان قمر کا جو مجھے وہاں چھوڑ کر کسی کام سے گئے تھے واپس آ گئے۔ سہیل قمر جرمنی کے کسی انسٹیٹیوٹ سے تربیت یافتہ فلم ڈائریکٹر ہیں اور میسی برگ میں اپنی جرمن نژاد بیوی اور بچوں کے ساتھ رہتے ہیں جبکہ ان کے بھائی رضوان قمر فرائے برگ جسے عرف عام میں بلیک فارسٹ یعنی کالا جنگل کہا جاتا ہے میں اپنا کاروبار کرتے ہیں۔ اس شہر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ اس قدر گھنے جنگلوں سے گھرا ہوا ہے کہ یہاں سورج کی شعاعیں بھی نہیں پہنچ سکتیں۔ ان کے ایک اور بھائی عدنان قمر بھی ہیں جو فرانس کے قریب جرمنی کے ایک سرحدی شہر رائن فلٹن میں رہتے ہیں اور وہاں اپنا بزنس کرتے ہیں۔ ان تینوں بھائیوں کا تعلق سیالکوٹ سے ہے اور یہ ایک طویل عرصے سے جرمنی کے مستقل شہری ہیں مگر اتنا عرصہ دیارِ غیر میں رہنے کے باوجود ان کے مزاج اور رویوں میں پیار، محبت، خلوص اور ملنساری کی وہی اعلیٰ قدریں اور روایات بدرجہ اُتم موجود ہیں جو ہماری دینی اور مشرقی تہذیب و ثقافت کا اثاثہ ہیں۔ تینوں بھائیوں میں سہیل قمر ایک پڑھے لکھے اور سنجیدہ مزاج کے اور رضوان قمر سیدھے سادے اور کم گو انسان ہیں جبکہ ان کے سب سے چھوٹے بھائی عدنان قمر شوخ اور شرارتی طبیعت کے مالک ہر وقت ہنسنے مسکرانے والے ایک کھلنڈرے شخص ہیں۔ عدنان قمر کے شہر رائن فلٹن میں ایک بہت بڑی نہر ہے جسے اس شہر کی نسبت سے رائن کہا جاتا ہے اسکی خوبصورتی یہ ہے کہ اس کے ایک طرف فرانس کی سرحد ہے اور دوسری طرف سوئٹزر لینڈ کا شہر باسل ہے۔ اس نہرکے پل پر ایک ایسی جگہ ہے جہاں محبت کرنے والے جوڑوں نے اپنی محبت کی نشانی کے طور پر چھوٹے چھوٹے بے شمار تالے لگائے ہوئے ہیں جن کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ میرے استفسار پر جب سہیل قمر مجھے محبت کرنے والے جوڑوں کی طرف سے محبت کی نشانی کے طور پر لگائے جانے والے تالوں کا پس منظر بتا رہے تھے تو اُن کے چھوٹے بھائی عدنان قمر نے میرے کان میں سرگوشی کی ’’اگر سہیل بھائی بھی اپنی محبتوں کی نشانی کے لیے یہاں تالے لگاتے تو آدھے سے زیادہ تالے تو اکیلے سہیل صاحب کے ہی ہونے تھے‘‘۔ جس پر میں نے ہنستے ہوئے عدنان قمر سے کہا ’’عدنان بھائی! سہیل قمر کا تو مجھے پتا نہیں انہوں نے اپنی محبت کی نشانی کے طور پر اب تک کتنے تالے لگائے ہوں گے لیکن آپ جس قدر شوخ اور شرارتی ہیں یہ بات طے ہے کہ آپ نے اب تک یہاں کم از کم پندرہ بیس تالے تو ضرور لگائے ہونگے ویسے بھی یہ جگہ آپ کے گھر اور ممکنہ طور پر آپ کے دل کے جتنے قریب ہے ممکن ہے یہاں آتے جاتے آپ ہفتے دس دن بعد نہیں تو ہر نئے چاند کے ساتھ کوئی نہ کوئی نیا تالا ضرور لگا جاتے ہوں بلکہ یہ بھی ممکن ہے اپنی ’’بے پناہ‘‘ مصروفیت کی وجہ سے اب آپ ان تالوں کا سرے سے کوئی تکلف ہی نہ کرتے ہوں۔ یہ سن کر عدنان قمر نے باقاعدہ ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا ’’بابا جی! آپ میری طرف ہیں یا سہیل بھائی کی طرف؟‘‘۔ اس پر میں نے عدنان قمر کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا ’’عدنان بھائی! اس ایک آدھ دن میں جب تک ہمارا قیام آپ کے پاس ہے اگر آپ اپنے جاننے والی کسی قبول صورت ’’میم‘‘ سے کہہ سُن کر یہاں ایک آدھ تالا میرا بھی لگوا دیں تو میں مزید کسی شرط کے بغیر آپ کی طرف ہوں ورنہ میری پہلی دوستی تو سہیل قمر کے ساتھ ہی ہے‘‘۔ جواب میں عدنان قمر نے شوخی سے کہا ’’بزرگو! ماشاء اللہ آپ عمر کے جس حصے میں ہیں اس میں اب آپ تالے لگانے کا نہیں بلکہ اللہ کے حضور توبہ استغفار کر کے عاقبت کے ساتھ اپنی حرکتیں بھی درست کرنے کا سوچیں۔ ویسے بھی جس زمانے کے آپ ہیں اُس زمانے میں تالے نہیں پرانے فیشن کے بڑے بڑے جندرے ہوتے تھے جن کا جرمنی سمیت اب پورے یورپ میں کہیں سے ملنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لہٰذا میری طرف سے آپ صاف جواب ہی سمجھیں بھلے آپ میرا ساتھ دیں یا بھائی سہیل قمر کا‘‘۔

تبصرے بند ہیں.