گذشہ برس اکتوبر میں اچانک ٹی وی سکرین پر یہ دیکھ کر یقین نہیں آ رہا تھا کہ حماس نے ہزاروں راکٹوں کے ذریعے اسرائیل پر حملہ کر دیا ہے۔ حماس کی جانب سے آپریشن طوفان الاقصیٰ ایک طوفان کی مانند اسرائیل پر چھایا اور چند لمحوں بعد تھم گیا مگر اس طوفانی آپریشن نے اسرائیل کو غزہ پر مظالم ڈھانے کا ایک اور سرٹیفیکیٹ دیدیا۔ حماس کا یہ آپریشن غزہ کے باسیوں پر اس پیمانے کی تباہی لائے گا اس کا ادراک شاید انہیں بھی نہ تھا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اسرائیلی بمباری سے غزہ تقریباً مکمل تباہ ہو چکا ہے۔ معصوم بچوں اور خواتین کی ایک بڑی تعداد اسرائیل کے وحشیانہ فضائی حملوں کے نتیجے میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھی ہے۔ انسانی بحران اس قدر سنگین ہے کہ دیکھ کر روح کانپ اٹھتی ہے۔ بظاہر حماس کا اسرائیل پر حملہ منظم اور سوچی سمجھی حکمت عملی پر مبنی لگا جس کا ٹی وی چینلز پر بھی خوب چرچا رہا۔ جذباتی عوام کو یہ حملہ غزہ کے اسرائیلی تسلط سے نجات اور آزادی کا پروانہ لگا۔ مگر حماس کے اس اقدام کا پول چند دن میں ہی کھل گیا جب اسرائیل نے مغربی طاقتوں کے دیئے گئے جدید اسلحے سے غزہ پر جوابی حملہ کیا۔ حماس کے پاس وہ طاقت موجود تھی اور نہ ہی ہتھیار جس سے اسرائیل کو زیر کیا جا سکے۔ حماس نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ اسرائیل کی پشت پر سپر پاور امریکہ اور تمام یورپی طاقتیں کھڑی ہیں، ہوا میں تیر چلائے جس کا خمیازہ فلسطین کے عوام بھگت رہے ہیں۔ اسرائیل کی حمایت میں امریکہ، برطانیہ اور یورپ کھڑا ہے جو اسرائیل کے تحفظ کو یقینی بنانے کا اعلان کر چکے ہیں۔ امریکا اور برطانیہ اسرائیل کو مسلسل اسلحہ فراہم کر رہے ہیں جو غزہ کی مظلوم عوام کو خاک و خون میں نہلانے کیلئے استعمال ہو رہا ہے۔ حال ہی میں برطانیہ کے فارن آفس ڈپلومیٹ مارک سمتھ نے اسرائیل کو اسلحہ فراہم کرنے پر احتجاجاً استعفیٰ دیا۔ انہوں نے برطانیہ پر جنگی جرائم میں ملوث ہونے کا الزام بھی عائد کیا ہے۔ مارک سمتھ کا اپنی حکومت کے غلط فیصلے کے آگے ڈٹ جانا قابل ستائش ہے۔ فلسطین پر مظالم کی تاریخ اب تقریباً ایک صدی پرانی ہے جس میں برطانیہ کا بھی بڑا کردار ہے۔ سلطنت عثمانیہ کی شکست کے بعد مشرق وسطیٰ کے اس حصے پر برطانیہ قابض ہو گیا۔ 1947سے قبل اسرائیل کا نام و نشان تک نہ تھا۔ یہودی اور عرب اکھٹے رہتے تھے تاہم یہودی اقلیت میں تھے۔ برطانیہ پر عالمی برادری نے دباؤ ڈالا کہ فلسطین میں یہودیوں کا ایک نیشنل گھر قائم کیا جائے۔ 100 سال قبل برطانیہ کے اس وقت کے سیکرٹری خارجہ آرتھر بالفور نے یہودی برادری کے سربراہ والٹر لائنل کو 67 الفاظ پر مشتمل ایک خط لکھا۔ اس خط میں فلسطین میں یہودی برادری کے لیے الگ گھر کی یقین دہانی کرائی گئی۔ اس خط کو بالفور ڈیکلریشن کے نام سے جانا جاتا ہے۔ 1917 میں یہودی برادری کو بالفور ڈیکلریشن کے ذریعے یہ یقین دہانی کرائی کہ برطانیہ یہودیوں کے لیے الگ گھر کے پروپوزل کو منظور کر چکا ہے اور اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے پوری سہولت کاری بھی کرے گا۔ اس اعلان کے بعد عربوں اور یہودیوں میں کشیدگی بڑھ گئی۔ ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ کسی طاقتور ملک نے یہودیوں کی پشت پناہی کی اور بین الاقوامی قانون میں ’’نیشنل ہوم‘‘ کی اصطلاح نہ ہونے کے باوجود اس ٹرم کو استعمال کیا گیا۔ تاہم امریکی صدر روزویلٹ اور برطانوی وزیراعظم چرچل کے مابین کئی میٹنگز ہوئیں تاکہ یہودیوں کے لیے ایک ملک کا قیام عمل میں لایا جا سکے۔ لیکن برطانیہ فلسطین میں یہودیوں کی قسمت کا فیصلہ نہ کر سکا۔ بعد ازاں معاملہ اقوام متحدہ کے سپرد کر دیا گیا۔ 1947 میں اقوامِ متحدہ نے یہودیوں کی خواہش کے مطابق فلسطین کے علاقے کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کرتے ہوئے اسرائیل کی ریاست کا اعلان کر دیا۔ عرب ممالک نے اس کی مخالفت کی اور اسرائیل کو الگ ریاست ماننے سے انکار کر دیا۔ اس اقدام کے اثرات دہائیوں بعد بھی نہیں بدلے بلکہ بد تر سے بد تر ہوتے جا رہے ہیں۔ اس خطے میں جاری لڑائی کے پیچھے بہت ساری وجوہات ہیں جس میں ایک بہت اہم وجہ بیت المقدس ہے۔ دین ابراہیمی سے تعلق رکھنے والے تینوں مذاہب یہودی، مسیحی اور مسلمانوں کے لیے بیت المقدس کی اہمیت ایک جیسی ہے اور یہ سب اسے مقدس مقام تسلیم کرتے ہیں۔ مسلمانوں کیلئے یہ اس کا تقدس اس لیے ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کے سفر کا آغاز بیت المقدس سے کیا اور خانہ کعبہ کی طرف نماز پڑھنے سے قبل مسلمان بیت المقدس کی جانب رخ کر کے نماز ادا کرتے تھے۔ اگرچہ بیسویں صدی کے وسط میں اسرائیل کی ریاست قائم کی گئی اور عربوں کے حق پر ڈاکہ ڈالا گیا تاہم اس سے بھی خطے میں امن نہ آ سکا۔ یہودیوں کی خواہش تھی کہ عالمی برادری بیت المقدس ( یروشلم )کو اسرائیل کا دارالخلافہ تسلیم کرے مگر اسے کامیابی حاصل نہ ہو سکی تاہم 2017 میں امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالخلافہ تسلیم کرنے کا اعلان کیا اور بعدازاں امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کر کے اس پر مہر ثبت کر دی۔ فلسطین اور عرب ممالک نے امریکی اقدام پر شدید تنقید کی۔ خطے میں جاری حالیہ جنگ نے غزہ کے لوگوں کو دردناک صورتحال میں مبتلا کر رکھا ہے۔ 40 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں اور لاکھوں بے گھر ہیں۔ غزہ پر اسرائیلی حملے کو نیتن یاہو نے اپنی سیاست بچانے کے لیے ڈھال بنا رکھا ہے اور وہ امن معاہدے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ گزشتہ برس جنگ سے قبل اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کرپشن سکینڈلز کے باعث عوام میں اپنی مقبولیت کھو بیٹھا تھا۔ وہ ایک ایسا متنازع قانون پاس کرنے کی کوشش میں تھا جس کا مقصد سپریم کورٹ کے اختیارات کو محدود کرنا تھا۔ اسرائیلی عوام کو اپنی سپریم کورٹ کے پر کٹتے منظور نہ تھے لہٰذا جوڈیشل اوورہالنگ کے خلاف تل ابیب میں لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل آئے تاکہ نیتن یاہو کو جمہوریت کمزورکرنے اور مزید کرپشن سے روکا جائے۔ اس جنگ سے نتن یاہو اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ تاہم غزہ میں اسرائیل بمباری سے بڑے پیمانے پر خواتین بچوں کی ہلاکتوں پر یورپی عوام کے احتجاجی مظاہروں نے مغربی طاقتوں پر جنگ بندی کیلئے دباؤ بڑھایا ہے۔ خود امریکا میں عوامی مظاہروں نے امریکی انتظامیہ کو مجبور کیا ہے کہ وہ اسرائیل کے وحشیانہ جنگی حملوں کو روکنے اور جنگ بندی کرانے کیلئے آگے بڑھے۔ امریکا کے سیکرٹری آف سٹیٹ انتھونی بلنکن نے چند دن قبل اسرائیلی وزیراعظم سے 3 گھنٹے طویل ملاقات کی اور ایک نیا پروپوزل پیش کیا ہے۔ انتھونی بلنکن کا کہنا ہے کہ امریکا غزہ پر اسرائیل کا طویل المدتی قبضہ قبول نہیں کرے گا۔ بلنکن کے مطابق اسرائیلی وزیرِ اعظم نے غزہ میں جنگ بندی کے لیے bridging proposal پر حامی بھر لی ہے۔ یہ اب حماس پر منحصر ہے کہ وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ جنگ بندی کے سلسلے میں انتھونی بلنکن نے مصری صدر عبدالفتح السیسی سے بھی ملاقات کی ہے۔ مگر اطلاعات کے مطابق جو تجویز پیش کی گئی ہے وہ مصر اور حماس کو قبول نہیں۔ اقوام عالم کا عمل بتائے گا کہ فلسطین کے معصوم بچوں پر امن کی ایک نئی روشن صبح طلوع ہو گی یا پھر مائیں اپنی کوکھ اجڑنے کا ماتم کرتی رہیں گی۔
تبصرے بند ہیں.