گرمی سردی خزاں بہار کے درمیان کہیں سیلاب بھی چھپے ہوتے ہیں۔ زیادہ بارشیں ہوں یا گلیشیئر پگھل جائیں تو سیلاب آتے ہیں اور سب کچھ ساتھ بہا لے جاتے ہیں۔ انسان نے موسمی تباہ کاریوں سے محفوظ رہنے کیلئے بہت طریقے دریافت کئے ہیں۔ ’’فلڈ وارننگ‘‘ کا محکمہ یہی کام کرتا ہے، موسموں کے ساتھ ساتھ پانی پر گہری نظر رکھی جاتی ہے کہ کہاں سے آرہا ہے اور کدھر جا رہا ہے۔ اس محکمے سے تعلق رکھنے والے دن رات ڈیوٹی دیتے ہیں۔ ایک شخص کی رات کی ڈیوٹی لگ گئی، اس کے فرائض میں شامل تھا کہ پانی پر نظر رکھے اور ہر تبدیلی کی اطلاع حکام بالا تک پہنچائے، ایک رات اسے نیند آگئی وہ سو گیا، صبح بیدار ہوا تو ہر طرف خیریت تھی اس نے یہی اطلاع افسران تک پہنچا دی اگلی رات پھر اس پر نیند کا غلبہ ہوا وہ پھر سو گیا، نصب شب اسے محسوس ہوا جیسے پانی چڑھ رہا ہے وہ ہڑبڑا کر اٹھا اس نے گھوم پھر کر گردوپیش کا جائزہ لیا۔ خلاف معمول کچھ نہ تھا وہ سو گیا، ایک رات اسے ایک سے زائد مرتبہ اٹھ کر گھوم پھر کر دیکھنا پڑا کہ پانی کا بہائو کیسا ہے۔ بہائو معمول کے مطابق تھا وہ سو گیا۔ آئندہ رات ڈیوٹی پر آنے سے پہلے اس نے سوچا کہ اسے رات کو خواہ مخواہ اٹھنا پڑتا ہے، اس کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی بار بار اٹھنے کی زحمت سے بچنے اور اپنی نیند کو خراب ہونے سے بچانے کیلئے اس نے پانی کی اونچائی کی خبر گیری کیلئے لگائے گئے نشان کو اس کی جگہ سے ہٹا کر کچھ اونچا کر دیا اور اپنے دل کو تسلی دی کہ اب پانی خطرے کے نشان تک جلدی نہیں پہنچ سکے گا۔ اس خیال کے ساتھ ہی وہ سوگیا، اس رات اسے بھرپور نیند آئی، شب کے کسی حصے میں اسے اٹھنے کی زحمت نہ کرنا پڑی۔
اس نے معمول بنا لیا، وہ رات کو ڈیوٹی پر آنے کے بعد خطرے کے نشان کو بلندی پر آویزاں کرتا، نیند کے مزے لیتا صبح ڈیوٹی ختم کر کے گھر جانے سے قبل خطرے کے نشان کو واپس اس کی جگہ پر لگا دیتا، ایک شب وہ سویا ہی تھا کہ پانی چڑھنا شروع ہوا، کچھ ہی دیر میں پانی خطرے کے نشان کو نیچے چھوڑتا ہوا دریا کے کناروں سے باہر آگیا۔ ڈیوٹی پر موجود شخص بیدار ہوتا تو ہنگامی حالت کیلئے موجود سائرن بجا کر آس پاس کے علاقے کے لوگوں کو خبردار کرتا وہ سویا رہا، علاقہ ڈوب گیا، پانی اپنے زور میں سب کچھ بہا کے لے گیا، کئی ہفتے بعد پانی اترا تو ایک وسیع میدان تھا جس میں کچھ نشانیاں ایسی نظر آتی تھیں جن سے اندازہ کیا جا سکتا تھا یہاں کبھی کوئی آبادی تھی، زندگیاں ختم ہو گئی تھیں بس کچھ آثار باقی تھے۔
ہمارے ملک کے ہر شعبے میں خطرے کے نشان کو اپنی جگہ سے ہٹا کر بلندی پر رکھنے کے بعد نیند کے مزے لوٹنے کا طرزعمل موجود ہے، سوچ ہر جگہ یہی نظر آتی ہے کہ آج رات آرام سے گزاری جائے کل کی کل دیکھیں گے۔ اب وہ رات سر پر ہے جب پانی خطرے کے نشان کو بہت نیچے چھوڑ کر کناروں سے باہر آنے کو ہے، سب کچھ ڈوب جائے گا پھر کوئی جائزہ لینے آئے گا تو اسے اندازہ ہو گا زندگیاں تو ختم ہو چکی ہیں بس کچھ آثار باقی ہیں۔
حکومت پنجاب کی طرف دو ماہ کیلئے بجلی کے بلوں میں ریلیف کا اعلان بہت اچھی بات ہے مگر اس ریلیف سے داڑھ بھی گیلی نہیں ہوئی، جن کیلئے یہ ریلیف دیا گیا ہے وہ پوچھتے ہیںدو ماہ بعد ان سے کیا سلوک کیا جائے گا۔ دو سے چار ہزار روپے کا ریلیف پانے والے اس بات پر زیادہ متفکر ہیں کہ دو سے چار ہزار تک آنے والا بجلی کا بل بیس سے چالیس ہزار تک پہنچنے کے بعد قلیل ریلیف سے ان کی زندگیوں میں کتنا سکھ چین آئے گا اور کب تک رہے گا۔
پریشانی کی دوسری بڑی وجہ حکومت پاکستان کا ایک اور اعلان ہے جس کے مطابق اب سوئی گیس بلوں میں فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز متعارف کرائے جا رہے ہیں، بجلی بلوں میں یہ چھیڑ چھاڑ حکومت کو بہت بھائی پس اب یہ نسخہ دوسرے شعبوں میں برتنے کا فیصلے جانے کس کا ہے لیکن کل فیصلے تو وزیراعظم اور ان کی کابینہ کے ارکان کرتے ہیں لہٰذا اس کی ذمہ داری انہی کے گلے پڑے گی۔ بجلی میں دو ماہ کا ننھا سا ریلیف دے کر سوئی گیس کے بلوں میں ہمیشہ کیلئے اضافہ ایک نیا دردسر ہے جس کی نوعیت بالکل ویسی ہی ہے جیسے بجلی کے بلوں میں مستقلاً ٹی وی فیس کے نام پر ایک عذاب قوم کے سر پر مسلط کیا گیا جو سوہانِ روح بنا ہوا ہے۔ حکومت کے وزیر ، مشیر اور صاحبان با تدبیر جو مشورے دے رہے ہیں ان پر آنکھیں بند کر کے عمل کرنا دانشمندی نہیں۔ بجلی بچانے کی باتیں تو سب کرتے ہیں اسے سستی کرنے کے وعدے بھی بہت ہوئے ہیں لیکن کوئی فیصلہ ایسا نہیں ہے جس کے دور رس اثرات سامنے آئے ہوں اور امید بندھی ہو کہ اس اقدام سے اس مسئلے کو سلجھانے میں مدد ملے گی۔ بازار اور مارکیٹوں کے اوقات کار تبدیل کرنے کے فیصلے سے ضائع ہونے والی بجلی کو بچا کر لاتعداد فائدے حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ یہ اوقات صبح سات سے رات سات بجے کر دیئے جائیں تو پورے ملک میں سات بجے کے بعد سے لے کر رات ایک بجے تک ضائع ہونے والی بجلی بچائی جا سکتی ہے۔ اس سے سال بھر کسی نہ کسی انداز میں کی جانے والی لوڈشیڈنگ پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ یہ بجلی انڈسٹری کو دے کر صنعتوں کا پہیہ چلایا جا سکتا ہے۔ فرنس آئل پر چلنے والے کچھ کارخانے بند کر کے قیمتی زرمبادلہ بچایا جا سکتا ہے۔ فضا میں پھیلنے والی کثافتیں کم کی جا سکتی ہیں۔ کوئلے سے چلنے والے پلانٹ کیلئے درآمد کئے جانے والے کوئلے کا خرچ کم ہو سکتا ہے اور اس کوئلے کے جلنے سے بننے والی کالک سے معاشرے کے ہر فرد کے سیاہ ہونے والے چہرے کو بچایا جا سکتا ہے۔ کئی ہزار ارب ڈالر کیپسٹی پیمنٹ کی نذر ہو چکے۔ کاروباری طبقے کو خوش کرنے کیلئے یہ فیصلہ نہ کرنا ملک کو ڈبو دے گا۔ ہم برسوں سے سورج کی روشنی اور اس کی تپش کو ضائع کر رہے ہیں جبکہ دنیا بھر کے ملک اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ دنیا کے کسی بھی ترقی یافتہ ملک میں دن کو بارہ بجے دکانیں کھولنے اور رات ایک بجے تک انہیں کھلی رکھ کر بجلی کو ضائع کرنے کا رواج نہیں ہے۔ یہ صرف ہم جیسے ملکوں میں ہے جس کی کوئی کل سیدھی نہیں ہے۔ یہاں فیصلے مختلف شخصیات اور طبقات کو مدنظر رکھ کر کئے جاتے ہیں۔ قوم اور قومی مفاد کے تحت نہیں ہوتے، پس جب تک حقیقت پسندانہ فیصلے نہیں کئے جاتے سب بیان اور تمام اقدامات وہ نتائج نہ دے سکیں گے جن کی توقع کی جاتی ہے، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان فیصلے سے تقدیر بدلنے والی ہے، اب تک کا کوئی فیصلہ گیم چینجر ثابت نہیں ہوا، کچھ افراد کچھ خاندانوں کی گیم چینج ضرور ہوتی ہے۔ ملک اور ملک میں بسنے والوں کی نہیں، ہر رات سونے سے پہلے خطرے کے نشان کو کچھ اونچا کر کے بھرپور نیند کے مزے لینا خطرناک طرزعمل ہے، اسے وقت ضائع کئے بغیر ترک کرنا ضروری ہے، پانی خطرے کے نشان سے اوپر آچکا ہے، سب کچھ ڈوبنے والا ہے۔ خطرے کے نشان سے چھیڑ چھاڑ اچھی نہیں۔
تبصرے بند ہیں.