"حکومت کا خزانہ خالی، معیشت شدید بحران کا شکار” آپ کوئی اخبار اٹھا کر دیکھ لیں ایسی ہی شہ سرخیاں دکھائی پڑیں گی، کوئی ٹی وی چینل لگا کر دیکھ لیں، معاشی بحران ، بے روزگاری ، اور مہنگائی کا الاپ ہر جگہ سنائی دے گا۔ گزشتہ روز ازراہِ مذاق اپنی بے روزگاری کا تذکرہ کیا تو میری نو سالہ کزن ایمان کہنے لگی آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں، ٹی وی میں بتا رہے تھے کہ بے روزگاری اور مہنگائی کی شرح بڑھ گئی ہے۔ یہ شرح کیا ہوتا ہے؟ اب اس نادان کو کیا سمجھاؤں کہ شرح کسے کہتے ہیں؟ دلچسپ امر تو یہ ہے کہ ہماری اکثریت ہی معیشت سے نابلد ہے۔پھر کرکٹ اور سیاست کے بعد معیشت ایک ایسا موضوع ہے جس پر اظہارِ خیال کرنا ہر پاکستانی اپنا فرض سمجھتا ہے۔ چلیں ملکی معیشت کی چند موٹی موٹی باتوں پہ روشنی ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں، ممکن ہے ایمان کی بدولت کسی اور کے ذہن کی کچھ گتھیاں سلجھ جائیں۔ سٹیٹ کا مالی سال یکم جولائی سے شروع ہو کر تیس جون پر ختم ہوتا ہے، اسے "fiscal year” کہتے ہیں۔ ہر سال جون کے مہینے میں پارلیمنٹ میں بجٹ پیش کیا جاتا ہے، اس پہ بحث کر کے اسے یکم جولائی سے پہلے پاس کیا جاتا ہے، بجٹ ایک انتہائی اہم قانون سازی ہے، یہ پاس نہ ہونے کی صورت میں اسے حکومت کے خلاف عدم اعتماد سمجھا جاتا ہے۔ خیر بجٹ سے پہلے ہر سال "اکنامک سروے” پیش کیا جاتا ہے۔ اس میں پچھلے سال کی پرفارمنس کی تفصیل بتائی جاتی ہے، فلاں فلاں ٹارگٹ تھے اس میں سے فلاں کامیابی سے پورے کر لیے گئے۔ ویسے تو ملکی معیشت پہ اگر ایک قسط میں لکھنے کی جسارت کی جائے تو موضوع سے انصاف نہ ہو پائے گا، پاکستان کے معاشی مسائل اور ان کا حل ایک ایسا تفصیلی مضمون ہے کہ اس پہ گھنٹوں لکھا جا سکتا ہے، فی الوقت اس موضوع کو قلمبند کرنے کا مقصد ان شر پسند عناصر کی سازشوں کو بے نقاب کرنا ہے جو معصوم عوام کو یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جیسے معیشت بحران کا شکار ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ضرورت سے زیادہ عقلمند اور پھنے خان نے گزشتہ دور میں معیشت کو اس تباہی کے دہانے پہ لا کھڑا کیا کہ خزانہ در حقیقت خالی ہو گیا، بھیا بھینسیں پالنے کی ترغیبیں دینا، آئی ایم ایف کو للکارنا اور اخراجات کم کرنے کا ناٹک کرنا بہت آسان ہے، معیشت چلانا بہت مشکل، آئیے ہم گزشتہ برس کی پرفارمنس پر نظر ڈال کر دیکھتے ہیں کہ معیشت میں کہاں کتنی بہتری آئی ہے اور مزید کہاں کتنی بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ مالی سال 2023 سے 2024 تک جی ڈی پی میں 0.2 فیصد سے 2.4 فیصد تک کا اضافہ خوش آئند ہے، مہنگائی 38 فیصد کی بلند ترین سطح سے کم ہو کر 12 فیصد تک آ گئی ہے، قرض لینے کی لاگت میں 2.5 فیصد کی کمی کی بدولت کاروبار بڑھانے کے مواقع میں بہتری آئی ہے، فروری 2023 سے مارچ 2024 تک حکومت نے "پرائم منسٹر یوتھ بزنس اینڈ ایگر یکلچر لون سکیم” کے تحت کاروبار کے لیے 140,702 افراد کو 83.683 ارب روپے تقسیم کیے، "پاکستان پاورٹی ایلیویشن فنڈ” نے 1.38 ارب روپے کے 28,913 بلاسود قرضے جاری کیے۔ اور تو اور امسال اسٹاک ایکسچینج انڈکس میں 80 فیصد تک کا اضافہ ہوا، زراعت کے شعبے میں 6.3 فیصد تک کا اضافہ ہوا، معیشت پر مثبت اثرات کی فہرست طویل ہے لیکن معصوم عوام کو ایک مخصوص منفی ذہنیت کا طبقہ فقط منفی پہلو ہی دکھانے میں مگن ہے۔اور یہ ایک منظم تحریک کے تحت کیا جا رہا ہے تا کہ عوام کو اکسایا جا سکے۔ ہر سال بجٹ آنے پر عوام الناس کا ایک جتھا سوشل میڈیا پر دفاع کے بجٹ کو تنقید کا نشانہ بناتا ہے، یہ جانتے ہوئے کہ ہمارا ملک "Prisoner of geography” ہے اور ہم ہر طرف سے دشمنوں میں گھرے ہیں، اگر ہم اپنا دفاع مضبوط نہیں کریں گے تو ہمارا حال بھی شاید فلسطین جیسا ہو گا۔ رہی بات ہمارے معاشی مسائل کی تو اس میں ہمارا "budget deficit” آ جاتا ہے اور ہمیں من حیث القوم شاہ خرچیوں کی عادت ہے، پھر ہم میں سے ہر ایک ٹیکس چوری کرتا ہے، ہماری آدھی سے زیادہ معیشت غیردستاویزی ہے، گویا سرمایہ دار جو کما رہے ہیں وہ سرے سے ٹیکس نیٹ کا حصہ ہی نہیں ہے۔ ہمارے ملک میں جب بنک میں رکھا پین، کولر پہ رکھا گلاس اور مسجد کے باہر پڑا جوتا ہماری ‘‘ایمانداری’’ سے محفوظ نہیں تو ہم حکومت اور اداروں کو کس منہ سے برا بھلا کہہ سکتے ہیں؟ پھل فروش موقع ملتے ہی گلے سڑے پھل بیچ دیتا ہے، سرکاری ملازم نیلی بتی والی گاڑی کو والدِ محترم کی وراثت سمجھ کر دندناتا پھرتا ہے، اور تو اور سرکاری کارڈ کا تیل دوست احباب میں بانٹتا پھرتا ہے، ہمارے فیکٹری مالکان بجلی چوری کا کْنڈا لگا کر ‘‘ھذا من فضلِ ربی’’ کی تختی سجاتے ہیں، لیکن نہیں غلطی ساری حکومت اور اداروں کی ہے، ارے میاں تمہاری چوری کی گئی بجلی سے پورے ملک کے لیے ایک "circular debt” پیدا ہو گا۔ ہم ایکسپورٹ تو آم اور کینو کر رہے ہیں اور امپورٹ ہمیں جہاز کرنے پڑتے ہیں، سوال میرا پورے پاکستان کے ان تمام تعلیمی اداروں سے ہے جو ہر سال تھوک کے حساب سے انجینئر ز بنا بنا کر بھیج رہے ہیں کہ انہیں فقط ڈگری ہی دی ہے کوئی قابلیت سکھانے سے کیا نقصان ہو جاتا؟ آخر کیوں ہمارے یہ لائق انجینئرز "value added exports” کرنے میں ایک نقطے جتنا کردار بھی ادا کرنے سے قاصر ہیں؟ پھر ہم کوکنگ آئل امپورٹ کرتے ہیں کیوں کہ ہمارے کسان کو گندم ہی بیجنی ہے، کنولا لگانے کا اگر کوئی گیان دے گا تو ہم اسے جھڑک دیں گے، کہ جی ہم نسلوں سے کھیتی کر رہے ہیں تم میاں کل کے لونڈے اب ہمیں سکھاؤ گے کہ کاشت کیسے کرنی ہے؟ لیں جناب نہیں سکھاتے۔ آپ اگائیے گندم، پھر بیٹھے رہیے بوریوں کا پہاڑ لگا کر، "why nations fail” کا لکھاری کہتا ہے معاشی اداروں کی نیچر سیاسی اداروں کی نیچر پر منحصر ہے، ادھر ہمارے سیاست دانوں کو ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے سے فرصت ملے گی تو ملک کوئی ترقی کر پائے گا۔ آخر میں قارئین سے ایک دست بستہ گزارش ہے کہ اپنے سٹارٹ اپس پہ توجہ کریں، آپ ایک خاتونِ خانہ ہیں؟ کھانا اچھا بناتی ہیں؟ آپ ہوم شیف بن جائیں، آپ کے پاس چار پیسے جمع ہو گئے ہیں؟ تو انہیں سیونگ اکاؤنٹ میں رکھ کر چند ہزار کا منافع بنانے کی بجائے آن لائن ٹریڈنگ سیکھیں، ایمازون سیکھیں ، جب تک ہم ‘‘ابھی گیم ڈاؤن لوڈ کریں اور گھر بیٹھے ڈالر کمائیں’’ جیسی خرافات میں الجھے رہیں گے، ہمیں کوئی حق حاصل نہیں ہے معیشت پر بیان بازی کرنے کا، اور اس صورت میں تو بالکل نہیں ہے جب ہمارا علم یوٹیوب کے سنسنی خیز تھمب نیلز کے مرہونِ منت ہو!۔
تبصرے بند ہیں.