دبے پائوں ایک غیرمحسوس انقلاب کی لہریں دنیا میں اٹھ رہی ہیں۔ تصورات، مفروضے، فلسفے بہت کچھ بدل گیا۔ ہولو کاسٹ جس کا تقدس کل تک ناموسِ انبیاء سے بڑھ کر تھا، آج مذاق بن کر رہ گیا۔ ایک امریکی ٹیچر کا یہ دکھ اور خوف ہے کہ وہ یہود مخالف جذبات سے نمٹ نہیں پارہی، کیونکہ اس سال ہولوکاسٹ پڑھانا ایک ڈرائونا خواب بن گیا ہے۔ میری آدھی آٹھویں جماعت کا خیال ہے کہ یہ سب مضحکہ خیز ہے۔ وہ باتیں سن رہی ہوں جو اس عمر کے بچوں سے متوقع نہیں ہوتیں! (بچے ’’غزہ‘‘ عہد کے چالاک ہوگئے!) ہم (ہولو کاسٹ فلم کا) ایک منظر دیکھ رہے تھے۔ ایک سیاہ فام امریکی طالب علم اونچی آواز میں اچانک بول اٹھا: اوبھائی! ہٹلر تو زبردست تھا! پوری کلاس کے لیے یہ تبصرہ مزیدار، مضحکہ خیز تھا۔ ایک اور نے کہا کہ اصلاً یہ یہودی پروپیگنڈا ہے کیونکہ اس کا ڈائریکٹرسٹیون، یہودی تھا۔ ایک اور نے بھی تائید کی۔ میں نے فلم روک دی تاکہ بنیادی انسانی تہذیب پڑھا سکوں! (غزہ میں برتے جانے والی؟) طلبہ نے اس کی بھی مزاحمت کی، حتیٰ کہ بحث شروع کردی کہ ہولوکاسٹ ہوا بھی تھا یا نہیں۔ مجھے تو چپ لگ گئی! میں تو ڈر گئی ہوں! (اہل غزہ سے زیادہ؟ کم عمر بچوں کی حق گوئی کی گولا باری سے ہی؟) انسانی تہذیب تو امریکا یورپ کے دمکتے اسکولوں میں پڑھائی جارہی ہے مگرہر دن جگرپاش ہے۔ دیر البلاح کا صرف ایک گورکن جس نے 2008ء تا 2021ء پانچ جنگوں میں چھ، سات سو دفن کیے تھے، کہتا ہے کہ تنہا میں نے اب 19 ہزار شہداء دفن کیے ہیں۔ طباطبی خاندان کے افراد میں 47 عورتیں تھیں۔ ان میں سے 16 حاملہ تھیں۔ ان خواتین کا جرم کیا تھا؟ میں سو نہیں سکتا، ٹکڑے ٹکڑے ہوئے عورتیں بچے دفنانے کے بعد! یہ ایک امریکی ہائی وے ہے۔ اس پر دو بینر لگے ہیں اور میں ان سے کلیتاً متفق ہوں! یہ لکھنے والا کہتا ہے: ایک پر لکھا ہے: امریکا میں یہودیوں کی اجارہ داری ختم کرو۔ دوسرے پر: اگر تمہیں پتا ہو کہ یہ یہودی ہیں (پیدل یا گاڑی میں!) ان پر ہارن بجادو۔ (وہاں ماسوا ناگزیر ہارن بجانا گالی دینے کے مترادف ہے!) جس تہذیب کو دن دہاڑے کھلے کیمروں کے ساتھ برتا جارہا ہے اس کی مسلسل مثالیں (جو اصل کا عُشر عشیر بھی نہیں) ضمیروں کی زندگی کے لیے لکھتی رہتی ہوں۔ غزہ کے ہسپتال سے کینیڈا کے ڈاکٹر کی چشم دید گواہی ہے: اسرائیلی فوج ہسپتال پر چڑھ دوڑی۔ گھستے ہی حکم دیا یہاں سے نکل جائو۔ میرا وہاں ایک مریض تھا جو خود ڈاکٹر تھا۔ اس نے کہا میں اپنے مریض چھوڑ کر نہیں جاسکتا۔ اسے مکمل برہنہ ہونے کا حکم دیا۔ بندوق کی نوک پر دو دن مسلسل کھڑا رکھا۔ وہیں فرش پر کھڑے حاجاتِ ضروریہ پوری کرنے کو کہا، بالآخر اجازت دی کہ مریض دیکھ لو مگر برہنہ حالت میں اور خوب ہنستے رہے کیونکہ یہ مریض بچے تھے۔ لگاتار یوں کھڑے رہنے سے (شوگر کا مریض تھا اسے انسولین کی اجازت بھی نہ دی) اس کے پیروں پر السر بن گئے۔ کینیڈا کا ڈاکٹر سراپا احتجاج ہے۔ ’’میں جرائم کا عینی شاہد ہوں، عالمی عدالت انصاف کے احکام پر فوری عمل ہو۔ جسٹن ٹروڈو! تم اپنی خاموشی سے اس میں پوری طرح شریک کار ہو۔‘‘ وحشیانہ ترین اذیتوں کی لامتناہی داستانیں ہر طرف ہیں۔ خصوصاً فلسطینی قیدیوں کے ساتھ۔ انسانی تاریخ کے جرائم کی انتہا، نئی نویلی صدی کے 25 سالوں کے اندر مہذب ترین دنیا کے ہاتھوں دیکھ لی۔ ’التابعین‘ میں (جہاں 100 نمازیوں کو شہید کیا گیا) ایک سوکھا ہڈیوں کا پنجر بوڑھا، جس نے یہ مناظر دیکھے، صدمے میں چلا گیا۔ بولنے سے قاصر ہوگیا۔ 6 دن بعد اسی طرح حیرت سے کھلا منہ لیے پھٹی پھٹی آنکھوں سے دنیا اور عالم اسلام کو پتھرایا ہوا دیکھتے اس کی روح پرواز کرگئی۔ آسمانوں پر لگنے والی عدالت میں مقدمہ درج کروانے!خود اسرائیل کو منشیات اور شراب کے نشیئوں کی بڑھتی تعداد، بند ہوتے کاروبار اور ڈوبتی معیشت کا سامنا ہے مگر امریکا پیٹھ ٹھونک رہا ہے۔ پہلے 3.4 ارب ڈالر کا امریکی اسلحہ اور پھر مزید 20 ارب ڈالر کا سہارا دیا ہے اس بھیانک عفریت کو۔ غزہ سے زندگی کی ہر رمق چھیننے کو امریکا کی سرپرستی میں سبھی مغربی ممالک پیش پیش ہیں۔ ’التابعین‘ ہلاکتوں پر چلّو بھر تشویش کا مظاہرہ بھی کردیا۔ حقائق دنیا میں کھل چکے۔ استعماری قوتوں کے نقاب اُتر چکے۔ لاکھ بیٹھے کوئی چھپ چھپ کے کمیں گاہوں میں، خون خود دیتا ہے جلادوں کے مسکن کا سراغ ۔۔۔۔۔ (خون) ۔۔۔۔۔ شعلۂ تند ہے خرمن پہ لپک سکتا ہے، تم نے جس خون کو مقتل میں دبانا چاہا، آج وہ کوچہ و بازار میں آنکلا ہے، کہیں شعلہ کہیں نعرہ کہیں پتھر بن کر!
بنگلادیش اس کی تازہ مثال ہے۔ استعماری نظام کے ہاتھوں تیسری دنیا/ مسلم ممالک پر مسلط کردہ بدعنوان ترین، ظالم و جابر لٹیرے جنہیں بیرونی آقا کٹھ پتلیوں کی طرح بدل بدل کر عوام کی زندگی اجیرن کیے رہے۔ نوجوانوں کو اولمپکس، کھیلوں، منشیات، عشق عاشقی کے وافر مواقع، شوبز میں ناکارہ کرنے کو کھلا چھوڑا۔ یکایک بنگلادیش کے طلبہ نے ایک تاریخ ساز برق رفتار تحریک کے ذریعے چشم زدن میں فرسودہ، گلا سڑا نظام اُلٹ کر رکھ دیا۔ گزشتہ 30 سال کی کرپشن، اسلام دشمنی، بھارت نوازی دور کی ۔۔۔۔۔ جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹا دو۔ پہلے آزادی کا لاالہ کہہ کر دنیا صاف کرو … پوری دنیا اسی صفائی پر جتی ہوئی ہے۔ یورپ تا امریکا۔ برطانوی سفارت کار مارک شاندار کیرئر چھوڑ چکا ہے۔ برطانیہ کی اسرائیل کو اسلحہ ترسیل پر جنگی جرم کا شریک قرار دیتا ہے۔ اس میں اپنی قوت اور قلم کے استعمال سے اہلِ غزہ کے لہو میں حصہ دار بننا اسے گوارا نہیں۔ اظہار برأت کرتے ہوئے جذبات کی شدتِ اظہار کے ساتھ آخری خط میں اپنے ساتھیوں کا ضمیر جگانے کے لیے دے کر مستعفی ہوجاتا ہے۔اِس سے اگلا مرحلہ باذن اللہ نئی تعمیر کا ہے ،فرد اور معاشرے کا الااللہ کی بنیاد پر۔
مسلم معاشرے بھی سیکولرازم کے ہیضے میں مبتلا ہیں۔ بنگلادیش میں انقلاب کا کمال یہ ہے کہ وہ کسی مسلح جتھے کا خوف و دہشت کی بنیاد پر خونیں انقلاب نہیں ہے۔ تقریباً پُرامن انقلاب ہے‘ حسینہ واجد کی پولیس کی گولیوں کی بوچھاڑ اپنے جواں مرد سینوں پر لے کر۔ پورے ملک سے احترام اور تائید وصول کرکے مستحکم بنیاد اُستوار کی ہے۔ یقین محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم! اب ان کے ہاں میوزیکل فیسٹول سے نعرے زیادہ دل ربا ہیں، ولولے اور عزائم سینوں میں بیدار کرتے۔ بندوقیں نہیں لہرائیں،جبری گمشدگیاں اغواکاریاں نہیں کیں، بنگلادیش کے خزانے لوٹنے والوں کے ہاں چھاپے مارکر برآمدگی اور دین دشمن، حسینہ حکومت کے جرائم میں شراکت کاروں سے استعفا لیا ہے۔ ڈھاکا یونیورسٹی کے آرٹس فیکلٹی کے ڈین نے رمضان میں تلاوت ِقرآن کا اہتمام کرنے اور اس میں شرکت پر شعبہ عربی کے چیئرمین کو نوٹس اور شریک طلبہ کو سزا دی تھی۔ اس ڈین سے استعفا لیا۔ یونیورسٹی میں تلاوتِ قرآن اور ملک بھر میں امن و امان، استحکام، آزادی و سلامتی کے لیے دعا کا اہتمام کیا گیا۔ (ڈھاکا ٹریبیون۔ 19 اگست) اُدھر سے ڈاکٹر یونس نے سفیروں اور یو این نمایندوں کے سامنے حکومت کی ترجیحات بیان کیں۔ حکومت 10 لاکھ سے زائد روہنگیا پناہ گزینوں کی اپنے ملک میں باعزت، باحفاظت مکمل حقوق کے ساتھ واپسی تک مدد جاری رکھے گی۔ (مہاجرین حسینہ دور میں رل گئے تھے۔ یہ اعلان نہایت خوش آیند اور اخوت کا آئینہ دار ہے۔) ساتھ ہی حسینہ کے خلاف مظاہروں کے دوران کپڑا سازی کی صنعت کا تعطل فوری دور کرکے ملکی معیشت کی اہم ترین صنعت کو فوری بحال کیا جائے گا۔ اس سے ملک کی 55 ارب ڈالر کی سالانہ برآمدات کا 85 فیصد نتھی ہے۔ افواہ سازی کی فیکٹریاں حکومت نے ’’افواہ ا سکینر‘‘ سے چیک کیں۔ اس میڈیا تنظیم نے ’’X‘‘ پر (بھارت میں رجسٹرڈ) 50 اکائونٹ پکڑے جو حالیہ واقعات کے بارے میں جعلی جھوٹی تصاویر، وڈیوز اور اشتعال انگیز خبریں پھیلا رہے تھے۔ یہ 5 سے 13 اگست تک 154 ملین مرتبہ دیکھے گئے، (Views)۔ دونوں ممالک میں ہندوئوں کو اکسانے کے لیے مسلم مظلوم کہانیاں ہندو شہری بنا کر پھیلائی گئیں، نوعیت کی جعل سازیاں ہوئیں۔تاہم بنگلا قوم مکمل یکجہتی کا اظہار کررہی ہے۔ اللہ تعالیٰ بنگلادیش کو اپنے خطے میں مستحکم مسلم حکمرانی عطا فرمائے، شرور سے محفوظ رکھے۔ آمین!
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.