تہہ در تہہ ٹیکس لگانا مسائل کا حل نہیں

25

ویسے تو جتنے بھی ماہرین معیشت میڈیا پر بیٹھ کر اپنی افلاطونی جھاڑ رہے ہوتے ہیں تقریباً سبھی ایک بات پر تو متفق ہیں کہ عوام پر ٹیکسوں کابے پناہ بوجھ لادنے کے بجائے ملک میں ٹیکس بیس کو وسیع کیا جائے اور ان افراد اور طبقوں کو بھی ٹیکس نیٹ میں لایا جائے جو اول تو ٹیکس دیتے ہی نہیں اور اگر دیتے بھی ہیں تو بہت ہی کم۔ ہماری حکومت کا بھی تگڑے لوگوں پر تو بس چلتا نہیں لہذا اس نے بھی تنخواہ دار طبقہ پر تابڑ توڑ ٹیکس عائد کرنے اور ان ڈائریکٹ ٹیکسیشن کے طریقہ کار کو اپناتے ہوئے ملکی معاملات کو چلاتے رہنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے کیونکہ اسے بھی بخوبی علم ہے کہ ان ڈائریکٹ ٹیکسیشن اور یوٹیلٹی بلز میں بھانت بھانت کے ٹیکس لگانے سے غریب آدمی کی ہی گردن سب سے پہلے دبوچی جاتی ہے اور چونکہ اس کی طرف سے کوئی خاص مزاحمت پیش نہیں کی جاتی اس لیے اسی عمل کو محفوظ ترین تصور کیا جانے لگا ہے۔ مذکورہ بالا دو باتوں کے بعد اب باری آ گئی ہے ٹیکسٹائل اور رئیل اسٹیٹ سیکٹر کی ۔ یہ دونوں شعبے ،ملکی معیشت کے لیے اہم ہیں، روزگار فراہم کرتے ہیں، جی ڈی پی میں حصہ ڈالتے ہیں، علاقائی ترقی کو فروغ دیتے ہیں اورزرمبالہ کمانے کا باعث بنتے ہیں ۔ ٹیکسٹائل سیکٹر کا تو بھاری اور غیرضروری ٹیکسوں کے نفاذ اور بین الاقوامی مارکیٹ کے مقابلے میں پیداواری لاگت بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے تقریباً بیڑہ غرق ہو ہی ہو گیا ہے۔ رہی بات رئیل سٹیٹ سیکٹر کی، جو ایک ایک ڈیل اور ٹرانسفر پر حکومت کو لاکھوں روپئے ٹیکس کی مد میں ادا کر رہا تھا، بے شمار اور بھاری ٹیکسوں کے نفاذ نے اس کا وجود بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔عین ممکن ہے کہ حکومت ان دونوں شعبوں کی تباہی کے اثرات فوری طور پر محسوس نہ کر رہی ہو لیکن یقینا بہت جلد یہ اثرات نہ صرف ٹیکس اکٹھا کرنے کے ٹارگٹس پر بلکہ مجموعی طور پر ملکی معیشت پر نمودار ہونا شروع ہو جائیں گے۔
اگر ٹیکسٹائل کی صنعت کی بات کریں تو جہاں اس کی بدولت لاکھوں لوگوں کو روزگار میسر آتا ہے وہیں اس کی بدولت ہمارے کسانوں کی روزی روٹی بھی لگی ہوئی ہے لیکن ضرورت سے زیادہ ٹیکس اور بے پناہ یوٹیلٹی بلز اس کی ترقی اور عالمی مسابقت کو بری طرح متاثر کر رہی ہے۔یہ واضع طور پر نظر آ رہا ہے کہ اگر یہی حال رہا تو یہ صنعت یہاں تو ختم ہو ہی جائے گی۔ عین ممکن ہے کہ اس سلسلہ کے سرمایہ کار اپنا کاروبا ر اٹھا کر کسی اور ملک میں منتقل کر لیں۔ اگر ایسی صورتحال بنتی ہے تو سرمایہ کار تو کسی نہ کسی طور اپنے معاملات کو محفوظ بنا ہی لے گا لیکن اس کے نتیجہ میں بڑی تعداد میں لوگوں کے بے روزگار ہو جانے سے جو اقتصادی ، سیاسی اور سماجی بحراں آئے گا شائد اس وقت حکومت اس کا اندازہ نہیں کر رہی۔کروڑوں روپئے کی تنخواہیں اور دیگر مراعات حاصل کرنے والے حکومت کے وزیر اور مشیر جانے کیوں اس کی توجہ اس جانب نہیں دلاتے کہ حکومت جس سونے کا انڈا دینے والی مرغی کو حلال کرنے پر تلی ہو ہے ایسا کرنے سے اس کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آئے گا۔
اسی طرح رئیل اسٹیٹ سیکٹر بھی معیشت کا ایک اور اہم جزو ہے، جو تعمیراتی سرگرمیوں، روزگار پیدا کرنے اور سرمایہ کاری کے ذریعے ترقی کو آگے بڑھانے میں بھرپور کردار ادا کرتاہے۔ تاہم اس میں کوئی شک نہی کہ حکومت اپنی ناقص پالسیوں کی وجہ سے اس شعبہ کو بھی برباد کرنے کے درپے ہے۔
رئیل اسٹیٹ کے شعبہ کو محفوظ اور منافع بخش خیال کرتے ہوئے ملکی اور غیر ملکی دونوں طرح کے سرمایہ کار اس کی جانب راغب تھے۔ تاہم جانے کس سمجھدار نے حکومت کو اس شعبہ پر اندھا دھند ٹیکس عائد کرنے کا مشورہ دے دیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ سرمایہ کار اس شعبہ سے لاتعلق ہو گئے ہیں اور اس وقت یہ عالم ہے کہ اس شعبہ کو عملی طور پر بریک لگ چکی ہے اور حکومت جو اس شعبہ سے قابل ذکر حد تک ٹیکس وصولی کر رہی تھی اب زیادہ محصولات کے لالچ میں اس رقم سے بھی محروم ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے جو اسے رئیل سٹیٹ سیکٹر سے وصول ہو رہی تھی ۔حد سے زیادہ ٹیکس شہری ترقی کے معاملات کو بھی بری طرح متاثر کر رہے ہیں۔ زیادہ لاگت سے ڈویلپرز کی بڑے پیمانے پر پروجیکٹ شروع کرنے کی حوصلہ شکنی ہو رہی ہے۔مذکورہ بالادونوں شعبے نمایاں آجر ہیں۔ ٹیکسٹائل کی صنعت کا پہیہ چلتے رہنے سے نہ صرف ملکی معیشت کو فائدہ ہو تا ہے بلکہ روزگار کے مواقعے پیدا کرنے اور غیر ملکی زرمبادلہ کمانے میں بھی بے پناہ مدد ملتی ہے۔ جبکہ رئیل اسٹیٹ سیکٹر تعمیرات، جائیدادوں کی خرید و فروخت کی خدمات، اور متعلقہ صنعتوں میں روزگار پیدا کر رہا ہے اس کے علاوہ یہ شعبہ بھی ٖزر مبادلہ کمانے کا اچھا خاصہ ذریعہ ہے۔
حکومت کو یہ بات سوچنی چاہیے کہ ضرورت سے زیادہ ٹیکس لگانے سے ملازمتوں میں کمی، بے روزگاری کی شرح میں اضافہ اور عام آدمی کی آمدنی میں کمی واقع ہو گی جو آگے چل کر غربت، بیماری اور جرائم میں اضافہ کا باعث بنے گی۔اگرچہ محصولات کا ٹاگٹ حاصل کرنے کے لیے حکومت کے پاس اس کے علاوہ کوئی آپشن نہیں کہ وہ عوام پر تہہ در تہہ ٹیکس (خاص طور پر ٹیکسٹائل اور رئیل اسٹیٹ سیکٹر پر) عائد کرے توایسا کرنے سے پہلے اسے یہ بھی سوچنا چاہیے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ محصولات کا حجم بڑھاتے بڑھاتے وہ اسے پہلے سے بھی کم کر ڈالیں۔پالیسی سازوں کو آمدنی بڑھانے اور ترقی کو فروغ دینے کے درمیان توازن قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ٹیکس پالیسیاں عوام اور صنعتوں کی مدد کے لیے بنائی جانی چاہئیں نا کہ ان پر بوجھ ڈالنے یا انہیں پریشان کرنے کے۔
بلکہ حکومت کو تو چاہیے کہ جو صنعتیں ایک خاص حد سے زیادہ لوگوں کو روزگار فراہم کر رہی ہیں، خاطر خواہ ٹیکس بھی ادا کررہی ہیں اور ملک میں زرمبادلہ لانے کا باعث بھی بن رہی ہیں ان کی حوصلہ افزائی اور سرپرستی کرے،بلکہ میری تو تجویز ہو گی کہ جو شعبہ بھی سو سے زائد افراد کو روزگار مہیا کرے اسے ٹیکس میں خصوصی رعایت دی جائے اور انوسٹ کی گئی رقم کے ذرائع کے بارے میں معلومات کی فراہمی میں بھی نرم رویہ اختیار کیا جائے۔ حکومت کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ لوگوں کی جیبوں سے زبردستی پیسے نکلوانا ڈاکووں کا کام ہوتا ہے حکومتوں کا نہیں۔ہمارے ہاں اب بات عوام کی برداشت سے باہر نکل چکی ہے حکومت کو چاہیے کہ ہوش کے ناخن لے اور عوام پر ٹیکسوں اور مہنگائی کا اتنا ہی بوجھ ڈالے جتنا وہ برداشت کر سکیں ورنہ اگر عوامی ردعمل کا ریلا آیا تو وہ ان اللے تللوں، پروٹوکول اور شاہانہ زندگی سمیت سب کچھ بہا کر لے جائے گا۔

تبصرے بند ہیں.