پاورپالیٹکس میں جو لوگ سسٹم کے اندرہوتے ہیںوہ اس سسٹم او ر ’’اسٹیٹس کو‘‘ کو برقراررکھنے کے لیے ہرممکن کوشش میں رہتے ہیں اور جولوگ اس سسٹم سے باہر ہوتے ہیںوہ اس سسٹم کو توڑنے میں لگ جاتے ہیں۔سسٹم سے باہر موجود لوگ جو سسٹم کوتلپٹ کرنے کے خواہشمند ہوتے ہیں ان کی یہ خواہش یا کوشش اس لیے نہیں ہوتی کہ وہ اس سسٹم کو بدلنا یا اس میں اصلاحات کرنا چاہ رہے ہوتے ہیں بلکہ ان کی ساری کوشش اس سسٹم کا حصہ بننے کے لیے ہوتی ہے۔وہ بھی اقتدار میں حصے داری کے خواہاں ہوتے ہیں ۔کچھ اسی طرح کی لڑائی اس وقت پاکستان تحریک انصاف کے اندرجاری ہے۔اسلام آباد میں بائیس اگست کا جلسہ ملتوی کرنا پی ٹی آئی کی اسی کشمکش کا حاصل وصول ہے۔
جلسہ منسوخی ہو یا دوسرے معاملات اس وقت بظاہر لگ رہا ہے کہ پی ٹی آئی بطور پارٹی ’’ڈیل ‘‘کرچکی ہے ۔عمران خان اسم مبینہ ’’ڈیل‘‘کا حصہ ہیں یا نہیں اس پران کو شک کا فائدہ دے کر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ’’ڈٹ کے کھڑاہے اب کپتان‘‘ ۔میں بھی قائل ہونا چاہتا ہوں کہ عمران خان صاحب اس مبینہ ’’ڈیل ‘‘کا حصہ نہیں ہیں لیکن جلسہ منسوخی کے لیے جو کچھ ہوا اور جس طرح ہوا وہ سوالات مجھے اس پلڑے میں دھکیل دیتے ہیں جس پلڑے میں یہ مبینہ’’ ڈیل‘‘ پڑی ہوئی ہے۔اگر عمران خان صاحب اس بندوبست کا حصہ نہ ہوتے تو جب پی ٹی آئی کے باہر موجود اور سسٹم سے جڑے رہنما ہرقیمت پر جلسہ کرنے کے نعرے مار کر اپنے کارکنوں کے جذبات کو انگیخت کررہے تھے ۔ جلسہ کرکے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو الٹے قدموں پرڈالنے کے منصوبے بنائے جارہے تھے اور پی ٹی آئی کے عام کارکن کو یہ منزل بس دوقدم پر دکھائی بھی دینے لگی تھی ۔خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ سرکاری اخراجات پر پوری مشینری کو متحرک کرکے ساتھ لارہے تھے۔وہ وزیراعلیٰ جس کے پاس مہنگے بجلی بلوں میں کچھ ریلیف دینے کے لیے بھی پیسے نہیں ہیں وہ اس جلسے کے لیے پانچ پانچ ہزار کی گڈیاں ساتھ لیے پھررہے تھے ۔جب سب کچھ طے ہوگیا تھا اور فتح عمران خان کے قدموں میں بچھی بیٹھی تھی تو اچانک کپتان کو کیسا الہام ہوا کہ جلسہ ملتوی کرنا چاہئے؟
اعظم سواتی کا طلب کیا جانا بھی سمجھ میں آتا ہے ۔جیل سے رات کے پچھلے پہر اعظم سواتی کوطلبی کا پیغام دیاجانا بھی سمجھ میں آتا ہے ۔اعظم سواتی کا علی الصبح اڈیالہ میں جانا اور پھر واپسی پر ڈٹے ہوئے کپتان کا لیٹ جانے والا پیغام لانا بھی سمجھ میں آتا ہے۔لیکن یہ سمجھ نہیں آتا کہ عمران خان صاحب تو اس سسٹم کو ٹکر دینے کے لیے تلے بیٹھے ہیں۔ وہ بقول پی ٹی آئی ٹائیگرز’’مان ہی نہیں رہے‘‘ وہ ڈٹ کرکھڑے ہیں اور اس سسٹم کو پاش پاش کرنے کے مشن پر ہیں۔تو ایک ایسے وقت میں جب یہ سسٹم پاش پاش کرنے کے لیے اس کے کارکن این او سی کو جوتے کی نوک پر رکھے اسلام آباد کی طرف بڑھ رہے تھے تو ایسے میں وہ یہ انقلاب روکنے پر کیوں تیار ہوگئے۔اگر ان کو جیل میں کسی نے انتشار سے ڈراکر یہ فیصلہ لیا ہے یا کوئی مصلحت بتائی ہے پھر بھی خان صاحب کے ایسی مصلحتوں کے قائل ہونے کی وجہ میری سمجھ سے باہر ہے۔ان کا علی امین گنڈاپورکے ذریعے اعظم سواتی کو اپنے پاس بلانا اورپھر جلسہ ملتوی کرنے کا حکم دینا یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ بھی اس مبینہ ڈیل میں شامل ہیں۔ہاں جب تک کوئی اعلان نہیںہوتا یا ان کو جیل سے رہائی نہیں مل جاتی تو ہم سب یہ نغمہ کورس میں گاسکتے ہیں کہ’’ڈٹ کے کھڑا ہے اب عمران‘‘۔
ڈیل ہوچکی ہے یا پھر ہونے کی طرف گامزن ہے کیونکہ پی ٹی آئی کے وہ لوگ جو سسٹم کا حصہ ہیں اور خیبرپختونخوا میں حکومت کررہے ہیں یا قومی اسمبلی اور سینیٹ میں موجود ہیں وہ کسی صورت نہیں چاہتے کہ سسٹم سے باہر نکلیں یا اس سسٹم کے خلاف ایسی جدوجہد کریں جس سے ان کے مفادات پرکوئی آنچ آئے ۔ یہ تمام لو گ عمران خان کو بھی قائل کررہے ہیں اور جنرل فیض کی گرفتاری کے بعد عمران خان بھی قائل ہونا شروع ہوگئے ہیں۔بات معافی کی طرف جاکر ہی ختم ہونی ہے ۔عمران خان کی طرف سے جلسہ ملتو ی کرنے کو اس پارٹی میں موجود ’’ہاکس ‘‘ کا غصہ ،ان کی بہن علیمہ خان کا دکھ اور شکوہ بالکل سمجھ میں آتا کہ کارکنوں کو یہی خواب دکھایا گیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو شکست دینی ہے اور یہ کام کوئی بہت زیادہ دوربھی نہیں ہے لیکن میں نے ایک اینکرپرسن کی پوسٹ دیکھی جو شاید علیمہ خان صاحبہ سے بھی زیادہ دکھی اور جلدی میں ہیں۔ یہ پوسٹ عامر متین کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’اگر جابر سلطان سے اجازت لے کرمزاحمت کرنی ہے توپھر صلح کرلینی چاہئے۔فیصلہ کرلیں مصلحت کرنی ہے یاجدوجہد۔کنفیوژلوگ کچھ نہیں کرسکتے۔‘‘
پراجیکٹ عمران خان کایہ حسن بھی ہے کہ ان کو عظیم لیڈر ثابت کرنے کے لیے کئی اینکرزکو ٹاسک دیا گیا۔یہ لوگ دن رات اپنے ٹی وی شوز کے ذریعے عمران خان کو نجات دہندہ ثابت کرتے رہے۔لوگوں کو امیددلاتے رہے کہ خان آئے گا تو ملک جنت بن جائے گا۔عمران خان ولی ہیں ان کے علاوہ سب بے ایمان،چور ڈاکو اور لٹیرے ہیں ۔پھر جب عمران خان اقتدارمیں آئے تو یہ لوگ ابتدامیں خوش ہوئے ۔اس فتح کے ہر جشن میں شریک ہوتے رہے لیکن جب عمران خان صاحب حکومت کرنے میں ناکام ہونے لگے تو یہ لوگ خاموش ہوگئے۔اب جب پی ٹی آئی کو مزاحمت کے راستے پرڈالا گیا ہے تو ایسے لوگوں کی امیدیں ایک بار پھر زندہ ہوگئی ہیں ۔اب یہ لوگ چاہتے ہیں کہ مار دھاڑ ہو۔اس ملک میں سیاسی استحکام نہ آنے پائے ۔یہ حکومت کامیاب نہ ہونے پائے۔یہ لوگ مفاہمانہ پالیسی کے سخت مخالف ہیں۔جب گزشتہ جلسہ ملتوی کیا گیا تھا تو اسی طرح کی پوسٹ سمیع ابراہیم نے لگائی تھی ۔وہ بھی عامر متین قبیلے کے رکن ہیں۔
یہ لوگ میری کمیونٹی کے لوگ ہیں یہ لوگ خود ٹھنڈے ٹھار ٹی وی اسٹوڈیوز میں بیٹھ کرلوگوں کو اکساتے ہیں۔ ہر چیز میں شک کی ملاوٹ کرکے معاشرے میں ہیجان پیدا کرتے ہیں۔کوئی بھی مفاہمت کی بات کرتا ہے یا معاملات کو مل بیٹھ کر بات چیت سے حل کرنے کی طرف جاتا ہے تو ایسے لوگ اس کی بھد اڑاتے ہیں۔ایک عام سیاسی کارکن کی فرسٹریشن سمجھ آتی ہے کہ وہ پی ٹی آئی کا رکن ہے وہ اس حکومت کے خلاف ہے ۔وہ جدوجہد کررہا ہے ۔اس نے مشکلات دیکھی ہیں سختیاں برداشت کی ہیں وہ اس طرح جلسہ منسوخ کرنے پرسیخ پا ہوتو سمجھ آتی ہے لیکن یہ ہماری کمیونٹی کے لوگوں کا کیا مفاد ہے کہ یہ عمران خان کو مرنے مارنے پراکساتے ہیں؟۔
Next Post
تبصرے بند ہیں.