22اگست جمعرات کی شب پنجاب میں رحیم یار خان کے کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کے ایک گروہ نے اس وقت پولیس پر حملہ کر دیا جب ان کی ڈیوٹیاں تبدیل کرنے والی بس کیچڑ میں خراب ہوئی پڑی تھی۔موبائل وین کی حالت زار بتا رہی ہے ،کتنا فنڈ پولیس پر خرچ ہو رہا ہے ،وغیرہ وغیرہ، ڈاکوؤں نے راکٹوں سے پولیس پر حملہ کیا ،حملے کے نتیجے میں اب تک 12 پولیس اہلکاروں کی شہادت کی تصدیق کی گئی ہے۔کچہ کے خطرناک ڈاکوؤں کا پولیس پر یہ حملہ گزشتہ برس اپریل میں شروع کیے جانے والے ’گرینڈ آپریشن‘ کے بعد ہوا ہے۔ڈاکوؤں کے اس حملے نے پورے سسٹم کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور اس حملے کو اب تک کا ڈاکوؤں کی طرف سے سب سے بڑا حملہ قرار دیا جا رہا ہے۔
اس وقت آئی جی پنجاب سمیت تمام اعلیٰ افسران رحیم یار خان میں موجود ہیں اور دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ حملہ آور ڈاکوؤں کے مرکزی حملہ آروں میں سے ایک ڈاکو بشیر شر کو ہلاک کر دیا گیا ہے جبکہ اب تک حملہ آور گینگ کے مزید ڈاکووں کو مارے جانے کا پلان پر عملدر آمد بھی جاری ہے۔
بوڑھے چچا حوالدار سے موصول ہونے والے آئی جی پنجاب آفس سے دستیاب اعداد و شمار کے مطابق یہ آپریشن ساٹھ ہزار ایکڑ کے کچے کے علاقے میں کیا گیا جس میں اب تک 65 ڈاکوؤں کی ہلاکت ہو چکی ہے، 26 ڈاکوؤں نے خود کو سرنڈر کیا اور 60 سے زائد گرفتار ہوئے۔آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے جمعے کی صبح 23 اگست 2024ء کو رحیم یار خان میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم اپنے شہید پولیس اہلکاروں کی شہادت کا بدلہ لیں گے رات سے ہی ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن میں تیزی کی گئی ہے اس میں سندھ پولیس بھی ہمیں معاونت دے رہی ہے۔ڈاکوؤں نے حملہ تب کیا جب پولیس بس خرابی کے باعث پھنس گئی تھی،جب ان سے سوال کیا گیا کہ گزشتہ ایک سال سے جاری گرینڈ آپریشن جس کو کامیاب آپریشن کہا جا رہا تھا کے بعد یہ واقع کیوں ہوا ہے؟ آئی جی پنجاب کا کہنا تھا کہ یہ محض ڈاکوؤں کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس علاقے کے سماجی اور اقتصادی مسائل سے بھی یہ بات جڑی ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا حکومت اس مسئلے کو دیکھ رہی ہے اور ان علاقوں میں بڑے پیمانے پر ترقیاتی کام شروع کیے گئے ہیں جس سے فرق پڑے گا۔ہمارا آپریشن بہت کامیاب رہا ہے۔ جو ابھی بھی جاری ہے۔ ہمارے جوانوں کے پاس جدید ترین اسلحہ ہے اور وہ بھرپور طریقے سے مقابلہ کر رہے ہیں۔
گزشتہ کچھ مہینوں میں کچے کے ڈاکو ہنی ٹریپ اور اغوا برائے تاوان میں ملوث قرار دیئے گئے اور پنجاب پولیس نے اس حوالے سے ایک مہم بھی چلائی کہ جنوبی پنجاب خاص طور پر رحیم یار خان کے علاقوں کے لوگ موبائل فون پر اجنبی خواتین کے جھانسے میں نہ آئیں۔پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ ایک سال میں آپریشن کے دوران ایک پولیس اہلکار کی موت جبکہ کل سات زخمی ہوئے، چالیس نئی چوکیاں قائم کی گئیں جبکہ چودہ بیس کیمپ بنائے گئے ہیں۔
گزشتہ روز انہی چودہ میں سے ایک بیس کیمپ کو ڈاکوؤں نے راکٹوں سے حملے کا نشانہ بنایا۔واضح رہے اپریل 2023ء میں کچے کے ڈاکوؤں کے خلاف گرینڈ آپریشن کیا گیا تھا،آر پی او بہاولپور رائے بابرنے بتایا کہ ’یہ ایک انتہائی غیر متوقع حملہ تھا۔ پچھلے ایک سال میں جتنا بڑا آپریشن کیا گیا ہے اس سے ڈاکوؤں کے کئی گروہ تو مکمل طور پر ختم ہو چکے ہیں اور جو باقی ہیں وہ کمزور ہو چکے ہیں۔ ایک ہی وقت میں دو ہزار سے زائد اہلکار فرنٹ پر ہوتے ہیں۔ یہ ایک غیر متوقع حملہ تھا جس کا جواب اب پوری طاقت سے دیا جا رہاہے،پولیس کیوں ناکام ہوئی،اس صورت حال کے بارے میں بات کرتے ہوئے بوڑھے چچا حوالدار کا کہنا ہے کہ سندھ، پنجاب اور بلوچستان باڈر پر ٹرائی اینگل کی طرح کچے کا علاقہ 7 چھوٹے بڑے جزائر پر مشتمل بل کھاتا ہوا دریاہے۔ ان میں کچہ کراچی، کچہ عمرانی، کچہ حیدر آباد، کچی بنو، کچی مورو، کچی جمال اور کچی کپرا کے علاقے ہیں۔ضلع رحیم یارخان کے دریائی علاقے کچہ کراچی کچہ حیدر آباد ہیں جبکہ دیگر پانچ کچے کے علاقے ضلع راجن پور میں ہیں۔
بوڑھے چچا حوالدار ’میرے نزدیک کچے کا 15 ہزار مربع کلومیٹر بہترین زرعی علاقہ جس کی سرحد تین صوبوں پنجاب، سندھ اور بلوچستان سے ملتی ہیں، میں امن امان کے قیام کے لیے علیحدہ سے پولیس سسٹم اور انفراسٹرکچر کی ضرورت ہے۔ دو اضلاع رحیم یار خان اور راجن پور کے ڈی پی او مسلسل کئی برس سے کچے میں آپریشنز میں مصروف ہیں، تمام وسائل کچے میں جھونکے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے رحیم یار خان اور راجن پور کے شہری اور دیہی علاقوں میں پولیسنگ کا نظام فعال نہ ہونے کی وجہ سے مسائل دن بہ دن بڑھ رہے ہیں۔یاد رہے کہ ضلع رحیم یار خان 11،880 مربع کلومیٹر پر مشتمل ہے اور اس ضلع کی آبادی لگ بھگ پچاس لاکھ ہے جس کے لیے 27 تھانے اور 13چوکیاں ہیں۔
بوڑھے چچا حوالدار نے انکشاف کیا کہ ایک ڈی پی او وسیع و عریض پنجاب کے 9ویں بڑے ضلع کو سنبھالے کہ اپنے سارے وسائل اور نفری کچہ آپریشن میں لگائے یہ ایک بڑا مسئلہ اور چیلنج ہے جسے پنجاب حکومت سمجھ نہیں رہی، موٹر وے ایم فائیو کی گزر گاہ کچے کے علاقوں سے ہے جس کی وجہ سے معاملات مزید حساس ہو گئے۔پولیس کا کچے کے ڈاکوؤں اور کریمینلز کے خلاف کریک ڈاؤن اور آپریشن کامیاب بنانے کے لئے کچے کے ڈاکوؤں سے مقابلہ کے لئے صوبہ پنجاب کے ہر ضلع سے ایلیٹ فورس کے جوان لئے جائیں۔ ان کو بھاری ہتھیار، بکتر بند گاڑیاں ، ڈرون اور ہیلی کاپٹر فراہم کریں،جن پولیس افسران نے کچے کے علاقہ میں ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کیا ہو وہ اس ایلیٹ فورس کو اس علاقہ کے جغرافیہ اور نقشہ کے بارے میں آگاہ کریں۔ صوبہ سندھ کی پولیس بھی اس ہی نوعیت کے اقدامات کرے۔ دونوں صوبوں کی پولیس ایک مشترکہ کنٹرول سینٹر قائم کرے۔ تھانہ جات کی پولیس اس آپریشن میں صرف لاجسٹکس فراہم کرنے کا کام کرے۔ اس حکمت عملی کا مثبت اور منطقی نتیجہ سامنے آئے گا۔ یہ نوٹ کر لیں کہ ایلیٹ پولیس کا کام وی آئی پی سکیورٹی نہیں ہے۔ پولیس کا ایک شعبہ SPU فورس موجود ہے اس کو صرف غیر ملکی شہریوں کی سیکورٹی تک محدود نہ کریں بلکہ اس سے مکمل وی آئی پی سیکورٹی کا کام لیں۔
کچہ کا علاقہ رحیم یار خان اور راجن پور میں پنجاب اور سندھ کا سرحدی علاقہ ہے اور یہ دریائے سندھ کی دونوں جانب گھنے جنگل سے گھرا ہوا ہے جبکہ ہزاروں ایکٹر پر محیط اس غیر آباد علاقے میں ریت اور پتھریلے ٹیلے ہیں دریائی علاقہ ہونے کے سبب روڈ نیٹ ورک بھی نہیں ہے۔
آپریشن میں حصہ لینے کے لئے باہر سے آنے والی پنجاب پولیس کے اہلکار کچے کے خفیہ راستوں سے انجان ہوتی ہے اور اس وجہ سے پولیس جوانوں کو جان گنوانی پڑتی ہے ،میری نظر میں کچہ کا آپریشن ایک صورت میں کامیاب ہو سکتا ہے وہ یہ ہے کہ مقامی لوگوں پر مشتمل رضا کاروں کی ٹیم بنائی جائے ،حکومت ان کو وسائل دے ،جس میں تنخواہیں ،جدید اسلحہ اور گاڑیوں شامل ہوں جو پولیس کے ساتھ بھرپور تعاون کرتے ہوئے امن و امان کی صورتحال کو یقینی بنانے میں کردار ادا کر سکیں۔
تبصرے بند ہیں.