بات سے بات

105

ایتھنز یونان دنیا کی پہلی جمہوریت میں لوگ باتیں بہت کرتے تھے، باتیں کرنے کی اس عادت اور معاشرت نے ان کے ہاں بالآخر جمہوری نظام حکومت کی بنیاد رکھ دی۔ دنیا کے قبل از مسیح لازوال و لاجواب فلاسفر وہیں پیدا ہوئے۔ سقراط، افلاطون، ارسطو تو مشہور ترین ہستیاں ہیں، وہاں ان کے علاوہ بھی بہت سے لوگ پیدا ہوئے اور یہ سب بات کرنے، بات سننے کے عمل کا نتیجہ تھا۔ بھلے اکثر لوگ وہاں مخاصمت کی وجہ نہ رہ پائے مگر وہ دھرتی اظہار رائے کیلئے مشہور تھی اور تنگ بھی۔ میرا اس حوالے سے آج صرف مطمع نظر تھا کہ بات سے بات اگر مثبت ہو تو اجتماعی ذہانت کو عقل کو جنم دیتی ہے اگر منفی ہو تو انتشار یا عدم تہذیب کا سبب بنتی ہے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں ہائی کورٹ کے جج ہر جگہ ہی جج ہوتے ہیں، یعنی کہیں بھی عدالت لگا سکتے ہیں یا پھر علاقہ مجسٹریٹ کہیں بھی کوئی بھی آرڈر جاری کر سکتا ہے (قانونی تقاضا ضروری ہے)۔

ملک عبدالقیوم انتہائی زیرک قانون دان اور جج کے اختیارات کو سمجھنے والے جج تھے۔ لاہور ایئرپورٹ پر گئے وہاں انہوں نے کوئی بدنظمی دیکھی تو وہیں پر عدالت لگا لی اور چند احکامات جاری کر دیئے تب لوگوں کو معلوم ہوا کہ جج ہر جگہ جج ہوتا ہے۔ اگلے وقتوں میں اُس بازار میں بلکہ سیدھی بات کرتے ہیں ہیرہ منڈی کے عروج کا زمانہ تھا۔ رات دیر گئے گانا بجانا بند ہو جاتا تھا، ایس ایچ او ٹبی سٹی کو رات 2 بجے اطلاع ملی کہ فلاں کوٹھے پر اب بھی دھندہ جاری ہے۔ چودھری مجید وڑائچ گارد لے کر پہنچے، دروازہ کھٹکھٹایا، طوائفوں نے دیکھا کہ پولیس ہے تو سوچا آج ان سے اپنا بدلہ چکاتے ہیں، صاحب جی آئے ہوئے ہیں۔ انہوں نے جھٹ سے دروازہ کھول دیا، اندر بیٹھے جج صاحب سے مشروب مغرب اور خوشبوئے مغرب کی اکٹھی مہک اٹھ رہی تھی، اپنی لے میں اور اکبر اعظم کے انداز میں بولے، کون ہے؟ طوائفوں نے بتایا کہ پولیس ہے حضور۔ منصف صاحب بولے، ’’ہم اس کوٹھے کو عدالت عالیہ کا کمرہ قرار دیتے ہیں‘‘۔ ایس ایچ او جانتا تھا اس نے اسی وقت پولیس پارٹی اور مخبر کو گالیاں دیں کہ آج نوکری بچ گئی تو بڑی بات ہے۔

آپ کسی سے بات کر لیں چاہے بیمار پڑنے کی، اگلا ایسے بات سے بات نکالتا چلا جائے گا۔ ہمارے ایک دوست کا تعلق گجرات سے ہے، ان سے کہیں کہ مجھے 104 بخار تھا وہ کہے گا کہ میرا بخار تو تھرمامیٹر کراس کر گیا، 107 سے اوپر ہی ہو گا۔ دوسرے دوست سیالکوٹ سے ہیں، حرام ہے کسی کا سیدھا نام لے دیں۔ ان کی عادت ہے اگر سونے کی چین پہنی ہے تو جرسی سویٹر کے اوپر رکھیں گے، گاڑی نئی ہے تو تیز چلائیں گے۔ سردی ہے مگر شیشے نیچے کر کے ڈیک اور گانے اونچی آواز میں لگا دیں گے۔ گوجرانوالہ تو میرے روح و قلب میں ہے، وہاں ہمارے دوست کھاتے ہیں، کھانے سے فارغ ہوں تو کھانے کی بات کرتے ہیں کہ اگلے لمحے کھانے کا وقت آ جائے۔ گوجرانوالہ میں شیخ خورشید میرے ابا جی کے دوست تھے۔ مزاح انکی فطرت اور پہچان تھی مرزا سلطان بیگ المعروف نظام دین بھی ان سے کنی کتراتے تھے۔ ایک دن دونوں کی گوجرانوالہ ریلوے سٹیشن پر ملاقات ہو گئی۔ شیخ خورشید نے نظام دین سے حال پوچھا، انہوں نے کہا، شیخا توں سنا کیہ حال ای۔ شیخ صاحب نے کہا، چودھری صاحب یہ کیا انداز ہے۔ چودھری صاحب کی اس سے دوستی بھی تھی، بولے، تم کون سے میرے سسر ہو۔ شیخ صاحب کہنے لگے، اچھا اگر تمہارا عزت کرنے کا یہی انداز ہے تو اللہ تمہیں اتنی زندگی دے، تم موت مانگو، موت نہ ملے، مشکبور کی جگہ کتے پیشاب کریں، کفن نصیب نہ ہو، کمیٹی والے کفن ڈالیں، قبر نصیب نہ ہو۔ ادھر سے لاہور جانے والی ٹرین آ گئی۔ چودھری صاحب کو جلدی تھی عجلت میں بولے، در در در فٹے، ایسے بول رہے ہو جیسے اکتائی ہوئی ان پڑھ ماں بد دعائیں دے رہی ہو۔ اسی طرح ایک دوست نے فلم سٹار شاہد کے عہد شباب کا ذکر کیا پھر امراؤ جان ادا فلم کی بات کی۔ دوسرا دوست پوچھنے لگا کہ آپ کے خیال سے امراؤ جان زیادہ مشہور تھی یا اوریا مقبول جان؟ پہلے نے جواب دیا، تب تو ذرائع ابلاغ ایسے نہ تھے البتہ امراؤ جان کا نام دیر تک رہے گا، اوریا مقبول تو پانی پہ بہنے والی کاغذ کی کشتی ہے، جس پر دریا پار نہیں کیا جا سکتا۔

پی ٹی آئی کا طریقہ افواہ سازی ہے کہ تردید ہوتے ہوتے دن مہینے سال گزر جائیں۔ شیخ خورشید کے دوست تھے مرزا افضل بیگ، گاڑیوں کے شو روم پر کام کرتے تھے، کہا کہ آج نہیں آؤں گا۔ تب ذرائع ابلاغ ایسے نہ تھے ایکس اور وٹس ایپ چل جائیں۔ شیخ صاحب شو روم پر آئے، مرزا صاحب کے متعلق پتہ کیا تو پتہ چلا کہ وہ نہیں آ رہے اور کچھ لوگ آ رہے ہیں جنہوں نے مرزا صاحب سے وعدہ کے مطابق گاڑی کا ٹرانسفر لیٹر لینا تھا۔ شیخ صاحب نے مرزا صاحب کے متعلق آس پاس کی دکانوں اور واقف کاروں میں مشہور کر دیا کہ مرزا صاحب انتقال کر گئے ہیں۔ بات مرزا صاحب کے گھر تک پہنچ گئی وہ بے چارے فوراً شو روم پر آ گئے کہ شیخ صاحب کی افواہ کا تدارک کر سکیں۔ یہی صورت حال پی ٹی آئی کی ہے، خبر بنائیں گے، بیانیہ بنائیں گے کہ اللہ کی پناہ، ہٹلر کا وزیر پروپیگنڈہ گوئبل بھی ان کے پاؤں پڑ جائے۔ اگر ہٹلر اور گوئبل آج ہوتے تو بانی اور ان کی جماعت کے بیعت ہوتے۔ اپنے اعمال کا جواز بھی جواز گناہ بد تر از گناہ کے طور پر دیتے ہیں کہ بندہ حیران رہ جائے۔

میں نے ایک دفعہ اپنے سینئر وکیل اور استاد ارشد میر صاحب جو پنجابی لکھاری بھی تھے، پوچھا کہ ’’جواز گناہ بد تر از گناہ‘‘ کیا ہوتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ایک رات نواب صاحب زرق برق پہناوے میں اپنے محل کے باہر ٹہل رہے تھے کہ اچانک ایک نئے پھول پر نظر پڑی جگہ جگہ شمعیں تو روشن تھیں مگر رات رات ہوا کرتی ہے، پیچھے سے آ کر دربان نے جپھی ڈال لی۔ نواب صاحب بڑے نازک اندام تھے۔ بولے، ارے کم بخت نا ہنجار کیا کر رہے ہو۔ دربان نے بے ساختگی سے بتا دیا، معاف کیجئے گا صاحب میں سمجھا تھا بیگم صاحبہ ہیں۔۔۔۔ اور میر صاحب نے مخصوص قہقہہ لگایا اور بتایا کہ اس کو کہتے ہیں، ’’جواز گناہ بد تر از گناہ‘‘ نہ جانے کتنی باتیں الجھتے ہوئے ایک دوسرے سے آگے نکل کر قلم آگے سر دیئے دے رہی ہیں۔ بات سے بات اچھی بھی ہوتی ہے اور خطرناک بھی لہٰذا اپنے تجربہ کے بجائے لوگوں کے وزڈم پر بھروسہ کر کے زندگی کے شعور کو آگے بڑھانا چاہیے۔

تبصرے بند ہیں.