اس بارے میں شاید اب دو رائے نہیں پائی جاتی ہیں کہ پاکستانی معیشت کی ابتری اور بگاڑ رک گیا ہے۔ اقتصادی معاملات ’’بیک ٹو ٹریک‘‘ ہو چکے ہیں۔ تیزی سے ڈیفالٹ کی طرف بڑھتی ہوئی قومی معیشت میں کسی نہ کسی حد تک ٹھہرائو آ گیا ہے۔ تجارتی خسارہ ہو یا مالیاتی خسارہ، دونوں میں بہتری کے آثار پیدا ہو چکے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ان میں سرپلس ہو گیا ہے یا توازن پیدا ہو گیا ہے لیکن بگاڑ کے حجم میں کمی واقع ہوئی ہے۔ دیگر کلی اور جزوی معیشت کے اشاریے مثبت سمت جا رہے ہیں۔ پاکستان کی معاشی صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے۔ ہمیں عالمی معیشت کا بھی جائزہ لینا چاہئے کیونکہ ہماری معیشت عالمی معیشت کے ساتھ جڑی ہوئی ہے وہاں پر ہونے والی تبدیلیاں یہاں ہماری معیشت پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں۔ یوکرائن، روس جنگ نے یورپی معیشتوں پر انتہائی برے اثرات مرتب کئے ہیں۔ یورپ اپنی توانائی کی ضروریات کے لئے روسی گیس پر انحصار کرتا ہے۔ یوکرائن غلے کا عالمی بیوپاری ہے۔ روس، یوکرائن طویل جنگ نے معاملات میں ابتری پیدا کر دی ہے۔ اشیاء خورونوش اور توانائی کی سپلائی لائن ڈسٹرب ہے جس سے طلب و رسد کے عدم توازن کے باعث قیمتوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔ پاکستان، اپنی ٹیکسٹائل کی برآمدات کے لئے یورپی ممالک سے جڑا ہوا ہے۔ چینی، گندم، سویابین اور دیگر اشیاء کی درآمدات کے لئے کسی نہ کسی حد تک یوکرائن و روس پر انحصار کرتا ہے۔ جنگ نے ان معاملات میں عدم توازن پیدا کر دیا ہے جس کے ہماری معیشت پر منفی اثرات مرتب کئے ہیں۔ اس کے باوجود مائیکرو اکنامکس میں بہتری، قابل ذکر اور قابل تحسین ہے اگر حکومت معاشی بہتری کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام نہ کرتی تو ڈالر 500روپے کا ہو چکا ہوتا اور مہنگائی عملاً آسمانوں تک جا پہنچتی۔ حکومت نے بلکہ ریاست اور حکومت نے مل جل کر قومی معیشت کو مکمل تباہی سے بچانے اور بہتری کی راہ پر واپس لانے کا جو کارنامہ سرانجام دیا ہے اس کے لئے وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ سپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل کے پلیٹ فارم پر حکومت اور فوج نے مل جل کر قومی معاشی معاملات کو بہتری کی طرف لانے کا جو کارنامہ سرانجام دیا ہے وہ قابل تحسین ہے۔
دوسری طرف عوامی معیشت ہے وہ ابھی اس مقام تک نہیں پہنچی کہ ہم سکھ کا سانس لے سکیں۔ مہنگائی اپنے زوروں پر ہے۔ اشیاء خورونوش کی قیمتیں تکلیف دہ حد تک زیادہ ہیں۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی مصنوعات کی قیمتیں تو کچھ نہ کہئے انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے کہ انہوں نے اپنی اشیاء کی قیمتوں میں جو اضافہ کیا ہے اور کر رہے ہیں اس کی منطق کیا ہے؟ قیمتیں بڑھانے کا فارمولا کیا ہے۔ پیکجڈ فوڈ آئیٹمز بشمول دودھ، دھی، کھانے کا تیل، پینے کا پانی، آئس کریم، ڈبل روٹی، مکھن وغیرھم کی قیمتیں بڑھائی جا رہی ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ 500ملی لٹر پانی کی قیمت اور 500ملی لٹر سافٹ ڈرنک کی قیمت ایک جیسی کیسے ہو سکتی ہے۔ بوتلوں میں بند پانی پر تو اتنا خرچ نہیں اٹھتا جتنا 500ملی لٹر سافٹ ڈرنک کی تیاری پر اٹھتا ہے لیکن وہ من مرضی کرتے چلے آ رہے ہیں۔ چلو وہ تو ملٹی نیشنل یا ہمارے صنعتکار ہیں عام دکاندار بھی اسی دوڑ میں شامل ہے۔ قیمتوں میں اضافے کے ذریعے نفع اندوزی کا رجحان بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ اس من مانی میں ایک کھوکھے والا اور ریڑھی فروش بھی شامل ہے کسی پر حکومت کا کنٹرول نظر نہیں آتا ہے۔ عوام پریشان ہیں۔
مہنگائی اصل سے زیادہ محسوس بھی کی جا رہی ہے اگر آمدنیوں میں بھی اضافہ ہوتا رہے اور قوت خرید بڑھتی رہے تو پھر بڑھتی ہوئی مہنگائی اتنی شدت سے محسوس نہیں ہوتی ہے لیکن یہاں تو معاملات دگرگوں ہیں۔ ہماری صنعتی تعمیر و ترقی رکی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ بجلی، گیس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور غیر یقینی دستیابی کی صورتحال کے باعث چھوٹی صنعتوں کا کباڑہ ہو چکا ہے۔ گزشتہ دنوں نیشنل سکول آف پبلک پالیسی (NSPP)کے زیرانتظام ایک اعلیٰ سطح کانفرنس میں ماہرین بتا رہے تھے کہ ہماری 25فیصد تک صنعتیں بند ہو چکی ہیں۔ لاکھوں ہنرمند بیکار ہو گئے ہیں۔ ایسے میں جی ڈی پی میں بھی کمی واقع ہوگی اور ہماری برآمدات کا حجم بھی کم رہے گا۔ ٹیکس وصولیوں کا حجم بھی مطلوبہ اہداف کے مطابق نہیں ہوگا لیکن ہمیں تو آئی ایم ایف کے ساتھ کئے گئے وعدوں کے مطابق وصولیوں کے اہداف پورے کرکے دکھانے ہیں نہیں تو وہ ہمیں طے شدہ معاہدے کے مطابق قرض کی قسط ادا نہیں کریں گے اور اگر ہمیں قسط نہیں ملے گی تو ہمارا کاروبار سرکار کیسے چلے گا۔ پہلی آئی ایم ایف ہمارے وعدوں پر ہمارے منت ترلوں کو مان کر، ہماری معیشت کی ڈوبتی نبضوں کو دیکھ کر ہمیں قسط ادا کر دیتا تھا پھر جب ہم اپنے وعدے پورے نہیں کر پاتے تھے تو ہمیں ڈانٹ ڈپٹ کر اگلی قسط ادا کر دیتا تھا ہم گرتے پڑتے، روتے پیٹتے معاملات چلا لیتے تھے لیکن جب عمران خان کی حکومت نے (2018-22)کے دوران معاہدہ کرکے شرائط پر دستخط کرکے ان شرائط کے برعکس پالیسیاں ترتیب دینا شروع کیں تو معاملات پوائنٹ آف نو ریٹرن پر چلے گئے۔ عالمی ساھو کار نے ہمارے ساتھ روابط منقطع کر لئے ہمارے دیگر مددگاروں اور دوستوں نے بھی ہماری امداد سے ہاتھ کھینچ لیا نتیجتاً ہم ڈیفالٹ کے دھانے تک جا پہنچے۔ 2022ء میں عمران خان حکومت کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے رخصت کیا گیا اور پھر معاملات کو درست سمت میں لے جانے کی منظم کاوشوں کا آغاز ہوا۔ پی ڈی ایم کی ڈیڑھ سالہ حکومت، کیئر ٹیکر حکومت اور اب شہبازشریف کی اتحادی حکومت پالیسیوں کے تسلسل کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔ معاملات بہتر ہو رہے ہیں، مہنگائی میں کمی بھی ہو رہی ہے لیکن کیونکہ قابل تصرف آمدنیاں کم ہیں اس لئے شخصی معاملات میں قابل ذکر بہتری محسوس نہیں ہو رہی ہے۔
ہاں ایک اہم معاملہ، پی ٹی آئی کی دھماچوکری اور عمران خان کی لفظی گولہ باریاں جو منفی اثرات چھوڑ رہی ہیں ان کا سدباب ہونا ضروری ہے۔ سیاسی ماحول میں جو ابتری اور بے یقینی پھیلانے کی کاوشیں کی جا رہی ہیں۔ ان کا قانونی اور آئینی طور پر سدباب کیا جانا ضروری ہے۔ عمران خان جیل میں بیٹھ کر جاری نظام کو غیر مستحکم کرنے کی جو کاوشیں کر رہے ہیں گو انہیں اب تک اس میں کامیابی نہیں مل سکی ہے لیکن ان کے ساتھ بھی آئین اور قانون کے مطابق ویسا ہی برتائو کیا جانا چاہئے جیسے فوج نے فوجی ضابطوں کے مطابق جنرل فیض حمید کے ساتھ کیا ہے۔ عمران خان اپنے آپ کو ناقابل تسخیر سمجھتے ہیں وہ اپنے آپ کو قانون سے بالاتر بھی سمجھتے ہیں، انہیں ان کی حیثیت کے مطابق، جرم کے مطابق سزا ملنی چاہئے۔ ان کے ساتھ انصاف ہونا چاہئے اور وہ نظر بھی آنا چاہئے تاکہ ملک سیاسی استحکام کے ساتھ معاشی تعمیر و ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔
تبصرے بند ہیں.