ضیا شاہد، عمران خان اور میں ۔۔(حصہ اوّل)

30

گزشتہ دنوں میرے نہایت پیارے نہایت اور دلبر دوست اقبال جھکڑ جن کے ساتھ میرا صحافتی تعلق اور زندگی کا یارانہ کئی عشروں سے میرے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ گزشتہ دنوں انہوں نے اپنے ایک کالم میں عمران خان، شوکت خانم اور میرے استاد محترم خدا ان کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔ ضیا شاہد اور میرے بارے میں چند واقعات کو قلم کے سپرد کیا اور اس کالم میں انہوں نے جن واقعات کا ذکر کیا ہے میں گو ان کی تصدیق کرتا ہوں مگر کہیں انہوں نے میرے بارے میں چند حقائق کی تفصیلات نہیں دیں اور میں سمجھتا ہوں کہ ان کی مزید تفصیلات کی وضاحت اس لئے بھی ضروری ہے کہ ان گزرے واقعات کو مزید تقویت ملے گی۔
عمران خان اور میرے درمیان تعلقات کا عرصہ تقریباً 25سال کے قریب بنتا ہے۔ یہ ایک طویل داستان، طویل کہانی اور اس کہانی کے بڑے نامور کردار جو آج بھی حیات ہیں اور ان کی زندگی ہی میرے اور عمران خان کے تعلقات کی تصدیق کے لیے کافی ہے اور انشاء اللہ زندگی نے ساتھ دیا تو بہت جلد ان واقعات کو کتابی شکل دینے والا ہوں جبکہ اقبال جھکڑ کے کالم نے مجھے ماضی کے دریچوں کی طرف جانے پر بڑے زوردار طریقے سے لکھنے پر مجبور کر دیا ہے۔
اقبال جھکڑ نے شوکت خانم ہسپتال میں جس پلانٹڈ دھماکے کا ذکر کیا ہے میں اس کا چشم دید گواہ ہوں بلکہ اس دھماکے کے اور کون سے کردار تھے ان کے بارے میں بھی اقبال جھکڑ کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے مزید انکشافات کروں گا۔ اب اس کالم کو پڑھتے چلیں جس میں اقبال جھکڑ نے مکمل واقعات کی نشاندہی نہیں کی۔ کل کی اشاعت میں اس کا دوسرا حصہ دوں گا۔
اپریل1996ء کے ابتدائی دنوں میں شوکت خانم کینسرریسرچ لیب میں زورداردھماکہ ہوا۔ اس دھماکہ کی گونج بہت دورتک سنائی دی۔ ان دنوں وفاق میں پاکستان پیپلزپارٹی اور پنجاب میں ن لیگ کی حکومت تھی۔ عمران خان اپنی سیاسی پارٹی لانچ کرنے والے تھے۔ انہوں نے اس دھماکہ کو بہت بڑا ایشو بنا لیا اور الزام لگایا کہ وفاقی اور صوبائی حکومت ان کی مقبولیت سے خائف ہیں اور یہ دھماکہ اصل میں انہیں جان سے مارنے کی سوچی سمجھی سازش تھی۔عمران خان کے اس الزام کا چرچا دنیا بھر میں ہوا اور عدالتی تحقیقاتی کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا گیا۔ وفاقی حکومت نے کمیشن بنانے سے قبل ’’فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی‘‘ تشکیل دی جس میں حامد میر ، ودود مشتاق ، جمیل چشتی سمیت پانچ سات سینئر رصحافی بھی شامل تھے۔ ایک روز یہ ٹیم عمران خان سے وقت طے کر کے جائے وقوعہ پر پہنچی، تفصیلی معائنہ کیا، وقوعہ کے وقت موجود سٹاف سے بات چیت کی۔ واپسی سے قبل میزبان کے اصرار پر ٹیم کی خاطر تواضع اور شگفتہ گپ شپ چل رہی تھی کہ حامد میر جو نظر بچا کر اپنی ’’انویسٹی گیٹنگ رپورٹنگ‘‘ مکمل کرچکے تھے ، بے تکلفی اور مزاح کے انداز میں عمران خان سے مخاطب ہوئے کہ آپ بھی بہت استاد ہیں ، اے سی پلانٹ کا بڑا پائپ بلاکنگ کے باعث پھٹنے سے ہونے والے گونج دار دھماکہ کو اتنا بڑا ایشو بنا کر ایک ہی تیر سے دونوں بڑی جماعتوں پیپلز پارٹی اور ن لیگ کو رگڑا دے دیا اور اپنی سیاسی پارٹی کی لانچنگ سے قبل عالمی میڈیا کی توجہ بھی حاصل کر لی۔ یہ سن کر عمران خان آگ بگولہ ہو گئے اور حامد میر سے تو تڑاخ کرتے ہوئے الزام لگایا کہ وہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ سے وفاداری میں جھوٹ بول رہے ہیں۔ معاملہ ضرورت سے زیادہ بگڑنے پرحامد میر نے سچ بتا دیا کہ ان کی غیرملکی انچارج ائیرکنڈیشننگ پلانٹ سے تفصیلی بات ہوئی ہے اور انہوں نے ہی بتایا ہے کہ یہ کوئی ڈائنامیٹ یا بم دھماکہ نہیں تھا بلکہ اے سی پلانٹ کے مین پائپ میں گیس جمع ہونے کے باعث ہونے والا دھماکہ تھا۔ حامد میر نے جب یہ بات بتانے والے مذکورہ انجینئر کو بلا کر تصدیق کرنے کی بات کی تو عمران خان سنبھلنے کے بجائے مزید مشتعل ہو گئے اور اچانک حامد میر پر وحشیانہ تشدد شروع کر دیا ، وہاں موجود افراد نے مداخلت کی تو عمران نیازی نے مسلح گارڈز بلا کر سینئر صحافیوں پر بہیمانہ تشدد کی انتہا کر دی۔اس عمران گردی کے نتیجہ میں حامد میر سمیت پانچ صحافیوں کو ہسپتال جانا پڑا۔ حامدمیر اور جمیل چشتی سمیت تین صحافی مرہم پٹی اور ابتدائی طبی امداد کے بعد واپس آ گئے جبکہ ودود مشتاق سمیت دو صحافی کئی روز تک ہسپتال میں زیرعلاج رہے۔ میں عمران خان اور اس کی حد درجہ بزدلی کو پوتڑوں سے جانتا ہوں مگر کبھی ازخود اظہار نہیں کیا تھا۔ جب اس نے میزبان ہو کر مہمان صحافیوں سے ’’بدمعاشی‘‘ کی تو مجھے بہت صدمہ ہوا۔ ہفتہ 26اپریل 1996ء ساڑھے گیارہ بجے دوپہر عمران نیازی نے ایک پرہجوم پریس کانفرنس میں اپنی سیاسی پارٹی ’’تحریک انصاف‘‘ کی لانچنگ کا اعلان کیا۔ اس سے قبل اسی روز صبح چھ بجے روزنامہ اخبار لاہور (جو اپنے وقت کا کثیرالاشاعت عوامی مزاج کا نمائندہ مقبول عام اخبار تھا) میں ’’عمران خان آن مائی فٹ‘‘ کے عنوان سے میرا کالم ملک بھر کے قارئین تک پہنچ چکا تھا۔ میں نے اس کالم میں، اپنی طرف سے ایک لفظ گھٹائے بڑھائے بغیر (صرف گندی گالیاں حذف کرکے) وہ واقعہ من وعن لکھ دیا جس کے، میں اور ’’ایورنیو کانسیپٹ‘‘ اور ’’ایورنیو فلمز سٹوڈیوز‘‘ کے مالک آغا سجاد گل چشم دید گواہ ہیں۔ یہ وقوعہ 1990ء کے اوائل کا ہے، شوکت خانم کینسر ریسرچ لیب کی چندہ مہم عروج پر تھی جس میں تاجر، صنعتکار، امیر، غریب، مرد، خواتین اور کمسن بچے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ ڈال رہے تھے۔ ان دنوں قومی اخبارات میں گاہے گاہے عمران خان کے کالم شائع ہوتے تھے۔ مرحوم ضیا شاہد روزنامہ ’’پاکستان‘‘ کے چیف ایڈیٹر تھے، انہوں نے میگزین ایڈیٹر اسد شہزاد سے کہا کہ وہ عمران خان تک ان کا سلام اور یہ پیغام پہنچائیں کہ وہ دیگر قومی اخبارات کی طرح اپنا کالم روزنامہ ’’پاکستان‘‘ کو بھی بھجوایا کریں، انہوں نے پیشکش کی کہ اگر وہ معاوضہ لیتے ہیں تو وہ انہیں سب سے زیادہ معاوضہ دیں گے۔ دو روز بعد اسد شہزاد نے بتایا کہ عمران خان نے یہ کہہ کر انکار کر دیا ہے کہ وہ ’’کسی بلیک میلر کو اپنا کالم نہیں بھیج سکتے‘‘۔ مرحوم ضیا شاہد گرمی کھا گئے اور عمران خان کے خلاف رنگا رنگ سیکنڈل چھاپنے لگے۔ اتفاق کی بات ہے کہ انہی دنوں زمان پارک لاہورمیں عمران نیازی کی رہائش گاہ کی تزئین و آرائش جاری تھی اور امپورٹڈ فرنیچر ، فانوس ، کراکری اور آرائشی اشیاء کا انبار وہاں موجود تھا۔ اس ’’رائی‘‘ کو ’’پہاڑ‘‘ بناتے ہوئے روزنامہ ’’پاکستان‘‘ کے فرنٹ پیج پر خصوصی زاویہ سے بنائی گئی تصاویر کے ساتھ یہ شہہ سرخیاں لگ گئیں کہ ’’سکولوں کے بچوں کی پاکٹ منی سے ’’عمران محل‘‘ کی تزئین و آرائش شروع‘‘ اس سے گھبرا کر عمران خان نے اپنے اور ضیاشاہد کے مشترکہ تعلق دار آغا سجاد گل کے ذریعے یہ سلسلہ رکوانے کی کوشش کی۔ ضیاشاہد نے آغا سجاد کے رابطہ کرنے پر کہا کہ وہ عمران کو ان کے دفتر لے آئیں۔ ملاقات طے پا گئی تو ضیا شاہد نے اسد شہزاد کو پروٹوکول ڈیوٹی سونپتے ہوئے بریفنگ دی کہ چیف ایڈیٹر آفس تک پہنچنے سے قبل عمران کو کیسے انتظار کی کوفت اور کس کس طرح کی نفسیاتی اذیت سے دوچار کرنا ہے۔ اسد شہزاد نے معذرت کر لی تو یہ اسائنمنٹ بھی کسی اور کے حصے میں آئی۔ وقت مقررہ پر آغا سجاد گل اور عمران خان 41جیل روڈ لاہور پر واقع روزنامہ پاکستان کے ہیڈآفس پہنچ گئے۔ حسب ہدایت چیف ایڈیٹر، عمران خان کو ان تک پہنچنے سے قبل خوب نفسیاتی اذیت پہنچائی گئی۔ وہ جب بھی زچ ہوکر واپس جانے لگتے، آغا سجاد گل انہیں روک لیتے۔ بہرحال نصف گھنٹہ سے زائد کے اعصاب شکن ’’ٹریٹمنٹ‘‘ کے بعد انہیں چیف ایڈیٹر کے کمرہ میں پہنچا دیا گیا۔ ضیاشاہد نے اٹھنا تو کجا عمران سے ہاتھ ملانا بھی گوارہ نہیں کیا اور خود کو بہت زیادہ مصروف ظاہر کرنے لگے۔ عمران بہت اذیت میں تھے اور بار بار واپسی کیلئے اٹھنے کی کوشش کر رہے تھے مگر ہر بار انہیں سجاد گل روک لیتے۔ بہت انتظار کے بعد گفتگو شروع ہوئی تو ضیاشاہد نے بالکل اسی انداز میں کہ جیسے وہ اپنے سٹاف کی کلاس لیتے تھے، عمران خان پر چڑہائی کردی، وہ نان سٹاپ بول رہے تھے۔ ضیا شاہد نے کہا کہ میں نے سب سے زیادہ معاوضہ کی پیشکش بھجوائی مگر تم نے انکار کے ساتھ ساتھ مجھے بلیک میلر کہا اور بہن کی گالی دی، تم خود کو کیا سمجھتے ہو، کرکٹ سٹار…؟۔ آن مائی فٹ… انٹرنیشنل فیم ہیرو؟… آن مائی فٹ… سماجی شخصیت ؟… آن مائی فٹ…ضیا شاہد بڑی دیر تک عمران کی یونہی کلاس لیتے رہے اور جو جی میں آیا کہہ ڈالا مگر کیا مجال کہ عمران نیازی نے چوں بھی کی ہو۔ وہ بھیگی بلی بنے بیٹھے رہے اور گالیوں سمیت سب کچھ ’’خوشدلی‘‘ سے ہضم کرگئے۔ ذاتی طور پر مجھے اس معاملہ سے کوئی سروکار نہیں تھا مگر میری قوت برداشت جواب دینے لگی تو میں بہانے سے کمرہ سے باہر نکل گیا اور عمران خان کی واپسی تک اس کمرے کی طرف نہیں گیا۔ میرے اس کالم پر سب سے پہلا ردعمل ضیاشاہد کا آیا، انہوں نے صبح صبح فون کرکے گلہ کیا کہ ’’آپ نے چھ سال بعد یہ واقعہ پھر سے تازہ کرکے ان کی عمران خان سے دوبارہ لڑائی کرانے کی کوشش کی ہے۔ان کے بقول ’’ہم دونوں‘‘ میں ’’دوستی‘‘ چل رہی ہے اور عمران خبریں گروپ کے اچھے کلائنٹ بن چکے ہیں۔ میں نے ضیا شاہد سے پوچھا کہ میرے کالم میں کوئی جھوٹ یا فالتو بات تو درج نہیں، انہوں نے کہا لکھا تو سچ ہے مگر کیا ضرورت تھی گڑے مردے اکھاڑنے کی۔ اس وقت معروف خاتون صحافی، اینکرپرسن محترمہ نسیم زہرا پی ٹی آئی کی مرکزی سیکرٹری اطلاعات تھیں، انہوں نے مجھے بھرپور تحریری احتجاج نامہ اور پھر لیگل نوٹس بھی بھجوایا۔ آج پھر مجھے یہ سب کچھ ریکارڈ پر دہرانے کاخیال اس لئے آیا ہے کہ نئی نسل بھی حقائق جان سکے۔ ہم وہ ستم گزیدہ قوم ہیں جسے تقسیم ہند سے اب تک ستتر برس میں (چند برس کے استثنیٰ کے ساتھ) ہمیں ہر طرح سے لوٹا گیا ، حسیں خواب دکھا کر دھوکے دیئے گئے۔ ماضی کے تلخ تجربات، آج کے مسائل و مشکلات اور مستقبل کے چیلنجز و خدشات کے پیش نظر آپ کسی کو بھی بلاغور و فکر اور بغیر تحقیق کے ’’ھیرو‘‘ بنانے کے بجائے ملک و ملت کے مفادات کو اوّلین ترجیح دینا ہوگی اور شخصیت پرستی میں اندھا دھند جذباتی ہونے کے بجائے معروضی حقائق کو مدنظر رکھنا ہوگا… بقول شاعر… دستار کے، ہر تار کی تحقیق ہے لازم… ہر صاحب دستار معزز نہیں ہوتا۔!

تبصرے بند ہیں.