مثبت سوچ اور تربیت کی ضرورت

14

ترقی یافتہ اور مہذب ممالک میں اگر کوئی ناگہانی آفت یا حادثہ رونما ہوتو وہ فوراً اس کی وجوہات کا تعین کرتے ہیں اور پھر اس کی روشنی میں آئندہ کا لائحہ عمل مرتب کرتے ہیں، ایسی پالیسی وضع کی جاتی ہے ہمیشہ کیلئے ناگہانی آفات کا سدباب ہو سکے، عوام بھی اپنی حکومت کا بھرپور ساتھ دیتے ہیں، جو بھی قانون بنایا جاتا ہے، سب اس کی تعمیل کرتے ہیں، کوئی بھی خلاف ورزی کی جرأت نہیں کرتا۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایسا کوئی میکنزم نہیں بن سکا، ہم اپنی روایتی ڈنگ ٹپائو پالیسی پر ہی گامزن ہے، ہر بحران یا آفت پر شور و غوغا تو کرتے ہیں مگر کوئی مستقل پالیسی دینے کی کوشش نہیں کرتے۔ حال ہی میں مون سون بارشوں میں لاہور شہر کے بیشتر علاقے ندی نالوں کا منظر پیش کر رہے تھے۔ ایسا یہ پہلی بار نہیں ہوا۔ گزشتہ 3/4عشروں سے یہی کیفیت چل رہی ہے۔ ہر سال موسم برسات میں اکثر علاقے ندی نالوں کا روپ دھار لیتے ہیں۔ یہاں تک کہ پانی گھروں کے اندر داخل ہو جاتا ہے۔ کیا کبھی کسی نے ایسے حالات سے نمٹنے کیلئے کوئی سنجیدہ کوشش کی ہے؟ حکومتی نااہلی تو اپنی جگہ، مگر عوام بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں، ہمارا وتیرہ بن چکا ہے کہ ہر الزام حکومت پر لگا کر خود کو معصوم قرار دے کر ہمدردیاں حاصل کرکے، دوسروں سے امداد کے منتظر رہتے ہیں۔ کبھی کسی نے اپنی گلی، محلے کو صاف رکھنے کی کوشش کی ہے۔ سارا کوڑا، کرکٹ، شاپر حتیٰ کہ باقیات ہم گلی میں پھینک دیتے ہیں۔
گزشتہ کئی سال سے موسم برسات میں بارشیں کچھ معمول سے زیادہ ہو رہی ہیں، جب بارش ہوتی ہے تو یہی کوڑا کرکٹ، شاپر پانی میں تیر کر گٹروں کو بند کر دیتی ہے۔ ردعمل کے طور پر پانی کا نکاس نہیں ہوتا تو پھر پانی سڑکوں، گلیوں میں اکٹھا ہونا شروع ہو جاتا ہے جو کہ بالآخر گھروں میں داخل ہو جاتا ہے۔
پانی کے گلیوں، بازاروں میں جمع ہونے پر ہم ایک طوفان برپا کرتے ہیں۔ حکومت کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں، اگرچہ حکومت بری الذمہ نہیں، مگر
عوام کو خود بھی احساس ہونا چاہئے کہ وہ خود اپنے لئے اذیت کا سامان پیدا کر رہے ہوتے ہیں۔ اگر کوئی باشعور انسان انہیں گندگی پھیلانے سے منع کرے تو وہ اس پر پل پڑتے ہیں، طرح طرح کی جلی، کٹی سناتے ہیں۔
گویا وہ خود کو ٹھیک کرنا نہیں چاہتے مگر توقع رکھتے ہیں کہ بھلا وہ گلیوں، بازاروں کو کوڑے کا ڈھیر ہی کیوں نہ بنا دیں پھر بھی بارش کا پانی گلی میں کھڑا نہیں ہونا چاہئے۔
2010ء میں سیلاب سے جنوبی کے بے شمار دیہات زیر آب آ گئے، پانی کی شدت اس قدر تھی کہ مال مویشی بھی سیلاب کی نذر ہو گئے، دیہاتوں میں عموماً زیادہ تر مکانات کچے ہوتے ہیں جو کہ پانی کے پہلے ریلے میں ہی زمین بوس ہو جاتے ہیں۔ اگر پانی زیادہ دیر کھڑا رہے تو پکے مکانوں کو بھی شدید نقصان پہنچتا ہے۔
سیلاب کی تباہ کاریاں ٹی وی پر آنے لگی، لوگوں کو بے سروسامانی کے عالم میں پناہ ڈھونڈتے ہوئے دیکھا تو ہم چند دوستوں نے آپس میں باہم مشاورت سے متاثرین کی مالی امداد کا فیصلہ کیا، فوری طور پر دیگر ساتھیوں کو بھی آگاہ کیا۔ اس طرح تقریباً ہمارے ساتھ دو درجن کے قریب دوست اکٹھے ہو گئے ہم نے 4/5دن میں دو ٹرکوں کا سامان اکٹھا کر لیا اور باقی فنڈ کیلئے دیگر دوستوں کی ڈیوٹی لگائی، ہم اپنے ٹرک لے کر جنوبی پنجاب کے متاثرہ علاقوں کی طرف چل دیئے، چونکہ سیلاب سے بہت ساری سڑکیں تباہ ہو چکی تھیں، بہرحال ہم کسی نہ کسی طرح متاثرہ علاقوں تک پہنچ گئے، ابھی ہم ایک جانب سے گز رہے تھے تو سامنے بے سروسامان لوگوں کا ہجوم بڑی کسمپرسی کا شکار نظر آیا ہم چونکہ آگے گاڑیوں میں تھے، ہم رک گئے جونہی ہم رکے، ایک ہجوم نے ہمیں اور ٹرکوں کو گھیر لیا۔
ہم اپنی گاڑی سے نیچے اترے تو پہلا سوال یہ تھا کہ آپ لوگوں تک کوئی امداد پہنچی ہے؟ سب لوگوں نے یک زبان ہو کر کہا کہ (کائی شے نئیں) جس کا مطلب تھا کہ کوئی چیز ان کو اب تک نہ ملی ہے۔
ہم نے فوراً فیصلہ کیا کہ یہ دونوں ٹرک یہی تقسیم کر دیتے ہیں لہٰذا بکھرے ہوئے بے ہنگم ہجوم کی صفیں درست کرائی گئیں تاکہ سب کو سامان کی ترسیل یقینی بنائی جا سکے، ہم نے دونوں ٹرکوں کا سامان متاثرین میں تقسیم کیا، ابھی ہم تقسیم سے فارغ ہی ہوئے تھے کہ ہمارے دیگر ساتھیوں کا لاہور سے فون آ گیا کہ انہوں نے بھی تقریباً 2/3ٹرکوں کا سامان اکٹھا کر لیا ہے اور ہم آپ کی جانب آ رہے ہیں اور ہمیں وہاں رکنے کیلئے کہا۔
تیسرے دن ہم نے 3ٹرکوں کو لے کر اپنی منزل کی جانب روانہ ہو گئے۔ راستہ چونکہ وہی تھا جس راستے میں دو دن پہلے ہم امدادی سامان تقسیم کر کے گئے تھے، جونہی ہم ان کے پاس سے گزرنے لگے تو انہوں نے ہمیں دور سے اپنی طرف ٹرکوں کو آتے دیکھا تو سڑک کے دونوں جانب کھڑے ہو گئے۔
ہم نے پوچھا کہ آپ کو کوئی امداد ملی ہے تو سب نے یک زبان ہو کر کہا کہ (کائی شئے نئیں) ہم نے ان سے کہا کہ ابھی دو دن پہلے ہم آپ لوگوں میں دو عدد ٹرک تقسیم کرکے گئے ہیں اور ہجوم میں سے ہم نے کچھ لوگوں کو پہچان بھی لیا۔ ہمارے اصرار پر وہ خاموش ہو کر جتنی تیزی سے ہمارے قریب آئے تھے اتنی ہی تیزی سے دور چلے گئے۔
ہم سب دوست آپس میں پریشان، ہکے بکے کہ یہ کیا ماجرا ہے۔ واپسی پر میں سارا راستہ یہ سوچتا رہا کہ کس قسم کی ہم قوم ہیں کہ ایک طرف ہم مصیبتوں و مسائل کا شکار ہیں تو دوسری طرف ہمارے ڈھٹائی، بے شرمی کا یہ عالم ہے کہ ہم اللہ کے قوانین کو ماننے کے لیے تیار نہیں، مصیبت، غم، دکھ میں انسان ہمیشہ اللہ رب العزت سے خوف کھاتا ہے، اللہ رب العزت کے قوانین کی سختی سے پاسداری کرتا ہے۔ امانت، دیانت، ایمانداری، سچائی، عدل و انصاف، احسان، وعدوں اور معاہدوں کی پاسداری ہی اللہ رب العزت کے قوانین کا منشا ہے۔
قوموں کی تعمیر مثبت سوچ کے بغیر اور مثبت سوچ، تربیت کے بغیر ممکن نہیں!

تبصرے بند ہیں.