سہولت کاری کی بڑی نشانیاں

14

بانی پی ٹی آئی کی سہولت کاری کے ختم ہونے یا جاری رہنے کا پتا کیسے چلے گا اسی کے متعلق جو بڑے اشارے ہیںانہی پر آج کی نشست میں بات ہو گی ۔سہولت کاری ختم ہوئی ہے یا نہیں یہ سمجھنا اس لئے بھی بہت ضروری ہے کہ گذشتہ ڈھائی سال کے دوران جب عدم اعتماد کے بعد پی ڈی ایم کی حکومت آئی ہے متعدد مواقع پر یہ دعوے کئے گئے کہ اب سہولت کاری ختم ہو گئی ہے لیکن کچھ ہی عرصہ بعد پتا چلا کہ ایسا نہیں ہے بلکہ سہولت کاری تو پوری طاقت سے جاری ہے ۔ پی ڈی ایم کی حکومت ختم ہوئی تو کہا گیا کہ بس اب عمران خان کا باب ختم ہو گیا ۔ اس کے بعد ضمنی الیکشن ہوئے تو 20میں سے15اور8میں سے 6سیٹیں جیتیں تو پتا چلا کہ سہولت کاری تو اپنی جگہ موجود ہے اور پورے زور و شور سے جاری ہے ۔ پھر 28نومبر 2022کو جنرل عاصم منیر آرمی چیف بنے تو کہا گیا کہ اب سہولت کاری ختم لیکن سہولت کاری جاری رہی لیکن دل کی تسلی کے لئے کہا گیا کہ جہاں جہاں سے سہولت کاری ہو رہی ہے ان تمام جگہوں سے صفائی کرنے میں کچھ وقت تو لگے گا لیکن پھر صفائی کرتے کرتے 9مئی ہو گیا ۔ 9مئی کے بعد کور کمانڈر لاہور سمیت کئی حاضر سروس اور ریٹائرڈ افسران کے خلاف کارروائی ہوئی تو کہا گیا کہ اب کون سی کسر رہی گئی ہے اب تو سہولت کاری بالکل ختم ہے لیکن پھر جب مسلسل اعلیٰ عدلیہ سے تحریک انصاف کے حق میں فیصلے آنا شرو ع ہو گئے تو سہولت کاری کے خاتمہ کا تصور ایک بار پھر چکنا چور ہو گیا اور ایک مرتبہ پھر سہولت کاری کا شور اٹھا اور گڈ ٹو سی یو نے سہولت کاری کے تصور کو بے انتہا تقویت پہنچائی۔ پھر جب عمر عطا بندیال کے بعد قاضی صاحب چیف جسٹس بنے تو کہا گیا کہ اب سہولت کاری کو The End لگ گیا ہے اور فروری کے الیکشن میں بطور جماعت باہرہونے پر سہولت کاری کے خاتمہ کا سب کو یقین آنے لگا لیکن پھر جب فروری 2024 کے نتائج آئے تو تحریک انصاف اور مولانا فضل الرحمن کے ساتھ ساتھ نواز لیگ کے حلقوں میں بھی ٹلیاں کھڑکنے لگیں کہ سہولت کاری تو ہو رہی ہے اور اب جنرل فیض کی گرفتاری اور ان کے کورٹ مارشل شروع ہونے پر ایک بار پھر یہی کہا جا رہا ہے کہ اب سہولت کاری کا باب بند ہو گیا ہے ۔
گذشتہ ڈھائی برسوں میں تمام سیاسی پنڈت بہت زیادہ کنفیوذڈ رہے کہ گجرت کے چوہدری کبھی دو جگہ نہیں ہوئے اور چوہدری پرویز الٰہی اور چوہدری شجاعت میں انتہائی عزت و احترام کا رشتہ ہے لیکن ایسی کون سی قیامت آ گئی کہ وہ بھی دو جگہ ہو گئے تو کہا گیا کہ اصل میں بچوں کا مزاج نہیں ملتا اور مونس الٰہی اس ساری صورت حال کا ذمہ دار ہے ۔ اب کیسے پتا چلے کہ اسٹیبلشمنٹ کس کے ساتھ ہے اسی طرح متحدہ والے ہمیشہ بڑے گھر کو دیکھ کر ادھر ادھر ہوتے تھے ، اچکزئی اور مولاناصاحب اور خاص طور پر کچھ سیاست دانوں کا کردار بھی سمجھ نہیں آ رہا تھا ۔ اس کی وجہ کیا تھی کہ انھیں یقین دلایا جاتا تھا کہ جنرل فیض کا گروپ ہی در حقیقت اصلی تے نسلی اسٹیبلشمنٹ کی نمائندگی کرتا ہے جبکہ جنرل عاصم تو بس دکھاوے کے آرمی چیف ہیں ۔ اب ایک طرف یہ منفی پروپیگنڈا تھا اور دوسری جانب ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ ستو پی کر بیٹھے رہے بلکہ یہی کہہ سکتے ہیں کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں میں بھی سہولت کار موجود تھے ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ 9مئی جیسا سانحہ ہو جائے اور کسی کو پتا ہی نہ چلے کہ کیا ہونے جا رہا ہے ۔ سہولت کاری نہیں بلکہ ہم تو اسے ملک دشمنی سے تعبیر کریں گے کہ زمان پارک کے اطراف میں پنجاب پولیس کو کٹ پڑوانے کا کام کیا ملک دوستی ہو سکتاہے کہ جس نے بھی یہ گھنائونا کام کیا اس نے دنیا کو صرف یہ دکھانے کیلئے کہ عمران خان کے پاس کس قدر اسٹریٹ پاور ہے اور اسے کس حد تک عوامی حمایت حاصل ہے وہ ڈرامہ رچا کر ریاستی عمل داری کا جنازہ نکالا گیا اور حکومتی رٹ کا بیڑا غرق کیا گیا اور اس سے بھی بڑھ کر المیہ یہ ہے کہ 23گھنٹے تک یہ سارا تماشا سڑکوں پر ہوتا رہا اور ایک ایک لمحہ کی وڈیو موجود ہے اور چند دن پہلے عمران خان نے جیل میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے اس بات کا اعتراف بھی کیا ہے کہ اس دن پیٹرول بم چلائے گئے لیکن آفرین ہے سہولت کاری اور سہولت کاروں پر کہ ڈیڑھ سال ہو گیا ہے لیکن آج تک کسی کو اس کیس میں سزا نہیں ہو سکی ۔اب یہ صرف سہولت کاری ہے یا ہمارے عدالتی نظام کی خوبیوں کا بھی اس میں عمل دخل ہے اس کا فیصلہ قارئین پر چھوڑتے ہیں ۔

سہولت کاری کے خاتمہ کو سمجھنے کے لئے اشارے بڑے واضح ہیں ان کا سمجھنا کوئی مشکل نہیں ہے ۔ اول ماضی کے وہ تمام سیاسی کھلاڑی جو ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کی پچ پر کھیلتے رہے ہیں وہ جب تک ایک جگہ نہیں آ جاتے اس وقت تک سہولت کاری جاری سمجھی جائے گی اس لئے کہ جو کچھ ہو رہاہے اس میں ضمیر بھائی نام کی کسی چیز کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا سب مفادات کا کھیل ہے ۔ 9مئی کے کرداروں کو جب تک سزا نہیں مل جاتی اس لئے اس میں رتی بھر بھی ابہام نہیں ہے ۔ آڈیو وڈیو ہر چیز موجود ہے لیکن پاکستان دنیا کا اکلوتا اور انوکھا ملک ہو گا کہ جہاں پر کسی نجی یا پبلک املاک پر حملے نہیں ہوئے بلکہ فوجی املاک پر حملے ہوئے اور ان املاک کو نذر آتش کیا گیا حتیٰ کہ شہداء کے مجسموں تک کو توڑا گیا اور وہ جی ایچ کیو کہ جس پر حملے کو ملک پر حملہ تصور کیا جاتا ہے وہاں بھی سب کچھ ہوا لیکن جب تک 9مئی کے تمام کرداروں کو سزا نہیں ہو جاتی۔ جیل کو جب تک بانی پی ٹی آئی کے لئے ڈرائنگ روم کے بجائے جیل نہیں بنا دیا جاتا ۔پی ٹی آئی کا قومی اسمبلی میں ایک گروپ ٹوٹ کر حکومت سے نہیں مل جاتا اور کم از کم جنرل فیض کو کورٹ مارشل میں سزا نہیں مل جاتی اس وقت تک سہولت کاری رہے گی ۔

تبصرے بند ہیں.