عوام کو سہولیات دینا بے وقوفی!

16

جی ہاں! عوام کو مشکلات سے نکالنے کیلئے سنجیدہ سیاست دان ضرور کوشش کر رہے ہیں وزیراعلیٰ پنجاب کے پنجاب کے عوام کیلئے آج کے کام کل یا کبھی بھی آنے والے انتخابات میں مسلم لیگ کی کمائی ہو گی، جس طرح کسی کمپنی کی مارکیٹ اس کی پراڈکٹ ہوتی ہے اور عوام اسکی طرف راغب ہوتے ہیں وہ ہی اس کمپنی کی اصل کمائی ہے ، یہ ہی صورتحال سیاست دانوںکی ہے وہ ایک فیکٹری ہیں انکی پراڈکٹ انکے کام ہوتے ہیں اور اگر پراڈکٹ ٹھیک ہے تو اس پراڈکٹ کے خریدار اسکے گرد ہوتے ہیں جو عوام ہوتے ہیں پنجاب میں وزیراعلیٰ پنجاب کی دوڑ بھاگ اور عوام کو سہولیات پہنچانے کیلئے سہولیات پہنچانے کی کوششیں یاد دلاتی ہیںوہ وقت جب شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے وزیر اعظم بننے کے بعد تو انہیں اپنی تقریر میں تمام اتحادیوں کے نام لینا پڑتے ہیں ورنہ ہمارے سیاست دان تو اتنے شوقین ہیںکہ تقریر میں نام نہ لینے پر بھی اتحادی حکومت سے علیحدہ ہوسکتے ہیں مریم نواز شہباز شریف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے عوا م کوسکون کی زندگی پہنچانے کیلئے کوشش کر رہی ہیں، عوام کا burning issue بجلی کے بل ہیں مریم نواز نے کوشش کر کے اور اپنے والد سابق وزیراعظم میں نواز شریف کے مشوروں پر عمل کرتے ہوئے دو ماہ کیلئے ہی صحیح مگر بجلی کے نرخ کم کئے ہیں جس کے لئے پنجاب کے خزانے سے اربوں روپیہ بجلی کے اداروں کو دیا ہے اس طرح جو بجلی فراہم کرنے والے پرائیویٹ ادارے لوٹ مار کرکے پاکستان کے قومی خزانے لوٹ رہے اس میں کچھ لوگ عجیب قسم کے معاہدوںکی وجہ سے بغیر بجلی پیداکئے بھی اربوں روپے لوٹ رہے ہیںوزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت اس مشکل پر قابو پانے کی کوششوںمیں مصروف توہوگی مگر لگتا ہے اسکے حل میں کچھ وقت لگے گا (اللہ کرے اونٹ کسی کروٹ بیٹھے) مگر بہ حیثیت وزیراعلیٰ پنجاب چونکہ بجلی فراہم کرنے والے نجی اداروں کو لگام دینا ان کا کام نہیں بجلی فراہم کرنے والے اداروں کو ہاتھ ڈالنا اژدھوں کے غار میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف ہے یہ ایک منظم ’’مافیا‘‘ ہے جس سے پناہ جب ہی ملے گی جب اس ملک کو IMFسے پناہ حاصل ہوگی اسلئے میاں نواز شریف سے مشورے کے بعد مریم نواز نے 45ارب روپے کی خطیر رقم پنجاب کے خزانے سے ادا کرکے کم از کم دو ماہ کیلئے تو پنجاب کے عوام کو ریلیف دیا اس احسن اقدام کو بے وقوفی سے تعبیر کرنے والے خود احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں مریم نواز نے دو ماہ ہی سہی عوام میں سب سے سنجیدہ مسئلہ بجلی کے نرخ عوام کیلئے کم کئے اور اسکا فرق کسی حد تک پنجاب حکومت کے خزانے سے ادا کیا ۔ عوام میںخوشی کے شادیانے بج گئے ۔دیگر صوبوں میں شام غم کا ماحول پیدا ہوگیا اور اسقدر شام غم ہوئی کہ مریم نواز کے اس احسن اقدام کو ایک ’’بے و قوفانہ‘‘ اقدام قرار دے دیا، عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے عمل کو پہلی دفعہ سنا کہ بے وقوفانہ ہوتا ہے، اتحادی حکومت یا اتحاد اچھا تو ہوتا اگر نیک نیتی سے کیا جائے مگر ہمارے ملک میں اسکی روایت نہیں ’’کسی‘‘ ڈنڈے کے زور پر ایک ساتھ تو بیٹھ جاتے ہیں مگر دلوں میں بے ایمانی اورنفرتیں عروج پر ہوتی ہیں، اسکی مثال پنجاب میں دیئے جانے والے عوامی ریلیف پر پی پی پی کا شورغوغا ہے اور مریم نواز اور انکی پنجاب حکومت کو ’’بیوقوف‘‘ کہہ دیا، اوپر سے مسلم لیگ ن کے لوگوں کا جواب در جواب بھی اتحاد کا مذاق ہے۔

شہباز شریف کی حکومت عوام کو ملک میں خوشگوار ماحول پیدا کرنے میں مصروف ہے معاشی ترقی کے بہت واضح اشارے ہیںاس وقت ملک کو دہشت گردی، معاشی مشکلات اور بڑھتے ہوئے قرضوں کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ یہ غیر معمولی حالات ہم سے بابائے قوم کے قول کی روشنی میں اجتماعی حکمت عملی کا تقاضا کرتے ہیں بقول قائد ”آئیے ہم اپنے تمام وسائل کو مربوط اور منظم انداز میں استعمال کریں اور ایک عظیم قوم کی طرح عزم، استقامت اور نظم و ضبط کے ساتھ ان سنگین مسائل سے نمٹیں جو ہمیں درپیش ہیں” موجودہ غیر معمولی حالات سخت محنت، لگن اور ایماندارانہ روش کی تجدید عہد کا مطالبہ کرتے ہیں۔ یہ وقت آگے بڑھنے کا ہے نہ کہ پچھتانے اور نہ پیچھے مڑ کر دیکھنے کا۔ ہم نے جو کھویا ہے اسے واپس نہیں لایا جا سکتا مگر میرے قائد کو اسکا اندازہ نہ تھا ہماری سیاست میں غیر ملکی ایجنٹوں کی ریل پیل ہوگی جو اسی ملک کی معیشت ، عوام کے خون پسینے کی آمدن کو لوٹیںگے اور اسی ملک کی جڑوںکو سخت نقصان پہنچائینگے ۔ وی آئی پی قیدی کپتان نے ملک میں جو افراتفری مچائی اسکا خمیازہ پاکستان کے عوام بھگت رہے ،انکی جماعت کا جو تعلیم یافتہ طبقہ ہے وہ معاملات کو ٹھیک کرنا چاہتا ہے مگر جیل میں بیٹھا VIP قیدی ملک میں افراتفری چاہتا ہے وہ ہمیشہ چاہے فیاض چوہان ہوں یا مروت انہیں ہی پہلے بھی شاباشی دی اور آج بھی ایسے لوگوں کو شاباش دیتا ہے چونکہ ملک کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا ایجنڈہ ہے ۔میں پاکستان میںاخباری صنعت اور صحافیوںکے ا حتجاج کے زمانے میںمارشل لائی دور میں چار ماہ تک سندھ کی مختلف جیلوں میں رہا ، گھر والے یاد آتے تھے چچا ملنے آتے تھے ایک خط دادی کو لکھا خیریت کا ،ملاقات کے دوران ’’درمیان ‘‘میں بیٹھے شخص نے وہ خط لے لیا کہ صرف پندرہ منٹ ملاقات کرلیںخط و کتابت نہیں۔ مگر آج ہمار ا قانون یا کسی خوف میں یا اسقدر انسانی حقوق کا پاسدار ہوگیا ہے کہ وی آئی پی قیدی 804 کو روز پریس کانفرنس ہوتی ہے، صحافیوں سے انٹرویوز ہوتے ہیں، 9مئی کے شاہکاروں کی
ملاقاتیں ہوتی ہیں اب ملک میں کیا کرنا ہے اسکے پروگرام بنتے ہیں اور ملک کی میڈیا پرپریس کانفرنسیں ہوتی ہیں ایسی صورتحال میں نہ جانے کس طرح شہاز شریف حکومت کرنا چاہتے ہیں وزیر اعظم کے ارد گرد لوگوںیا حکومت کا بیانیہ نہایت کمزور ہے ،وہ بہتر انداز میں ملک کی معاشی ترقیوں شائد خود بھی ناواقف ہیں انکے بیانات کی عوام میں پذیرائی نہیں ،9 مئی کے شاہکار اتنا جھوٹ بولتے ہیں سچ لگنے لگتا ہے چونکہ اس جھوٹ کے سامنے حکومتی لوگ اتنے مضبوط اور معلومات سے بھر پور نہیں کہ وہ عوام میں جا کر کچھ بتا سکیں۔ ہرشخص کا سوال ہے کہ9 مئی کے ’’وارداتئے‘‘ تاحال اپنی زبان اور بیانیہ پر قائم ہیں وہ تو بھلا ہو وی آئی پی قیدی 804کا وہ صبح و شام اتنے بیان تبدیل کرتا ہے کہ اب سمجھدار لوگ خود ہی متنفر ہورہے ہیںاب یہ لوگ جلسے جلوسوں سے بہت دور ہیںمگر حکومتی عہدیدار عوام تک حکومت کی معاشی کامیابیاں پہنچانے میں ناکام ہیںمعیشت مضبوطی کی طرف گامزن ہیں اسکا ثبوت ہے کہ ہمیں اپنے قرضے اور معیشت کی بحالی کیلئے دوست ممالک اور اداروںسے قرض مل رہا ہے ورنہ ڈوبتی معیشت کو ایک روپیہ بھی کوئی نہیں دیتا ۔

تبصرے بند ہیں.