سابق گورنر سندھ محمد زبیر عمر ابنِ میجر جنرل غلام عمر نے ایک نجی چینل پر اعلان کیا کہ وہ عنقریب پی ٹی آئی جوائن کر لیں گے کیونکہ عمران نیازی تاریخ کی درست سمت پر کھڑے ہیں۔ حیرت ہے کہ جب وہ ن لیگ کے کوٹے سے گورنر سندھ کی مسند سے لطف اندوز ہو رہے تھے تو ان کے بھائی چھوٹے بھائی اسد عمر عمران نیازی کے ساتھ کھڑے تھے اور یقینا وہ اس وقت تاریخ کی غلط سمت پر کھڑے ہوں گے۔ خیر اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت کر دے گا لیکن کبھی ان تعلیم یافتہ بھائیوں نے سوچا ہے کہ ان کے والد صاحب جو جنرل یحییٰ کے کارِ خاص تھے وہ تاریخ کی کس سمت پر کھڑے تھے؟ کہ انہوں نے ملک دو ٹکرے کرانے میں اہم ترین کردار ادا کیا اور بات صرف یہیں ختم نہیں ہوتی۔ مسٹر میجر جنرل ریٹائرڈ محمد غلام عمر نیشنل سکیورٹی کونسل میں یحییٰ خان کے نائب تھے۔ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے انتخابی نتائج پر اثرانداز ہونے کے لیے پاکستانی صنعت کاروں سے فنڈز جمع کیے۔اس زمانے میں فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کے سربراہ بریگیڈیئر ریٹائرڈ اے آر صدیقی کے بقول لگ بھگ دو کروڑ روپے جمع ہوئے۔ مگر الطاف گوہر کے ایک مضمون کے مطابق 28 لاکھ روپے دوست سیاسی قوتوں میں تقسیم کرنے کے لیے دیئے گئے۔ اس رقم کو آئی ایس آئی کے سربراہ میجر جنرل اکبر خان اور راؤ فرمان علی کے توسط سے استعمال ہونا تھالیکن کیا ہوا کیا نہیں، کسی کے پاس حتمی تفصیل نہیں۔ لیکن مشرقی اور مغربی پاکستان کے تقسیم شدہ مینڈیٹ نے پاکستان دو لخت کرا دیا۔ بھٹو حکومت نے غلام عمر کو بھی 20 دسمبر کو برطرف کیا اور ایک لمبے عرصے تک نظربند رکھا۔ وہ تو ضیا الحق نامی آسمانی بجلی پاکستانیوں پر آ گری اور پاکستان توڑنے والے تمام کرداروں پر اس کی نوازشات رحمتِ باری کی طرح برسنا شروع ہو گئیں اور میجر جنرل غلام عمر بھی پاکستان انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل افیئرز کے چیئرمین بنا دئیے گئے۔ ابھی کل کی بات ہے کہ نیازی عہد میں اسد عمر نے بطور وزیر خزانہ آئی ایم ایف سے مذاکرات میں تاخیر کرکے پاکستان اور پاکستانیوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ محمد زبیر عمر کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ فیض حمید کی گرفتاری سے پی ٹی آئی اور عمران نیازی کو کوئی خطرہ نہیں جبکہ عمران نیازی نے فیض حمید کی نوازشات کی ”منجھی”یہ کہہ کر ٹھوک دی ہے کہ” فیض حمید کی گرفتاری کا ڈرامہ مجھے ملٹری کورٹ میں لیجانے کیلئے کیا جا رہا ہے اور فیض حمید کو میرے خلاف وعدہ معاف گواہ بنایا جائے گا۔” اب عمران نیازی کی ہزاروں سیاسی بونگیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اسے یہی معلوم نہیں کہ وعدہ معاف گواہ اُسے بنایا جاتا ہے جس کا ایف آئی آر میں سب سے کم جرم ہو نہ کہ ”مرکزی ملزم” کووعدہ گواہ بنا کر دوسرے اور تیسرے درجے کے مجرموں کو سزا دے دی جائے لیکن عمران نیازی کوئی بھی فیصلہ کر سکتا ہے کیونکہ اس نے کونسا اپنے فیصلوں پر پہرہ دینا ہوتا ہے۔
پنجاب اسمبلی کے پارلیمانی لیڈر حافظ فرحت کے راہِ فرار اختیار کرنے کے بعد اب یہ قرعہء فال علی امتیاز ورائچ کے نام نکل آیا ہے اور لطف کی بات یہ ہے کہ اس بہادر نوجوان کا فیملی بیک گراؤنڈ بھی ملٹری سے ہے جس کے بارے میں مکمل تفصیلات کیلئے ایک الگ کالم درکار ہے کہ اس جمہوریت پسند فیملی کا غیر جمہوری کردار انتہائی خوفناک ہے۔ عمران نیازی کی شیطانی کھوپڑی میں موجود دماغ اسٹیبلشمنٹ سے لڑ بھی رہا ہے اور سابق فوجیوں کے بچوں کو ہی جمہوریت کا درس دے کر ان کے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔ عمر ایوب بھی اس قبیلے کی ایک شاخ ہے جنہیں یہ جمہوریت بقول ان کے سمجھ نہیں آ رہی لیکن انہیں اپنے پڑدادا، اپنے دادا، اپنے باپ کی ”جمہوری” شکل سے بہت محبت ہے جنہوں نے مادر ملت کو غدار قرار دیا اور انہیں رسواء کرنے میں کسی شرم یا غیرت کا مظاہرہ نہیں کیا۔ آپ اس وقت پی ٹی آئی میں موجود سابق فوجیوں کے بچوں کی فہرست بنائیں تو شاید ہی ایک آدھا پیس ایسا نکل آئے جس کے باپ نے ملک کا آئین نہ توڑا ہو یا پھر پاکستان کی بربادی میں اپنا سیاسی کردار ادا نہ کیا ہو۔ ان سب کو مشترکہ ”نسبی غداری” کے رشتے نے ایک تنظیم میں لا کھڑا کیا ہے.
”منکی پاکس” کے خطرے کے پیش نظر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو متحرک کر دیا گیا ہے لیکن پاکستان کی سیاست تو 2013ء سے ”منکی پاکس” کے پھیلے وائرس سے شدید متاثر ہو چکی ہے لیکن جس ”جرأت” اور بے شرمی سے اِس ”منکی پاکس ” نے ہمارے اداروں اور نوجوانوں کے ذہنوں پر حملہ کیا ہے مجھے انتہائی افسوس سے لکھنا پڑ رھا ہے کہ ریاست نے اس کا سد باب اس طاقت سے نہیں کیا کہ انہیں ریاست کی اصل شکل نظر آ جاتی۔ انہیں معلوم پڑ جاتا کہ کسی ملک کے دفاعی اداروں پر حملہ کیسے کیا جاتا ہے۔ ہم مصلحت اور مصالحت کا شکار ہو کر ملک دشمنوں کو وقت دے رہے ہیں اور یہ ہر گزرتا لمحہ پاکستان میں بے یقینی کی فضا کو بڑھا رہا ہے۔۔عمران نیازی کے جیل سے بھی رابطے ختم نہیں ہوئے تھے، پیغام رسانیاں عروج پر رہیں اور اب آہستہ آہستہ ہم پر آشکار ہو رہا ہے کہ ہمارے اپنے ترکش کے تیر ہماری پشت میں گھس رہے تھے۔
خوارج کی بڑھتی ہوئی وارداتیں اور ہمارے جوانوں کی شہادتیں اس بات کا کھلا پتہ دے رہی ہیں کہ خوارج سے صرف داخلی ہی نہیں خارجی جنگ بھی زوروں پر ہے اور یہ ”جہنم کے کتے” ایسا صرف ہمارے داخلی دشمنوں کی ایما پر کر رہے ہیں کیونکہ ابھی تو ہمیں یاد ہے کہ خوارج کو لا کر پاکستان میں بسایا گیا تھا سو اب خوارج اپنا وہ کردار ادا کر رہے ہیں جس کیلئے انہیں لا کر پاکستان میں بسایا گیا تھا۔ خارجی اور داخلی کوئی بھی ہو جو پاکستان کی سالمیت کا دشمن ہے وہ کسی رعایت کا مستحق نہیں۔ افواج پاکستان کو اپنے کام کی رفتار بہت تیز کرنا ہو گی ورنہ بھاگتے ہوئے خارجیوں کو یہ یقین دلایا جا رہا ہے کہ ”امام الخوارج ” بس رہا ہونے کو ہے اور اس ملک میں بھی فتح کے شادیانے بج رہے ہوں گے۔ جو صحافی فیض حمید سے فیض یاب ہوتے رہے ہیں وہ کسی بھی رعایت کے مستحق نہیں کیونکہ انہوں نے پاکستان میں رہتے ہوئے، اس ملک کے وسائل استعمال کرتے ہوئے، اس ملک سے عزت و توقیر لے کر اسی ملک کے خلاف سازش کی ہے۔ فیض حمید نے ملک و قوم سے پہلے اپنے ادارے کے ساتھ غداری کی ہے اور پاکستان پر مکمل قبضے کا خواب دیکھا ہے۔ بس! اِس ٹولے کا ٹرائل کرتے ہو ایک بات ذہنوں میں ضرور رہے کہ اگر ان کی سازش کامیاب ہو جاتی تو پاکستان انسانی تاریخ کے سب سے بڑے انسانی المیے سے دوچار ہو جاتا سو یہ کسی رعایت کے مستحق نہیں بلکہ یہ کیا ان کے ہمدرد، معاون، مددگار، سہولت کار اور اب ان کی حمایت کرنے والے بھی غداری کے زمرے میں ہی آتے ہیں۔
تبصرے بند ہیں.