میرا چہرہ پڑھ حالات نہ پچھ…

23

بھلے وقتوں میں حکماء کا انسانی زندگی میں اہم کردار ہوتا تھا حالانکہ ان کے پاس کسی نامی گرامی یونیورسٹی کی ڈگری نہیں ہوتی تھی وہ انسان کی نبض پر ہاتھ رکھ کر بیماری کی تشخیص کرتے تھے اس لئے کہ وہ باپ دادا کے ’’چنڈے‘‘ ہوئے ہوتے ہیں پھر حکمت کی جگہ اناڑی آ گئے جنہوں نے کتابیں پڑھ لیں مگر عملی طور پر کچھ نہ کیا جس کی وجہ سے حکمت کا شعبہ زوال پذیر ہوا ایسے ایسے حکماء بھی دنیا میں آئے کہ بندے کا چہرہ دیکھ کر بتا دیتے تھے کہ کیا بیماری ہے آج کے پڑھے لکھے اور نامی گرامی ڈگری ہولڈر ڈاکٹرز کا سارا زور ٹیسٹوں پر ہوتا ہے انہیں پھر بھی پتہ نہیں چلتا کہ مسئلہ کیا ہے پھر مریض کو تجربہ گاہ سے گزارا جاتا ہے رنگ برنگی ادویات دے کر جس سے کئی بات تکا لگ جاتا ہے اگر تکا نہ لگے تو میانی صاحب کا راستہ کوئی نہیں روک سکتا آج پاکستانی قوم بھی ان سیاسی ڈاکٹروں کے رحم و کرم پر ہے جنہوں پورے ملک کی چولہیں ہلا کے رکھ دی ہیں آتے جاتے حکمران ایک ہی بات کرتے ہیں کہ ہم یہ کریں گے ہم وہ کریں گے جیسے بیانیے دیکر عوام کو بہکایا جاتا ہے۔ ترقیاتی منصوبوں کے نام پر اربوں لگائے جاتے ہیں بعد میں پتہ چلتا ہے کہ یہ تو ناقص ہیں کوئی گرفت میں نہیں آتا ڈی سی سے لے کر ارکان اسمبلی تک کی کمیشن ہوتی ہے کون پکڑے گا اور اس لوٹ مار کی وجہ سے؟سٹیٹ بینک آف پاکستان کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق وفاقی حکومت کے قرضے میں گزشتہ مالی سال کے دوران 8.07 کھرب روپے یا 13 فیصد کا اضافہ ہوا،اس اضافے کے بعد جون 2024 کے آخر تک مجموعی طور پر قرض کا حجم 68.9 کھرب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ قرضوں کا بوجھ صرف ایک ماہ میں 1.7 فیصد بڑھا ہے، مئی کے آخر تک یہ 67.73 کھرب روپے تھا۔قرضوں میں تیزی سے اضافے نے حکومت اور عوام دونوں کے لیے مالیاتی چیلنجز میں سنگین اضافہ کر دیا ہے۔ حکومت کو اب اپنے قرضوں کی ادائیگی اور ترقیاتی منصوبوں کی فنڈنگ میں مشکلات کا سامنا ہے جبکہ شہری نئے ٹیکسوں کا بوجھ اٹھاتے ہوئے نئے ٹیکسوں سے خدشات کا شکار ہیں۔ سابق پی ڈی ایم حکومت کی طرح مسلم لیگ نواز کی موجودہ حکومت بڑھتے ہوئے قرضوں کے باوجود اپنے اخراجات کو کم کرنے میں ناکام رہی ہے، جس سے عوام کو کچھ ریلیف اور ترقیاتی اخراجات کی سہولت مل سکتی پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے لیے بجٹ کی مختص رقم کو بڑھاتے ہوئے اخراجات کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے بار بار کم کرنے کا اعلان کیا گیالیکن حکومتی مراعات، اراکین پارلیمنٹ کی مراعات اور افسر شاہی کے اخراجات میں قابل قدر کمی نہیں آسکی، مالی سال 23 میں اقتصادی سکڑاؤ اور مالی سال 24 میں 2.4 فیصد کی معمولی شرح نمو میں اضافہ ہوا ہے اب اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ترقی کرنے کے حکومتی دعوے صرف ڈھونگ ہی نکلے ہیں آئی ایم ایف سے جان چھڑانے کے دعو ے کر نے والے قرض کے لئے ایڑھیاں رگڑ رہے ہیں ملک کو ترقی یافتہ بنانے کی باتیں کرنے والوں نے اداروں کا ستیاناس کیا ہے اور اب ایک ایک کر کے انہیں بیچنے کے درپے ہیں بولی لگائی جا رہی ہے لیکن خریدار کوئی نہیں کباڑ کو خریدنے کے لئے؟ ویسے بھی آڑھتی اپنی کمیشن پہلے مانگ رہے ہیں اس کمیشن کی وجہ سے آج ہم مانگت قوم کے نام پر پہچانے جاتے ہیں جہاں بھی جاتے ہیں آوازیں لگنا شروع ہو جاتی ہیں آ گئے نے مانگنے والے؟ پرانے حکماء کی طرح سعودیہ سمیت جہاں بھی جاتے ہیں وہ ہمارا چہرہ پڑھ لیتے ہیں‘ دوسری طرف ہمارے حکمران حضرت عمر فاروقؓ کی زندگی کی پیروی کرنے کی باتیں کرتے ہیں جو راتوں کو سوتے نہ تھے صرف اس فکر سے کہ آخرت میں پکڑ ہونی ہے جو پیروی کرنے کی باتیں کرتے ہیں ان کے پروٹوکول میں پندرہ گاڑیاں آگے اور 15 گاڑیاں پیچھے ہوتی ہیں بجلی بلوں کی وجہ سے روزانہ جھگڑے‘ قتل و غارت گری ہو رہی ہے مہنگائی نے جینا حرام کر دیا ہے اور حکمران ٹھنڈے ٹھار کمروں میں بیٹھ کر عوام کی نمائندگی کر رہے ہوتے ہیں آج حالات یہ ہیں کہ لاکھوں اور ہزاروں ماہانہ کمانے والے بھی آہ و بکا کر رہے ہیں سیاست دان آپس میں ’’لکن مٹی‘‘ کھیل رہے ہیں عوام حال و بے حال روز آئی ایم ایف کے قرض تلے دبے جا رہے ہیں احسن اقبال فرماتے ہیں دو تین سال تک حالات ٹھیک اور ملک ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو گا بتایا جائے ان دو تین سالوں میں جو عوام کے ساتھ ہوا اس کا
حساب کون دے گا؟ وزیراعظم شہباز شریف نے دو تین باتیں رٹی ہوئی ہیں کہ آئی ایم ایف سے جان چھڑانی ہے قرضوں سے ملک نہیں چل سکتا، سالانہ اربوں کی بجلی چوری ہوتی ہے اس طرح کے بیان دیکر وہ لوگوں میں نہ جانے کون سا جوش ولولہ پیدا کرنا چاہتے ہیں انکی منطق کو آج تک کوکئی نہیں سمجھ سکا 9مئی واقعہ کے ڈیڑھ سال بعد بھی فوٹیج ہی چل رہی ہیں عدالتوں کا وقت اور قوم کا پیسہ ضائع کیا جا رہا ہے ناکام پراسیکیوٹرز کی وجہ سے یہ کیس کمزور ہوا جو خزانے پر بوجھ ہیں 9مئی واقعہ میں جو فوٹیج سے پکڑے گئے انہیں کیوں نہیں اب تک سزا ملی‘ اب ڈیڑھ سال بعد جا کر فیض حمید گینگ کو پکڑا جا رہا ہے کیا حساس ادارے اتنے ہی کمزور ہیں کہ ملزموں کو اب تک کٹہرے میں نہیں لایا جا سکا؟ قارئین جب تک حکمران‘ جج‘ جرنیل قلمکار اور محب وطن ایک پیج پر نہیں آتے یہ ملک ترقی نہیں کر سکتا اس کے لئے ضروری ہے کہ ملک کے لئے سوچا جائے اپنا نہیں اور ہم جب ملک کا سوچیں گے تو ملک ترقی کرے گا اور قوم خوشحال ہوگی ورنہ ایک وقت آئے گا ہمیں کوئی دلاسہ دینے والا بھی نہیں ہو گا!آخر میں بس اتنا ہی کہ
توں شاکر آپ سیانا ایں
میرا چہرہ پڑھ حالات نہ پچھ

تبصرے بند ہیں.