خوراک سب کے لیے

13

نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پبلک پالیسی (NIPP) حکومت پاکستان کا ایک ایسا ادارہ ہے جو حکومت کو مختلف اہم موضوعات پر تحقیق کر کے پالیسی سازی کی سفارشات پیش کرتا ہے۔ یہ ادارہ نیشنل سکول آف پبلک پالیسی (NSPP) کا اہم حصہ ہے۔ NIPP حکومت کو آزادانہ طور پر سفارشات پیش کرتا ہے۔ ملکی، بین الاقوامی اداروں کے اشتراک اور ماہرین کی اجتماعی دانش کے ذریعے، قومی اہمیت کے معاملات پر پالیسی سازی، معاملات میں بہتری اور حکومتی فیصلہ سازی میں معاملہ فہمی اور انتظامی امور میں حقیقی بہتری لانے میں معاونت کا فریضہ سر انجام دیتا ہے۔ یہاں نامور شخصیات شعبہ جاتی ماہرین، ملکی و غیر ملکی اداروں کے نمائندگان اور تحقیق و تالیف سے وابستہ ماہرین کو دعوت دی جاتی ہے جو سر جوڑ کر بیٹھتے ہیں اور کسی طے کردہ ایشو پر اس کے حل کے تجاویز تیار کرتے ہیں جو سرکاری پالیسیوں کا حصہ بنتی ہیں اور اس طرح معاملات آگے بڑھتے ہیں۔

ملک کے کئی نامور ماہرین بیوروکریٹ اور محققین اس ادارے کی سربراہی کر چکے ہیں۔ آج کل جوان ہمت، روشن خیال اور وژنری سینئر بیوروکریٹ ڈاکٹر نوید الٰہی NIPP کے ڈین ہیں۔ انہوں نے اس ادارے کو اس کے حقیقی مینڈیٹ کے مطابق چلانے بلکہ دوڑانے کا عزم کر رکھا ہے۔ وہ امید کی ایک کرن نہیں بلکہ حقیقی تبدیلی اور مثبت آئوٹ کم یہ یقین ہی نہیں رکھتے بلکہ اس کو عملی صورت میں دیکھنے کے لیے کاوش بھی کرتے ہیں۔ پاکستان کے جاری مسائل کے بارے میں ان کا نقطہ نظر مثبت، امید افزا اور حقیقت پسندانہ ہے۔ حال ہی میں انہوں نے ’’فوڈ سکیورٹی‘‘ کے موضوع پر ایک دو روزہ قومی کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں چاروں صوبوں کے ماہرین، ادارہ جاتی نمائندگان، ورلڈ فوڈ آرگنائزیشن اور کسانوں کے نمائندوں کے علاوہ، یونیورسٹیوں کے محققین نے شرکت کی۔ اس کانفرنس میں ریٹائرڈ اور حاضر سروس شعبہ جاتی ماہر بیوروکریٹس اور نامور صحافیوں نے شرکت کی۔ دو روزہ کانفرنس کے مجموعی طور پر 7سیشن ہوئے۔ صبح 9 بجے تا 4 بجے سہ پہر جاری رہنے والے ان سیشنز میں ماہرین نے بھرپور انداز میں حصہ لیا۔ ’’خوراک سب کے لیے، دستیاب، قابل رسائی، قابل خرید، کھانے کے قابل‘‘ کے موضوع پر سیر حاصل گفتگو ہوئی۔
کانفرنس کے افتتاحی سیشن میں پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کے وزیر احسن اقبال بھی شریک ہوئے۔ انہوں نے اپنی حکومت کی ترجیحات بیان کیں، اپنی پارٹی کے سابقہ ادوار حکومت کے وژن اور میگا پراجیکٹس کا ذکر کیا۔ منصوبہ سازی کے نتیجہ خیز نہ ہونے کے بارے میں بھی بتایا۔ انتہائی اہم بات جو انہوں نے بتائی کہ کسی بھی پالیسی کے بارآور اور نتیجہ خیز ہونے کے لیے اسے کم از کم دس سال تک نافذ العمل رکھنا ضروری ہے۔ ویسے ڈاکٹر نوید الٰہی صاحب اپنی گفتگو میں عموماً ہندوستان کی مثال دیتے ہیں جب من موہن سنگھ نے بطور وزیراعظم بھارت سرکار کی باگ ڈور سنبھالی تو اس وقت بھارتی معیشت ڈوبی ہوئی تھی۔ زرمبادلہ کے ذخائر نہ ہونے کے برابر تھے۔ بھارتی کرنسی بالکل بے وقعت تھی۔ من موہن سنگھ ماہر معاشیات ہونے کے ساتھ محب وطن ہندوستانی اور عوام کے ساتھ جڑے ہوئے تھے۔ انہیں اس وقت کی عوامی جماعت کانگریس کی مکمل تائید بھی حاصل تھی۔ انہوں نے بھارتی معیشت کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کے لیے پالیسیاں تشکیل دیں۔ ان کے بعد آنے والی حکمران جماعتوں نے بھی ان کی شروع کردہ پالیسیوں پر عمل جاری رکھا۔ آج بھارت عالمی معاشی میدان میں ایک انتہائی اہم کھلاڑی کے طور پر اپنا آپ منوایا ہے۔

ڈاکٹر نوید الٰہی پاکستان کے بارے میں بھی ایسے ہی خیالات رکھتے ہیں کہ پاکستان کو اقوام عالم میں معزز مقام دلانے کے لیے موثر حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ احسن اقبال نے بھی من موہن سنگھ کی مثال دی اور بتایا کہ اگر ان کی اختیار کردہ پالیسیوں اور وژن 2010ء اور وژن 2025ء کو مکمل ہونے دیا جاتا تو آج پاکستان ایسی معاشی بدحالی کا شکار نہ ہوتا لیکن سیاسی عدم استحکام اور ریاستی مداخلت کے باعث پالیسیوں پر عملدرآمد نہیں ہو سکا جس کے باعت ہم آج بدحالی کا شکار ہیں۔ انہوں نے CPEL کو پاکستان کے لیے انتہائی اہم قرار دیا۔

نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پبلک پالیسی کے مطابق پاکستان خوراک کی دستیابی کے اعتبار سے خودکفالت کی منزل سے بھی آگے نکل گیا ہے یعنی ہم اجناس کی پیداوار میں اپنی ضروریات سے زائد پیدا کرتے ہیں لیکن پاکستان کی 40 فیصد آبادی خوراک کی عدم دستیابی کا شکار ہے۔ بنیادی طور پر خوراک دستیاب تو ہے لیکن اسے خریدنے کی استطاعت پر بہت بڑا سوال ہے۔ خوراک دستیاب ہے لیکن اسے خریدنے کی قوت دن بہ دن گھٹتی چلی جا رہی ہے۔ عالمی ادارہ خوراک کی نمائندہ مس فلورنس رولے کے مطابق فوڈ سکیورٹی انڈکس میں پاکستان کا 113ممالک میں 84 واں نمبر ہے یعنی خوراک کے حصول یا خریدنے کے حوالے سے پاکستان خاصی پست پوزیشن پر ہے۔ کانفرنس میں ایک بات بڑی شدت سے بیان کی گئی کہ آبادی کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ اجناس کی پیداوار میں جس قدر اضافہ ہونا چاہئے وہ نہیں ہو رہا ہے۔ ہمارے کسان اب بھی صدیوں پرانے پیداواری طریقوں پر انحصار کرتے ہیں جس کی وجہ سے پیداوار کی افزائش کی شرح وہ نہیں جو ملکی ضروریات کے لیے ضروری ہے۔ دوسری طرف زرعی زمین ختم کر کے بڑے تیزی سے ہائوسنگ سوسائٹیاں بنائی جا رہی ہیں۔ زراعت کے دستیاب رقبے میں بتدریج کمی بھی خوراک کی وافر مقدار میں دستیابی کو مشکل بنا دے گی۔ دوسری طرف دیہاتی آبادی کا بتدریج شہروں کی طرف رخ کرنے کا رجحان بھی پریشان کن ہے۔ پاکستان کی قومی پیداوار میں زراعت سب سے بڑا عامل ہے۔ قومی آمدنی میں زراعت کا حصہ 23 فیصد یا اس سے زائد ہے۔ برآمدات میں زرعی پیداوار کا حصہ 50/60 فیصد تک ہوتا ہے لیکن کسان اتحاد کے رہنما خالد محمود کھوکھر کے مطابق زراعت اور کسان کسی بھی حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں رہے ہیں۔ 2023ء میں زراعت کی گروتھ 6.5 فیصد تھی جبکہ قومی معیشت کی گروتھ 1.8یا اس کے قریب تھی لیکن حکومت نے گندم کی خریداری کے حوالے سے جو بدانتظامی دکھائی اس کے باعث کسان رل گئے اور اب 2024ء میں زراعت کی گروتھ میں 40 فیصد تک کمی ہو سکتی ہے۔ کھوکھر صاحب نے حکومت کو کھری کھری سنائیں اور کسان کی قابل رحم حالات بارے گفتگو کی۔ احسن اقبال اس سے پہلے بتا چکے تھے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے حکومت چین سے گزارش کی ہے کہ پاکستان کے کم از کم 1000 زراعت پیشہ افراد کو جدید ترین طرز کاشتکاری میں تربیت دی جائے جس کا خرچہ حکومت برداشت کریگی تاکہ کسان کو جدید دنیا سے آگاہ کر کے زراعت کے شعبہ کو ترقی دی جا سکے۔
اتنی مفید اور اعلیٰ کانفرنس کے انعقاد کے لیے ڈاکٹر نوید الٰہی حقیقی مبارکباد کے مستحق ہیں۔ ایسے ہی بیوروکریٹس پاکستان کے نظم و نسق چلانے کے ذمہ دار ہیں اور پاکستان اگر آگے بڑھ رہا ہے تو وہ ایسے ہی افسران کا مرہون منت ہے۔ شاباش ڈاکٹر نوید الٰہی۔

تبصرے بند ہیں.