” روٹھے ہو تم تم کو کیسے مناؤں پیا”،” اے جذبہ دل گر میں چاہوں”، بلبل پاکستان نیرہ نوراپنے سروں کے ساتھ ہمارے درمیان رہیں گی

134

تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجنا، روٹھے ہو تم تم کو کیسے مناؤں پیا،  وطن کی مٹی گواہ رہنا ، ’کبھی ہم خوبصورت تھے‘، اے جذبہ دل گر میں چاہوں، جلے تو جلاؤ گوری،  ’اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں‘ ، یہ سب سنہرے دور کے گانے ہیں، ان کو سن کر  گلوکارہ نیرہ نور  کی یاد آتی ہے۔ نیرہ نور کو بلبل پاکستان بھی کہاجاتا تھا۔ بلبل پاکستان نیرہ نور کی آج   دوسری برسی ہے۔

نیرہ نور جب پی ٹی وی کے پروگراموں میں شرکت کرتیں تو ان کی شخصیات انتہائی الگ تھلگ ہوتی، وہ انتہائی کم گو ، خوش لباس   شخصیت تھی۔ انہوں نے اکثر چوٹی کی ہوتی تھی۔ ان کے حلیہ کو دیکھ کو کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا کہ وہ   شستہ اردو کو   انتہائی  سریلا  گاتی ۔ نیرہ نور گانا گانے سے پہلے سٹیج پر   ایسے بیٹھتی جیسے  کوئی شخصیت کسی مشاعرے میں شرکت کررہی ہے۔

بلبل پاکستان اپنے سروں کے ساتھ ہمارے درمیان رہیں گی۔لیجنڈری گلوکارہ نیرہ نور نے لاتعداد مشاعروں اور موسیقی کی محفلوں میں اپنی آواز سے شعروں کو زندگی بخشی۔

نیرہ نور 1950 میں انڈیا کی ریاست آسام میں پیدا ہوئیں۔ وہ اپنی والدہ اور بہن بھائیوں کے ساتھ  1957 اور 1958 کے بیچ ہجرت کر کے پاکستان آئیں اور کراچی میں رہنے لگیں۔1968 میں پروفیسر اسرار احمد نے نیرہ نور کو این سی اے میں گاتے سنا اور اس کے بعد انہیں ریڈیو پاکستان لے کر گئے جہاں سے انہوں نے گانے کا آغاز کیا۔

نیشنل کالج آف آرٹس جہاں نیرہ پڑھتی تھیں وہاں سے وہ پہلے یونیورسٹی پھر ریڈیو اور ٹی وی پر گانے لگیں۔ انہوں نے ٹال مٹول، اکر بکڑ اور گپ شپ کے لیے گایا اور پھر بعد میں یہ سلسلہ چلتا چلا گیا۔نیرہ نور کو پی ٹی وی پر فیض احمد فیض کی بیٹی منیزہ ہاشمی نے متعارف کروایا تھا۔
1971 میں نیرہ نور نے باقاعدہ پی ٹی وی کے ڈرامہ سیریلز کے ساؤنڈ ٹریک گانے شروع کیے اور پھر فلموں کے گانے بھی گانے شروع کیے۔ انہوں نے فیض احمد فیض، غالب، احمد شمیم، ناصر کاظمی ابن انشا اور دیگر مشہور شعرا کا کلام ظم اور غزل کی صورت میں گایا۔

14اگست کو یوم آزادی کے موقعے پر ان کا گایا ملی نغمہ ’وطن کی مٹی گواہ رہنا‘ دہائیوں پہلے بھی شوق اور جذبے سے سنا جاتا تھا ۔ان کے معروف گانوں ملی نغموں اور غزلوں میں، تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجنا، روٹھے ہو تم تم کو کیسے مناؤں پیا، آج بازار میں پا بجولاں چلو، کہاں ہو تم چلے آؤ،  وطن کی مٹی گواہ رہنا ، ’کبھی ہم خوبصورت تھے‘، اے جذبہ دل گر میں چاہوں، جلے تو جلاؤ گوری، پھر ساون رت کی پون چلی تم یاد آئے، اے عشق ہمیں برباد نہ کر،فلم گھرانہ کا گانا تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجنا، فلم فرض اور مامتا میں گایا گیا ملی نغمہ ’اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں‘ وغیرہ شامل ہیں۔
نیرہ نے باقاعدہ موسیقی کی تعلیم حاصل نہیں کی لیکن وہ کہتی تھی کہ لوگوں کی توقعات کو دیکھتے ہوئے میں نے ریاض کرنا شروع کیا۔ان کی شادی ساتھی گلوکار شہریار زیدی سے ہوئی جو کہ اب اداکاری کے شعبے میں نمایاں ہیں۔ ان کے دو بیٹے ہیں۔وہ کہتی تھیں کہ میری ترجیح ہمیشہ گھر اور بچے ہوتے تھے، لیکن کوشش کی کہ ریاض بھی جاری رکھوں۔

نیرہ نور نے اپنے دور میں فلم اور ٹی وی کے لیے ہر بڑے موسیقار کے ساتھ کام کیا۔نیرہ نور کے بارے میں کسی نے سچ  ہی کہا تھا کہ جو غزلیں اور نظمیں نیرہ نور نے گائیں وہ پھر انہی کی ہوگئیں، شاعروں کے نام پیچھے رہ گئے۔ایک سنہری عہد تھا جو تمام ہوا ۔

تبصرے بند ہیں.