یہ اللہ رب العزت کا احسان ہے کہ اس کریم ذات نے اس بندہ خطار کار کو گزشتہ دنوں اپنی اہلیہ محترمہ اور دیگر کچھ اہلِ خاندان کے ہمراہ عمرے کی سعادت نصیب فرمائی۔ کافی عرصے سے یہ خیال اور ارادہ چلا آ رہا تھا کہ اہلیہ محترمہ اپنے کچھ مسائل جن میں صحت اور محرم کے ہمراہ ہونے کے مسائل نمایاں تھے کی بنا پر اگر حج کے سفر پر نہیں جا سکتیں تو کم از کم عمرہ کی ادائیگی کے لیے ان کے سفر حرمین شریفین کا ضرور بندوبست ہونا چاہیے۔ میں جس نے ستمبر۔ اکتوبر ۱۹۸۳ء میں اپنی والدہ محترمہ بے جی مرحومہ و مغفورہ اور اپنے بڑے بھائی حاجی ملک غلام رزاق جو ریاض سعودی عرب میں پاکستانی فوجی دستے کے ساتھ ڈیپوٹیشن پر گئے ہوئے تھے کے ہمراہ ان کی طرف سے سپانسر شپ سکیم کے تحت (حجِ اکبر) کی سعادت حاصل کر رکھی تھی۔ اب حرمین شریفین کا سفر کرنے سے اس بنا پر کچھ متردد تھا کہ صحت اور کچھ دیگر مسائل کی وجہ سے مجھ سے کہیں کعبہ مشرفہ، مسجد الحرام، مسجد نبویؐ اور روضہِ رسولؐ جیسے ہمارے ایمان و یقین کے مراکز مقدس ترین مقامات کے تقدس اور حرمت میں کچھ کمی نہ رہ جائے۔ اس سوچ کے ساتھ یہ خواہش بہر کیف موجود تھی کہ اہلیہ محترمہ کو عمرے کے لیے ضرور جانا چاہیے اور میرے جائے بغیر چارہ نہ ہو تو مجھے بھی ضرور ساتھ دینا چاہیے۔ اللہ کریم کی طرف سے ایسا ہوا کہ میرے قریبی عزیزوں، میرے بھتیجے عمران ملک، اس کی والدہ (میری بڑی بھابھی) اس کی بہن (میری بھتیجی)، عمران کی خالہ اور خالہ زاد بھائی واجد ملک کا بھی عمرے کا پروگرام سامنے آ گیا اور انہوں نے ارجنٹ فیس کے ساتھ پاسپورٹ بننے کے لیے دے دئیے۔ میرے مقدر نے بھی یاوری کی اور مجھ جیسے گناہ گار اور خطار کار کو ایک بار پھر اللہ کریم کے مقدس ترین گھر جس کے بارے میں اقبال نے کہہ رکھا ہے کہ ’دنیا کے بت کدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا‘ کی زیارت اور مسجد نبویؐ اور روضہ رسولؐ پر حاضری کی سعادت نصیب ہونا تھی کہ اہلیہ محترمہ سمیت عزیزوں کے ساتھ ہمارا بھی سفر ِحرمین شریفین کا پروگرام بن گیا۔ اسلام آباد میں اپنے محسن، مربی اور مہربان ملک غلام مصطفےٰ جنہوں نے پراپرٹی کے کاروبار کے ساتھ حج و عمرہ کے لیے مہر ٹریول کے نام سے ایک ادارہ بھی قائم کر رکھا ہے اور کئی بار مجھ سے عمرے پر جانے کے لیے کہہ چکے تھے، اُن سے بات ہوئی تو انہوں نے میری اور میری اہلیہ اور بھتیجے عمران، اس کی والدہ، بہن، خالہ اور خالہ زاد بھائی کُل سات افراد کے عمرے کے ویزے اور ہوائی جہاز کے ٹکٹوں کی بکنگ کے لیے ضروری اقدامات کرنا شروع کر دئیے۔ ابتدائی طور پر اکیس (۲۱) دنوں کا پروگرام بنا اس کے مطابق بکنگ اور دیگر انتظامات کیے گئے تاہم میرے دل میں حرمین شریفین میں اکیس کے بجائے چودہ دن کے قیام کا خیال بھی موجود تھا۔ پھر ایک دو محترم احباب نے بھی اس خیال کی تائید کی تو ملک غلام مصطفےٰ کو اس کے مطابق ہوائی جہاز کے ٹکٹوں اور مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں ہمارے (میرے اور اہلیہ محترمہ کے) قیام کو از سرِ نو ترتیب دینا پڑا۔ اس طرح ۱۷ جولائی کی رات تین بجے سعودی ائیر لائن میں اسلام آباد سے جدہ کے لیے روانگی کا پروگرام فائنل ہوا جبکہ دیگر اہلِ خاندان جن کا اوپر ذکر ہوا ہے انہوں نے ائیر سیال کے ذریعے ۱۷ جولائی کی صبح ۶ بجے یہاں سے روانہ ہونا تھا۔
جدہ روانگی کے لیے اپنے بیٹے حارث ملک کے ہمراہ رات دس بجے اسلام آباد ائیر پورٹ پہنچے تو بیٹی اور داماد جیلانی ملک بھی ہمارے ہمراہ تھے۔ اسلام آباد ائیر پورٹ کو پہلی بار دیکھ رہا تھا۔ دور تک پھیلا ہوا پارکنگ ایریا، تیز روشنیاں اور ان کے ساتھ مسافروں کی آمد اور روانگی کے وسیع و عریض لاؤنجز اور کسی بھی پرواز کے لیے ایک سے زیادہ کاؤنٹر، بلا شبہ اسلام آباد کے جدید ترین انٹرنیشنل ائیر پورٹ ہونے کے دلالت کرتے ہیں۔ انٹر نیشنل ڈیپارچر کے لاؤنج میں ہمیں اپنے سامان کی کلیئرنس اور اسے جمع کرانے میں کچھ ہی وقت لگا۔ بورڈنگ کارڈز بھی جلد مل گئے اور پاسپورٹ پر (Exit) کی مہر یں بھی لگ گئیں۔ اس کے ساتھ ہمیں بتایا گیا کہ گیٹ نمبر ۳ کے باہر ویٹنگ لاؤنج میں چلے جائیں وہاں سے روانگی ہو گی۔
ابھی رات کے گیارہ بجے تھے۔ طیارے کی روانگی کا وقت ۳ بجے صبح تھا اس طرح ہمارے پاس کافی وقت تھا تاہم اس دوران ہم نے احرام باندھ کر عمرے کی نیت اور دو نفل ادا کرنا تھے۔ اس کے لیے ہمیں روانگی کے لیے بڑے لاؤنج میں وضو کے لیے بنے غسل خانوں، احرام باندھنے کے لیے مخصوص جگہوں اور نوافل ادا کرنے کے احاطے میں واپس آنا تھا۔ ایک دو گھنٹے ہم نے انتظار میں گزار دئیے۔ اس دوران فو ن پر بیٹے حارث ملک سے بھی رابطہ رہا جس نے بتایا کہ ہمارے دیگر عزیزان (اہلِ خاندان) جن کی صبح کی فلائٹ ہے وہ بھی ائیر پورٹ پر آ چکے ہیں۔ ایک بجے کے لگ بھگ ہم احرام باندھنے اور نفل ادا کرنے کے لیے لاؤنج کے مخصوص حصے میں پہنچے۔ وضو کر کے احرام باندھے اور عمرہ ادا کرنے کے نیت کی۔ تلبیہ لبیک اللھم لبیک لا شریکَ۔۔۔۔ کئی بار دہرایا اور نفل ادا کرنے کے بعد واپس گیٹ نمبر ۳ کے باہر لاؤنج میں پہنچ گئے۔ کچھ ہی دیر میں طیارے میں سوار ہونے کے لیے لائن بننا شروع ہو گئی۔ میں اور اہلیہ محترمہ ذرا انتظار میں رہے کہ رش کم ہو تو پھر ہم قطار میں شامل ہوں گے۔ اس طرح ہم طیارے میں سوار ہونے والی قطار میں کچھ آخر میں ہی رہے۔ ایک ہاتھ میں جہاز میں ساتھ اٹھا کر لے جانے والے HAND CARRY بیگ کو اٹھائے رکھا اور دوسرے ہاتھ میں بورڈنگ کارڈ اور اس طرح ہم طیارے میں داخل ہو گئے۔ (جاری ہے)
تبصرے بند ہیں.