بانی پی ٹی آئی 92 ورلڈ کپ سے پہلے ہی ایک مقبول کرکٹر تھے، استعفیٰ دیا مگر ضیا الحق کے کہنے پر واپس ٹیم میں آ گئے، یوں آگے چل کر ورلڈ کپ آ گیا۔ ضیا کی دلچسپی Joen Henry کی یہودیہ جو ضیا کے قریب تھیں یا دوستی کا دعویٰ کرتی تھیں نے عمران کی سفارش کی تھی کہ اس کا خیال رکھیں۔ افغان وار میں چھلانگ لگانے میں بھی اس کی خواہش شامل تھی۔ محبت میں دل نہیں توڑے جاتے، ملک کی خیر ہے۔ بہرحال یہ حقیقت کبھی ضرور سب کو معلوم ہو گی جیسے آج جنرل (ر) فیض حمید کی باتیں اور وہ باتیں جو 2017ء سے زبان زد عام تھیں آج مقدمات اور واقعات کی صورت میں تاریخ کا مصدقہ حصہ بننے جا رہی ہیں۔ موجودہ صورتحال کے لیے بھی ماضی قریب کے دریچے دروازے کھولنا پڑتے ہیں۔ عمران نیازی نے جب سیاست میں قدم رکھا اس سے پہلے ایک بھارتی ٹی وی کو انٹرویو دے چکے تھے کہ سیاست میں آنے سے بہتر ہے میں اپنے آپ کو گولی مار لوں۔ موصوف اپنے آپ کو مارنے خودکشی کرنے کا بہت ذکر کرتے ہیں مگر کام وہی کرتے ہیں جس پر مرنے کو ترجیح دے چکے ہوں۔ جب سیاست میں آئے تو ایک دن ٹی وی پروگرام تب پی ٹی وی ہی تھا ماضی کے معروف کرکٹر ظہیر عباس آئے ہوئے تھے۔ میزبان نے سوال کیا کہ آپ اور عمران دس سال روم میٹ رہے، اب وہ سیاست میں آئے ہیں آپ کیا کہیں گے؟ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ جو میری آنکھوں نے دیکھا ہے وہ دنیا میں کسی نے نہیں دیکھا اور بات ختم کرتے ہوئے اگلے سوال کی جانب بڑھ گئے۔
قارئین! آپ نے Pace جو کاروباری پلازہ گلبرگ میں بنا نام بھی سنا ہو گا اور وہ موجود بھی ہے وہ Pace انگلینڈ پلٹ میاں بشیر نے بنایا تھا۔ محب وطن آدمی تھے۔ 1992ء کے کپ کا ”سانحہ“ ہو چکا تھا۔ عمران نیازی مقبولیت کے گھوڑے پر سوار تھا۔ میاں بشیر نے عمران کے نام کو شامل کر کے پلازے کے لیے لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے 10فیصد ایک ٹکہ انویسٹ کیے بغیر کی شراکت داری دے دی۔ بس پھر کبھی کوئی دوبئی اور کبھی کوئی کسی اور ملک کا دوست جو پاکستانی تھا ظاہر ہوتے، عمران خان لائے گئے۔ 25 فیصد، 35 فیصد، 10 فیصد حصص دینے جو تحریر میں آئے مگر عملی طور پر میاں بشیر صاحب کو ڈھائی فیصد بھی نہ ملتے۔ پھر وقت آیا کہ میاں بشیر سڑک پر روتے اور روداد سناتے پائے گئے حتیٰ کہ قبر میں اتر گئے۔ ایک فلٹر بنانے والی کمپنی کے مالک کا نو عمر بیٹا عمران کا بڑا فین تھا۔ اس نے ضد کی کہ میں نے عمران کے ساتھ فوٹو بنوانی ہے۔ وہ عمران نیازی کے والد سے وقت لے کر ان کے گھر زمان پارک آ گئے۔ اکرام اللہ نیازی نے ان کی خاطر مدارت کی۔ نیازی صاحب کو آواز دی اور خود ہی کہہ دیا کہ ورزش میں مصروف ہو گا۔ کوئی دس آوازیں دیں مگر موصوف نے باپ کی نہ سنی۔ باپ تو عادی تھا مگر فلٹر کمپنی کا مالک اور بیٹا اپنا سا منہ لے کر واپس آ گئے۔ مجھے کیونکہ کرکٹ سے دلچسپی نہیں۔ میں ہر سال بسنت کے دوسرے دن عمران خان کی چند لڑکیوں کے جھرمٹ میں میاں صلی کے حویلی میں اخبار پر چھپنے والی بسنت کے سلسلہ میں تصویریں دیکھتا تھا۔ یوں سال میں ایک بار موصوف کرکٹ کے علاوہ بسنت میں نظر آتے۔ وجہ شہرت ان کے بقول پلے بوائے تھی۔
اب ایک اور منظر آپ نے پولیس سے بچتے ہوئے منور ظریف کی طرح دیوار پھلانگ کر بھاگتے ہوئے نیازی صاحب کی تصویر تو دیکھی ہی ہو گی۔ عدم اعتماد کی رات ٹی وی چینلز پر چلنے والی خبر ایئرپورٹس بند کر دیئے گئے، عدالتوں کے دروازے کھل گئے، پرزنر وین آ گئی، سنی تو ہو گی اور اگلی خبر فوٹیج کے ساتھ موصوف ڈائری لیے وزیراعظم ہاؤس چھوڑے جا رہے ہیں۔ ایک عدالتی پیشی پر وہیل چیئر پر گئے، ٹانگ میں ”سپرین“ لگی تھی جب قانون نافذ کرنے والے اداروں نے پکڑا تو ان سے بھی تیز تیز بھاگتے ہوئے مہینوں سے زخمی ٹانگ درست ہو گئی۔ آگے چلئے کوئی ایسی بات نہیں جس پر یو ٹرن نہ لیا ہو، حکومت کے دوران کرپشن، ظلم، جھوٹ، فسطائیت کے علاوہ کوئی کارنامہ نہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنا وقت جیل میں کیسے گزار رہے ہیں۔ ایک تو فیض حمید کا متوازی نیٹ ورک بہت سے سیاست دانوں، بیوروکریٹس، اینکرز کو یقین دلا چکا تھا کہ عمران نے ہی آنا ہے۔ 8کمروں میں مقیم شخص کو وہ سہولتیں حاصل ہیں جو اپنی مثال آپ ہیں لہٰذا نیٹ ورک کی رپورٹیں، بین الاقوامی پاکستان مخالف قوتوں کا ساتھ اندرون ملک اداروں کی جانبداری اور حمایت سے کلٹ فالوئنگ مبتلا شخص ہر روز جوتا پہن کر سوتا تھا کہ کل انقلاب آ جائے گا کہیں باہر آنے کی جلدی میں جوتے پہننے یاد نہ رہیں۔ کوئی ایک دوست نہیں جس سے وفا کی ہو۔ جو ان کو ٹیم میں لائے حسد کی بنا پر ان کو نکال دیا۔ چند مناظر ثاقب نثار کے ہیں …… نوازشریف وزیراعظم بنے تو ان کے ہاں بہت بڑا کٹھ تھا۔ بہت لمبی میز تھی، بہت لوگ تھے، انور بار ایٹ لا کے بیٹے وہ بھی وکیل تھے میاں صاحب سے بہت تعلق تھا۔ ثاقب نثار اردگرد ہی منڈلا رہے…… نے ثاقب نثار کو بلایا یہ سامنے کھڑے تھے کہا کہ میاں صاحب آپ کو جج بنا رہے ہیں۔ یہ تفصیلات سننے کے لیے بجائے اس کے کہ میز کے اوپر سے عزت دار لوگوں کی طرح چل کر آتے فوراً میمنے کی طرح میز کے نیچے سے ہی ڈبکی لگا کر ان میں شامل ہو گئے۔ آگے چل کر وطن عزیز کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بن گئے اور حالات یہاں لے آئے کہ ملک انتشار کا گہوارہ بن گیا۔ ایک دفعہ بطور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ بار میں تشریف لائے۔ اپنے ساتھ گورایہ صاحب کو لے آئے جو رجسٹرار وغیرہ تھے۔ انہوں نے بار میں بڑی دلپذیر تقریر کی اور کیا انوپم کھیر نے اداکاری کرنی ہے۔ تقریر کے دوران رو پڑے، تقریب ختم ہوئی۔
گھر واپس ہوئے تو اپنے رونے کی داد وصول کرنے کے لیے گورایہ سے کہتے ہیں بتاؤ میں نے کیسا کیا؟ یعنی ڈرامہ۔ عمران کو لانے میں کون کون جج کون جرنیل شامل رہا سب کو معلوم ہے۔ نیازی کی کارکردگی بھی سب جانتے ہیں۔ عدم اعتماد والے دن آج بھی بہت سے لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ سال بھر تو رہ گیا تھا ملک کی اتنی بُری حالت ہو چکی تھی مخالفین یعنی میاں نوازشریف (خاص طور پر) اور بلاول بھٹو کو اقتدار میں آنے کی کیا ضرورت تھی۔ یقینا ان کو بھی معلوم تھا اور وہ راضی بھی نہیں تھے لیکن معاشی حالت اور بین الاقوامی تنہائی کے لیے ضروری تھا اور سب سے بڑھ کر دو خوفناک، خطرناک، ظالم ترین لوگوں کے مارشل لا سے ملک بچ گیا، میری مراد فیض حمید اور عمران خان کے ارادے پروگرام اور بندوبست، عدم اعتماد کی رات ایک سلیکٹڈ حکومت ہی ختم نہیں ہوئی تھی ایک نئے مارشل لا اور بدترین فسطائیت سے چھٹکارہ ملا تھا۔
تبصرے بند ہیں.