بلوچستان میں دہشت گردی

37

ایرانی سرحد سے ملحقہ ضلع چاغی کے ضلعی ہیڈکوارٹر و کم آبادی کے تاریخی شہر دالبندین میں پانچ افراد کو موت کے گھاٹ اتارنے کے بعد ان کی لاشوں کو بوائز کالج کے قریب کھمبوں کے ساتھ باندھ دیا گیا دہشت گردی کے اس انوکھے اور بھیانک واقعہ کی ذمہ داری ابھی تک کسی کالعدم تنظیم نے قبول نہیں کی نہ مقتولین کی شناخت ہو سکی مگر سوشل میڈیا پر گردش کرتی غیر تصدیق شدہ ویڈیو کے مطابق بلوچی بولنے والا ایک شخص 4 پشتو زبان بولنے والے جو اپنا تعلق افغانستان کے صوبہ ہلمند سے بتاتے ہوئے جیش العدل کے رہنما مراد نوتیزئی عرف طارق کے قتل کا اعتراف کر رہے ہیں۔خوارج کی شدت پسند تنظیم جیش العدل اس نوعیت کی دہشت گردی و قتل غارت کرتے ہوئے ان کی ذمہ داریاں قبول کرتی رہی ہے یہ تنظیم ضلع چاغی اور متصل سرحدی ضلع واشک میں کافی سرگرم ہے جس کا ہیڈ کوارٹر پنجگور سے 90 کلومیٹر دور مغرب میں انتہائی دشوار گزار علاقے کے سرحدی گاؤں سبز کوہ میں قائم ہے۔ 15 جنوری کو ایرانی فورسز نے فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس گاؤں پر راکٹ داغے تھے جس سے رہائشی علاقے کے دو معصوم بچے ہلاک اور 3 بچیاں زخمی ہوئیں۔ 2011 میں منظر عام پر آنے والی یہ ایک عسکریت اور علیحدگی پسند تنظیم ہے جیش العدل کا معنی ہے انصاف کی فوج تاہم اسے ایران میں اسے جیش الظلم کے نام سے لکھا و پکارا جاتا ہے۔ پولیس کے مطابق قتل ہونے افراد 22 سے 27 سال عمر کے تھے 10 سے 15 گھنٹے قبل 5 سے 7 گولیاں ان کے سینوں میں اتارتے ہوئے دہشت گردی کی بھینٹ چڑھا کر دالبندین شہر سے تین کلومیٹر دور براستہ تفتان ایران جانے والی نیشنل ہائی وے 40 سے جنوب جانب بوائز کالج کے قریب کھمبوں ساتھ باندھ دیا گیا۔ یہ علاقہ کوئٹہ سے 350 کلومیٹر دور اور ایران عراق جانے والے زائرین و دیگر افراد اسی راستے سے ایران جاتے ہیں سرحدی قصبہ تفتان کے دوسری جانب ایرانی قصبہ میر حاوہ ہے جہاں سے گذر کر دو گھنٹے کی مسافت سے زاہدان پہنچا جاتا ہے۔ ایران جانے والی ریلوے لائن بھی دالبندین سے گذر کر جاتی ہے یہاں چھوٹا سا ائیر پورٹ بھی قائم ہے۔ افغانستان اور ایران کی سرحدوں کے ساتھ تقریباً 20 ہزار نفوس کی آبادی پر مشتمل یہ تاریخی چھوٹا سا ایک خوبصورت شہر ہے جس میں ہیر سید کرم شاہ بابا کا مزار واقع ہے جبکہ جنوب میں چاغی کا وہ تاریخی مقام راسکوہ جہاں پر پاکستان نے ایٹمی تجربہ کیا تھا۔گردی جنگل سے آگے چاغی شہر ہے رقبے کے لحاظ سے چاغی پاکستان کا سب سے بڑا ضلع ہے۔یہیں پر پاکستان کی مشہور شکار گاہیں ہیں جو سعودی و اماراتی شہزادوں کے سپرد ہیں۔ یوم آزادی سے قبل ڈپٹی کمشنر پنجگور ذاکر بلوچ۔ چیئرمین ضلع کونسل پنجگور و نیشنل پارٹی کے رہنماء عبدالملک بلوچ ان کے بھائی ولید بلوچ نے مستونگ سے 33 کلومیٹر دور تحصیل کھڈ کوچہ کو کراس کیا تو نیشنل ہائی وے پر مسلح افراد کی موجودگی کے خطرے کو بھانپ کر وہ واپس مڑے تو ان کی گاڑی کو ہٹ کر دیا گیا اس حملہ میں ڈپٹی کمشنر سمیت دو افراد ہلاک اور تین زخمی ہوئے ایران سے متصل ضلع کیچ سے تعلق رکھنے والے ڈی سی ذاکر بلوچ اسی روز لاپتہ افراد کیس کے حوالے سے کوئٹہ گئے اور واپسی پر دہشت گردی کا شکار ہو گئے۔ کھڈ کوچہ وہی شہر ہے جس میں عید میلاد النبیؐ کے موقع پر مستونگ بم دھماکہ کے بعد 14 لاشیں پہنچیں اس دھماکے میں کل 60 افراد شہید اور 70 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ اپریل میں نیشنل ہائی وے 40 (آر سی ڈی بھی) پر قائم نوشکی شہر سے 5 کلومیٹر پہلے سلطان چڑھائی کے علاقے میں تفتان جانے والی ایک بس سے 11 مسافروں کو اتار کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا دہشت گردی کی اس واردات کا نشانہ بننے والے 9 افراد کا تعلق منڈی بہاؤالدین اور گوجرانوالہ سے جبکہ 2 مقامی افراد تھے۔عید کے دوسرے روز کوئٹہ کے قریب تفریحی مقام پر پہاڑوں سے اترنے والے 20 کے قریب دہشت گردوں نے شناختی کارڈ چیک کر کے پنجاب سے تعلق رکھنے والے متعدد افراد کو اغوا کر لیا تھا۔2024 کے شروع میں ہی بلوچستان پرتشدد کارروائیوں کی شدید لپیٹ میں آ گیا گذشتہ سال کے آخری 3 ماہ کی نسبت 96 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ 7 فروری کو پشین اور قلعہ سیف اللہ کے اضلاع میں دو بم دھماکوں میں 20 سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے۔دالبندین میں ہونے والی دہشت گردی کا یہ واقعہ جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے پہلی مرتبہ سامنے آیا ہے نے سب کو ہلا کر رکھ دیا ہے بیک وقت پانچ افراد کا قتل اور ان کی لاشوں کو یوں بے حرمتی اور انہیں شہر میں لا کر کھمبوں سے باندھ دینا بہت مکروہ اور قبیح فعل ہے۔ دہشت گردی کے خلاف طویل عرصے سے نبردآزما پاک فوج نے لاتعداد قربانیوں کے ساتھ ان نا سوروں کے خلاف بڑی کامیابیاں حاصل کرتے ہوئے ملک کو مزید بڑے جانی و مال نقصان سے محفوظ رکھا ہے۔ طالبان کو اب خوارج کا نام دیا گیا۔ فورسز نے حالیہ مہینوں میں انٹیلی بیسڈ آپریشنز کے ساتھ ٹی ٹی پی کے مزید ناپاک عزائم اور منصوبوں کو خاک میں ملا دیا فورسز نے انہیں بڑے شہروں تک رسائی سے روک لیا بڑی دہشت گردی میں ناکامی کے بعد انہوں نے غریب عوام کو اغوا برائے تاوان اور ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنانا شروع کیا۔فورسز نے گذشتہ چند ماہ کے دوران بلوچستان۔ پختونخوا اور سندھ میں مجموعی طور 10 ہزار سے زائد آپریشن کئے جن میں 300 کے قریب خطرناک دہشت گردوں کو جہنم واصل اور درجنوں انتہائی مطلوب دہشت گردوں کے ٹھکانے تباہ کرتے
ہوئے انہیں گرفتار کیاگیا۔ فورسز نے بشام میں چینی شہریوں کو نشانہ بنانے والا ٹی ٹی پی کا نیٹ ورک بھی پکڑ لیا۔ دراندازی کئی گنا بڑھی اس پر قابو پایا ژوب بارڈر پر دراندازی کرنے والے 7 دہشت گردوں کو جہنم واصل اور 2 کو گرفتار کیا۔ متعدد خود کش حملہ اور گرفتار ہوئے جن سے جیکٹس بڑی مقدار میں اسلحہ بارود۔ دھماکہ خیز مواد اور آئی ایس ڈیز بھی برآمد کی گئیں۔فورسز نے 4 جوانوں اور 2 شہریوں کی قربانی دیتے ہوئے تین خود کش بمباروں سمیت نو دہشت گردوں کو مچھ اور کولپور کے علاقہ میں جہنم واصل کیا۔کوئٹہ شہر میں موجود ایک بہت بڑے نیٹ ورک کو پکڑ کر ان کا منصوبہ ناکام بنایا گذشتہ روز شمالی وزیرستان کے علاقے رزمک میں فورسز نے انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کے دوران خوارج کے ساتھ شدید جھڑپ میں تین خوارج کو ہلاک جبکہ ایک کو زخمی حالت میں گرفتار کر لیا ہے یہ خوارج بھی بے گناہ شہریوں کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث تھے۔ مسافروں، مزدوروں، نہتے غریب اور بے گناہ شہریوں کو ایسے اغوا کرکے موت کی نیند سلا دینا ظلم کی اخیر ہے ایسے ظالمین کا دین اسلام سے کوئی رشتہ نہیں یہ خوارج ہیں اور وہ اسی تعریف پر پورا اترتے ہیں۔ بلوچستان پر دشمن کی گہری نظریں ہیں مگر وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔

تبصرے بند ہیں.