فیض نیازی گٹھ جوڑ

33

سیاست میں کہتے ہیں کچھ بھی حرف آخر نہیں۔۔ لیکن سیاست کا رُخ موڑتے ہوئے پراپیگنڈے کے ریکارڈ توڑنا یقینا مہذب معاشروں کی روایات نہیں۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ امریکی سیاست میں بھی الزام تراشیاں ہوتی ہیں، کردار کشی ہوتی ہے مگر کوئی بھی سیاسی جماعت یا رہنما حکومتوں کو گرانے کیلئے دن رات پراپیگنڈا کرنے میں اپنی توانائی صرف نہیں کرتا بلکہ اگلے الیکشن کا انتظار کرتا ہے۔ وطن عزیز کی صورتحال ایک سیاسی جماعت اور اس کے سربراہ کی وجہ سے داغدار ہو چکی ہے۔ اس سیاسی رہنما نے پاک فوج جیسے ادارے کو بھی بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جو سرحدوں کا محافظ اور امن کا ضامن ہے۔ پراپیگنڈا اس قدر وسیع پیمانے پر کیا گیا کہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ مقصد صرف اداروں کو آمنے سامنے لانا، وطن کی سالمیت کا سودا کرنا، من پسند حکومتی ٹولے کو لا کر ملک اپنے انداز میں چلانا اور تقسیم اور نفرت کی سیاست کو پروان چڑھانا تھا۔ سینئر سیاستدان، تجزیہ کار، سینئر صحافی الغرض ہر کوئی جانتا ہے کہ فیض نیازی گٹھ جوڑ کیا تھا اور یہ کس طرح ملک کو نقصان پہنچانے کے لیے کام کر رہا تھا۔ کبھی دس سالہ حکومت کی بات ہوتی تو کبھی پاکستان کے دوست ممالک کے مفادات کے خلاف جا کر خارجہ پالیسی تہس نہس کرنے کے منصوبے پر کام کیا جاتا۔ جس شخص کو معلوم ہی نہیں تھا کہ خارجہ پالیسی کیا ہوتی ہے۔ عرب ممالک سے پاکستان کے تعلقات کیسے ہیں۔ سی پیک اور چین کی اہمیت کیا ہے۔۔۔ وہ شخص ٹی وی پر گھنٹوں بھاشن دیتا تھا۔۔ المیہ یہ ہے کہ عمران خان کے حواری اس سے بھی دو ہاتھ آگے تھے۔۔ اور عمران خان کے غلط کارناموں کا بھرپور تحفظ کرتے تھے۔۔ عوام الناس کے اعصاب پر سوار ہونے کے لیے ترجمانوں کی ایک فوج رکھی گئی تھی تاکہ میڈیا پر زیادہ سے زیادہ ایئر ٹائم حاصل کیا جائے۔۔ زیادہ سے زیادہ عوام کو گمراہ کیا جا سکے۔۔ لیکن کہتے ہیں وقت کی لاٹھی بے آواز ہے۔۔ جو جیسا کرتا ہے۔۔ ویسا بھرتا ہے۔۔ عمران خان اپنے کیے کی سزا بھگت رہا ہے لیکن جو کچھ سامنے آ رہا ہے وہ حیران کن ہے مگر قابل قبول بھی ہے۔ جنرل فیض کی گرفتاری نے سب کچھ کھول کر رکھ دیا ہے۔۔ کیسے طاقت ور ڈی جی آئی ایس آئی کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا تھا۔۔ جنرل فیض کو تحویل میں لیا جانا کوئی معمولی واقعہ نہں ہے کیونکہ وہ ایک انتہائی با اثر اور طاقت ور ڈی جی آئی ایس آئی رہ چکے ہیں۔ اِن کی حراست اِس بات کا عندیہ ہے کہ معاملات یہاں تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ اِس سلسلے مں مزید گرفتاریاں اور انکشافات کی توقع ہے۔ جنرل فیض حمید اور عمران خان کا گٹھ جوڑ اس وقت سے ہے جب وہ ڈی جی سی تھے۔ عمران خان یہ سمجھتا تھا کہ شاید آئی ایس آئی، پولیس اور آئی بی میں کوئی فرق نہیں اور وہ قومی سلامتی کے تناظر میں پاکستان کے اس انتہائی اہم ادارے کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے بلا شرکت غیرے استعمال کر سکتا ہے۔ جنرل فیض نے عمران کی اس سوچ کو عملی جامہ پہنایا اور عمران کی توقعات کے عین مطابق اسکے سیاسی عزائم کی تکمیل کے لیے اپنے ادارے (پاک فوج) کے مفادات اور عزت کو بھی پسِ پشت ڈالنے میں جھجک محسوس نہیں کی۔ فیض نیازی گٹھ جوڑ اور اِس کے نتیجے میں رچائے جانے والے سیاسی کھیل کی وجہ سے پاک فوج میں شدید بے چینی پائی گئی اور جنرل فیض کی سیاسی سرگرمیوں کو ہمیشہ ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ اس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل (ر) قمر باجوہ نے بھی جنرل فیض اور عمران کے سیاسی گٹھ جوڑ کو پسند نہیں کیا اور اندرونی ذرائع کے مطابق انہوں نے ہمیشہ اس کی حوصلہ شکنی کی۔ یہی ناپسندیدگی بعد میں جنرل فیض کی آئی ایس آئی سے معزولی اور جنرل باجوہ اور عمران کے باہمی تعلقات میں کشیدگی کا باعث بنی۔ آئی ایس آئی سے جانے کے بعد بطور کور کمانڈر پشاور فیض حمید اپنی سیاسی سرگرمیوں سے باز نہیں آئے اور عمران کے سیاسی مقاصد کی تکمیل کے لیے اپنے ادارے کی عزت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے عمران کے فرنٹ مین کے طور اپنے سیاسی اثر و رسوخ کا بے دریغ استعمال کیا۔ عمران کا فیض حمید کو اپنا اثاثہ قرار دینا اِس امر کی غمازی کرتا ہے کہ فیض حمید نے عمران کی ’سیاسی خدمات‘ میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی فرد ِ واحد اثاثہ نہیں ہوتا بلکہ ادارے اثاثہ ہوتے ہیں۔ بلا شبہ آئی ایس آئی ہمارے ملک کا قیمتی اثاثہ ہے لیکن فیض حمید نے اپنے اور عمران کے ذاتی مفادات کے لیے اِس قومی اثاثے کا انتہائی غلط استعمال کیا۔ یہ نہ صرف ادارے کے لیے شدید نقصان دہ ثابت ہوا بلکہ یہ ادارے کے اس وقت کے سربراہ جنرل باجوہ کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے کے مترادف تھا کیونکہ فیض حمید اپنے عہدے کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے متعدد بار ایسے اقدامات کے مرتکب ہوئے جس میں سربراہ پاک فوج کو بائی پاس کیا گیا۔

تبصرے بند ہیں.