14 اگست 1947 ہماری تاریخ کا وہ دن ہے جب ہم نے ایک طویل، صبر آزما اور تھکا دینے والی جدوجہد کے نتیجہ میں یہ مملکت حاصل کی۔ اس کی بنیادوں میں کس کس کا خون اور کس کس کے خواب دفن ہیں یہ ایک طویل اور گمشدہ کہانی ہے کہ جسے لکھنا بھی چاہیں تو اب ممکن نہیں۔ پاکستان کا مطالبہ حقیقت میں تو بدترین معاشی غلامی سے آزادی کا خواب تھا لیکن اگر یہ بھی تسلیم کر لیا جائے کہ مشترکہ ہندوستان کے مسلمانوں کی اکثریت ایک الگ وطن کی خواہشمند تھی تو اس میں آج تو کوئی بُرائی نہیں کہ یہ اب خواب نہیں حقیقت بن کر دنیا کے نقشہ پر موجود ہے۔ ہم نے ریاست حاصل کی اور اسے تجربہ گاہ بنا دیا۔ ہر طاقت ور نے اپنی ناقص عقل کے مطابق اپنے فرسودہ خیالات کے جبر کی چکی میں پاکستان کے مظلوم عوام کو پیس کر رکھ دیا اور جب نتیجے میں منہ کی کھانا پڑی تو پھر پاکستان کے عوام کی طرف دیکھنا شروع ہو گئے۔ ہمیں واقعی ایک دریا کے بعد دوسرے دریا کا سامنا ہے۔ ابھی ہم عمران نیازی سے فارغ نہیں ہوئے تھے کہ فیض حمید، بابا رحمتے اور اُن کے معاون اور مددگاروں کے جرائم کا ”کٹا“ کھل گیا ہے۔ شاید ہم تیزی سے درستی یا پھر بربادی کی طرف جا رہے ہیں لیکن حالات ہیں کہ ہر لمحہ تبدیل ہو رہے ہیں۔ پاکستان کے حکمرانوں نے صرف اپنی شکلیں ہی نہیں بدلیں قائد کے پاکستان کا جغرافیہ بھی بدل کر رکھ دیا ہے لیکن اس کے باوجود یہ بچا کھچا پاکستان ہم سب کا پاکستان ہے۔ اس کا وقار اورعزت ہمیں اپنی جانوں سے زیادہ عزیز ہے لیکن شاید تاریخ ہمیں خود ہی اُس موڑ پر لے آئی ہے جہاں لوگ عقلی انقلابی تحریکوں کے نتیجہ میں پہنچتے ہیں۔ 14 اگست بہرحال آج بھی ہمارا فیڈریشن سمبل ہے اور پوری قوم اسے شان و شوکت سے مناتی ہے گو کہ اس بار کچھ منحوس آوازیں اس دن کو نہ منانے کے حوالے سے بھی سننا پڑیں لیکن پاکستان تو پاکستان ہے اور اِس کیلئے دل اور جان دونوں قربان ہیں۔ 13 اگست کو شعیب صدیقی کی کال موصول ہوئی جنہوں نے بتایا کہ مرکزی صدر استحکامِ پاکستان پارٹی و وفاقی وزیر نجکاری عبد العلیم خان نے جشن آزادی بھر پور طریقے سے منانے کے احکامات جاری کیے ہیں اور پاکستان بھر میں استحکام پاکستان پارٹی کے ٹکٹ ہولڈرز اور تنظیمی عہدیداران اپنے اپنے علاقوں اور حلقوں میں اس کا اہتمام کریں گے۔ سو 11 بجے دن میں استحکام ِ پاکستان پارٹی کے دفتر اپر مال جا پہنچا۔ پاکستان کے پرچموں کی بہار آئی ہوئی تھی۔ ترانے بج رہے تھے اور سیکڑوں کی تعداد میں مرد و زن اور خواتین پنڈال میں بیٹھے سبز ہلالی پرچم لہرا رہے تھے۔ جنرل سیکرٹری برادرم شعیب صدیقی اور صدر پنجاب رانا نذیر احمد خان کی آمد پر بینڈ باجے سے اُن کا استقبال کیا گیا۔ پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہرا کر پروگرام کا آغاز کیا گیا۔ تلاوت قرآن پاک اور نعت رسول مقبولؐ کے بعد سٹیج پر بیٹھے قائدین کی تقاریر کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ میرے لیے یہ بات حیران کن تھی کہ جشن آزاد ی کے پروگرام میں مسیحی برادری کے مرد و زن کی بھی بڑی تعداد نے نہ صرف شرکت کی بلکہ نعروں سے اپنے جذبوں کا بھرپور اظہار کیا۔
برادرم عبد العلیم خان 14 اگست کو اسلام آباد میں مختلف سرکاری تقریبات میں مصروفیت کی وجہ سے لاہور کے پروگرام میں شرکت نہ کر سکے لیکن فراغت میسر آتے ہی انہوں نے لاہور کا رخ کیا اور ان کی زیر صدارت مختلف اضلاع کے پارٹی صدور کا اجلاس منعقد ہوا۔ مرکزی صدر عبد العلیم خان نے پنجاب کے بیشتر اضلاع میں تنظیم سازی مکمل ہونے پر ضلعی صدور کو مبارک باد دی اور سیاسی سرگرمیاں تیز کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔ مرکزی صدر کا کہنا تھا کہ استحکامِ پاکستان پارٹی کو یونین کونسل کی سطح پر مضبوط بنا کر بلدیاتی انتخابات کی تیاری شروع کی جائے تا کہ میدان میں اترنے والے بلدیاتی امیدواروں کو عوامی رابطے کی صورت میں عوامی مسائل کا زیادہ سے زیادہ ادراک ہو سکے۔ عبد العلیم خان نے یہ بھی کہا کہ پارٹی کے لیے بہترین عہدیداروں کا انتخاب کیا اب انہیں ہر ضلع میں فعال کردار ادا کرنا ہو گا۔ ہماری پارٹی ہر حال میں ملک و قوم اور ریاست کی مضبوطی کے لیے خواہاں ہے۔ کسی کو شک نہیں ہونا
چاہیے، وطن عزیز کی ریڈ لائن اور ترجیحات مکمل طور پر واضح ہیں۔ مرکزی صدر نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی ضلع سے کسی کو کوئی مسئلہ ہو تو 24 گھنٹے بلا جھجک مجھ سے رابطہ کر سکتے ہیں۔ امید ہے کہ استحکام پاکستان پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ کا اجلاس آئندہ ہفتے بلانے کا فیصلہ کیا جائے گا تاکہ سیاسی مشاورت اور اہم فیصلے کر کے ہنگامی بنیادوں پر سیاسی عمل کو تیز تر کیا جا سکے۔ عبد العلیم خان کا کہنا تھا کہ مشاورت کیلئے ہر ماہ کے آخری ہفتے کو پارٹی رہنماؤں کا اجلاس بلایا جائے تاکہ اضلاع اور صوبوں کی کارکردگی کو ماہانہ بنیادوں پر چیک کیا جا سکے۔ سابق ایم پی اے طاہر ہندلی کومرکزی مجلس عاملہ کا رکن نامزد کر دیا گیا ہے جبکہ ہر ضلع میں آئی پی پی کے ٹکٹ ہولڈرز کو ڈسٹرکٹ کو آرڈینیشن کمیٹیوں میں شامل کرنے کی تجویز پر بھی غور کیا گیا۔ عبد العلیم خان کا کہنا تھا کہ لیہ و دیگر اضلاع میں استحکام پاکستان پارٹی کے عہدیداروں کا جلد فیصلہ کر دیا جائے گا تاکہ جنوبی پنجاب کے دوسرے اضلاع کی طرح یہاں بھی کام کی رفتار کو تیز کیا جا سکے۔ اس موقع پر صدر استحکام ِ پاکستان پارٹی پنجاب رانا نذیر احمد خان اور جنر ل سیکرٹری شعیب صدیقی نے مرکزی صدر عبد العلیم خان کو پنجاب میں کی جانے والی نامزدگیوں اور مختلف اضلاع میں پارٹی کی کارکردگی پر بریفنگ دی۔ امید کی جاتی ہے کہ استحکام پارٹی اپنی تنظیم سازی کے عمل کو مکمل کرنے کے بعد ایک بڑا پارٹی کنونشن منعقد کرے گی جس کے بعد ہی عام آدمیوں کی بڑی تعداد پارٹی میں شمولیت کرنے کی طرف راغب ہو گی۔
فیض حمید اور دوسرے سابق ملٹری آفیشل کی گرفتاری نے بہت سی غلیظ امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے رہی سہی کسر بابا رحمتے کی گرفتاری سے پوری ہو جائے گی اور اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر کوئی جج سپریم کورٹ کی مقدس ترین مسند پر بیٹھ کر کبھی کسی ملزم کو ”گڈ ٹو سی یو“ نہیں کہے گا۔ ایک خبر کے مطابق سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے فیض حمید اور عمران گٹھ جوڑ کی حوصلہ شکنی کی تھی اور جنرل فیض حمید نے کئی بار سابق آرمی چیف کو بائی پاس کیا۔ اس خبر سے ایک بات تو سمجھ آ گئی کہ باجوہ کے خلاف کچھ بھی ہونے نہیں جا رہا البتہ فیض حمید کے گرد گھیرا تنگ ہوتا جا رہا ہے اور اس تنگ گھیرے میں بہت کچھ آنے کو مچل رہا ہے۔ سرکاری یا ریاستی عہدے رہیں یا نہ رہیں لیکن ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان نے قیامت کی صبح تک رہنا ہے۔
تبصرے بند ہیں.