یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
ہمیں تلاش تھی جس کی یہ وہ سحر تو نہیں
انتخابی معرکہ ہے لاہور چیمبرکے انتخابات کا اور مقابلہ ہے زوروں اور دوبڑے اتحادی گروپس کے درمیان طاقت کا فاؤنڈر،پیاف اور ایل جی ایف کے درمیان اتحاد کے بعد سے انجم نثار گروپ اور پی بی جی کے درمیان اتحادہوا تو اس دوران ایک اور بریکنگ نیوز نے سب کو چونکا دیا جب ایس ایم تنویر نے جوکہ یو بی جی کے چیئرمین ہیں نے پیاف فاؤنڈر اور ایل جی ایف کے درمیان ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں بھرپور تعاون کا اعلان کردیا اس اعلان کے بعدٹریڈ سیاست میں ایک بڑی ہلچل دیکھنے میں آئی آپ کو یادہوگا کہ دسمبر 2023ء میں میں نے اپنے ایک کالم میں یہ خیال ظاہر کیا تھا کہ جو فیڈریشن کا انتخاب جیت کر آئے ہیں وہ لاہور چیمبر کے انتخابات میں اپنا کردار ادا کرتے نظر آئیں گے اس پر بہت تنقید کا سامنا کرنا پڑا اس کے بعد میں نے ایس ایم تنویر کا ایک طویل انٹرویو کیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ پی بی جی فیڈریشن آف پاکستان چیمبر کسی بھی چیمبر کے انتخابات میں کسی قسم کا کردار ادا نہیں کرے گی اس انٹرویو کو ٹریڈ سیاست میں ایک دھماکہ خیز کے طورپر پڑھا گیا پھرجیسے ہی لاہوری سیاست کے انتخابات کے دن قریب آنے لگے تو پرانوں نے پرانوں کے ساتھ دوستی کے ہاتھ بڑھائے اورگزشتہ روزکی پریس کانفرنس میں ایس ایم تنویر کا یہ کہنا کہ ٹریڈ سیاست کے حالات اور اس کے رخ جس غلط سمت کی طرف موڑ دیئے گئے ہیں کہ مجھے خود میدان میں آنا پڑا اور آج سے ہم پیاف فاؤنڈر اور ایل جی ایف کے ساتھ ان کی انتخابی مہم میں ان کے ساتھ کھڑے ہیں ایس ایم تنویر کے بارے میں میں انہی کالموں میں کئی بار کہہ چکا ہوں کہ وہ صحیح معنوں میں ٹریڈ سیاست میں ایک بڑے لیڈر کا کردار ادا کرتے نظر آرہے ہیں اب ان کا یہ فیصلہ آنے والے دنوں میں کیا رنگ لاتاہے یہ تو وقت ہی ثابت کرے گادیکھنے والی بات یہ ہے یوبی جی کی بھر پورسپورٹ کے ساتھ یہ اتحاد ایک بڑے گروپ میں تبدیل ہو گیا ہے اور دوسری طرف علی حسام اور انجم نثار گروپ کے درمیان بھی اتحادعمل میں آگیا ہے۔ یہ بھی خوش آئندبات ہے کہ دوبڑے گروپ اب آمنے سامنے آگئے ہیں۔
اقتدار اور سلطنت اللہ کی اور خداتعالیٰ انہی لوگوں کو اقتدار دے کر آزماتا ہے جو اس کی امت کے لیے بہتری لانے کے ساتھ ساتھ بہتر فیصلے کرنے کی بھی قوت سے مالامال ہوں۔ پاکستان کی یہ بدقسمتی کہ ہم قائداعظمؒ کے بعد کوئی ایسا لیڈر پیدا نہ کر سکے جو اس ملک کو سنوارتا، سنبھالتا، خوشحال بناتا اور اس کو ترقی کے راستوں پر ڈالتا۔ میرے نزدیک ہم نے ہمیشہ ان قیادتوں اور ان کے غلط فیصلوں سے تباہی کا منہ چوما۔ چلیں یہ تو پاکستان کی بات تھی۔ اس کے برے اثرات ہمارے گھروں سے لے کر ہمارے اداروں اور بنائی گئی آرگنائزیشنز تک پہنچ گئے۔ آپ ریاست سے انفرادی سیاست تک کو آپ دیکھ لیں جہاں اقتدار کا نشہ آیا نہیں ہم نے ایسے ایسے فیصلے کر ڈالے جو بعد میں ہمارے ہی گلوں کا طوق بن گئے۔ ایک گھر اس وقت مضبوط نظر آتا ہے جب اس کا سربراہ سب کو ساتھ لے کر چلتے ہوئے افہام و تفہیم کے ساتھ ایسے فیصلے کرے جس سے ان کے آنے والے کل کو فائدہ پہنچے اور مضبوطی کے ساتھ کھڑے ہونا اپنی بھرپور طاقت سے بڑے فیصلے کرنا اور پھر ان پر قائم رہنا ہی ان کی جماعت کو آگے لے کر بڑھتا ہے۔
ٹریڈ سیاست اور ان کے لیڈران کے کئے فیصلوں پر بات کریں تو پھر اگر کسی کو آئینہ دکھایا تو بات دوسری طرف نکل جائے گی۔ اپنی بات پر قائم رہنا، اپنے فیصلوں پر عملدرآمد کرنا اور پھر اس عہد کے ساتھ کہ ہمارے پاس پوری طاقت ہے اورہم محاذ پر ہر طرح کی جنگ جیتنے کی صلاحیت رکھتے ہیں سیاست قومی یا ٹریڈ کی ہو یہ لمحہ لمحہ بدلتی صورتحال کے تحت کئی رنگ بدلتی ہے اور اب تو یہ عالم ہے کہ آپ کے پاس بیٹھے والا اگلے چند منٹوں کی ڈرائیور پر دوسرے گروپ میں بیٹھا ہوگا۔ لاہور چیمبر کے انتخابات کی صورت میں دو بڑے گروپس اتحادی سیاست کے نام پر میدان میں اتر چکے ہیں۔ پیاف فاؤنڈر ایل جی ایف اتحاد کے بعد ایس ایم تنویر کا دبنگ اعلان سے پہلے انجم نثار گروپ اور علی حسام کی پی بی جی کے درمیان بھی گزشتہ روز انتخابی اتحاد دیکھنے کو ملا۔ اس سے قبل علی حسام کی گزشتہ دو ماہ سے تیزی کے ساتھ بدلتے بیانات، اعلانات اور پھر ان فیصلوں نے سب کو حیران کئے رکھا اس دوران علی حسام نے ایک دو بڑے اعلانات کے بعد یوٹرن لے لیا۔ میں نے اپنے گزشتہ کالم یں لکھا تھا کہ پی بی جی کا یہ مؤقف کہ ہم بہت مضبوط اور بہت بڑی پوزیشن کے ساتھ کھڑے ہیں اور وہ30 ای سی ممبر کیا ہمارے پاس تو ایک لمبی لائن لگی ہوئی ہے جبکہ حقائق یہ بتاتے ہیں کہ موجودہ نئے اتحاد کے پاس امیدواروں کی وہ لائن نہیں تھی جس کے دعوے کئے جا رہے تھے۔ میرے لیے حیران کن بات یہ ہے کہ تقریباً گزشتہ دو سال سے ٹریڈسیاست میں پی بی جی بڑی تیزی کے ساتھ ایک بڑے مقام کی طرف گامزن تھی اور دوران بدلتی صورت حال کے پیش نظر علی کابار بار یہ مؤقف سامنے آ رہا تھا کہ کچھ بھی ہو جائے میں کسی گروپ کے ساتھ انتخابی اتحاد نہیں کروں گا۔اس سے قبل پیاف کی طرف سے علی حسام گروپ کو بارہ سیٹوں کی آفر ہوئی۔ ایک ماہ تک مذاکرات ہوئے اسی دوران علی گروپ کے بہت قریبی لوگوں نے چیمبر کے اندر یہ نعرے لگانے شروع کر دیئے کہ نہ شفقت نہ نثار ہم انشاء اللہ تیس کی تیس سیٹیں لے کر کلین سویپ کریں گے۔یہ بات خوش آئند تھی کہ نوجوانوں کا یہ گروپ انتخابات میں بہت رنگ دیکھائے گا۔
اسی دوران علی حسام کی میرے ساتھ بھی کئی باربات ہوئی اور میں بار بار ان سے کہہ رہا تھا کہ جتنی طاقت جتنے امیدواروں کا آپ لوگ دعویٰ کر رہے ہو تو پھر اکیلے ہی الیکشن لڑو۔ یہ آپ کا پہلا الیکشن ہے۔ بجائے اتحاد کے ہار جیت کے تصور سے باہر نکل کر اپنے پہلے انتخابات میں نوجوان گروپ کو سامنے لے آئیں۔ پھر گزشتہ ہفتے علی نے اکیلے ہی انتخاب لڑنے کا اعلان کر دیا۔ ٹریڈ سیاست میں ان کے اس فیصلے کو اچھی اور بری نگاہ سے دیکھا گیااب جس گھر میں دونوں کا جواتحاد کا فیصلہ ہوا اس اتحاد میں شریک علی حسام گروپ کے نہایت قریبی ایک دو لوگ میرے رابطے میں تھے۔ ان کی کوشش تھی کہ کسی بھی طرح اس اتحاد کو روکا جائے مگر علی حسام کے اچانک یو ٹرن نے ان کے قریبی ساتھیوں کو بہت مایوس کیا کہ وہ انجم نثار گروپ کے ساتھ اتحاد نہیں چاہتے تھے کہ ان کو اس گروپ سے کچھ تحفظات تھے۔گو علی حسام گروپ اور انجم نثار گروپ کے درمیان ہونے والے اتحاد کو خوش آئند قرار دینا چاہئے کہ اب انتخابات میں ایک بڑے زور کا دنگل پڑے گا۔ علی حسام کی قیادت کے بارے نہ صرف ٹریڈ بلکہ ان کے نہایت قریبی دوستوں کوبھی اس اتحاد کے بننے کے باوجود خدشات ہیں۔ میں نے اپنے گزشتہ کالم میں یہ بھی لکھا تھا کہ کسی بڑے فیصلے کی طرف لے جانے کے لیے لیڈرشپ کا بڑا کردار ہوتا ہے۔ یہ ایک شطرنج کا کھیل ہے اور اس کے کھلاڑی جانتے ہیں کہ کس گھوڑے کی کیا قیمت اور طاقت ہے چونکہ یہ علی کا پہلا اور بڑا انتخابی معرکہ ہے اور یہ بھی گزارش کی تھی کہ وہ اپنے حریفوں کو ہلکا نہ لیں اور باہر دیکھنے کی بجائے اپنے گھر کے اندر دیکھیں جو آپ کی پی بی جی کے اس کاز کو نقصان دے رہے ہیں کہ یہ موروثی سیاست کا خاتمہ کرنے کیلئے میدان میں آیا ہے اور یہ نوجوان گروپ پوری ٹریڈ سیاست کے نوجوانوں کے لیے بڑا حوصلہ بنے گا اور اس کے کئے فیصلے آنے والے مستقبل کی راہوں کا تعین کریں گے مگر علی حسام کے بار بار کئے فیصلوں اور پھر بار بار یو ٹرن لینے سے ان کی قیادت پر بڑے سوالیہ نشان اٹھ گئے۔ یہ میرا دعویٰ نہیں بلکہ میں اس کالم کے ذریعے ایک بڑی خبر دے رہا ہوں کہ انتخابات سے قبل علی حسام گروپ کے دوتین اہم افراد ان کا ساتھ چھوڑنے والے ہیں اور ایک دو بڑے گروپ جو ایسوسی ایٹ میں ان کے ساتھ کھڑے تھے وہ اگلے پندرہ بیس دنوں میں پی بی جی کو خیرباد کہہ دیں گے۔ میرے ذرائع کے مطابق نوجوان قیادت نوجوان قوت کا جو نعرہ پی بی جی نے لگایا تھا اب وہ اس نعرے اور مقصد سے پیچھے ہٹ گئے ہیں۔ ان کا یہ مؤقف بھی ہے کہ اگر دس سیٹوں پر معاہدہ کرنا ہی تھا تو پھر میاں شفقت کی پیاف کے بارہ سیٹوں کی آفر کو کیوں ٹھکرایا گیا اور کیا جو دس سیٹوں پر معاہدہ ہوا ہے اس میں کامیابی نہ ملی تو پھر نوجوان تاجرکہاں کھڑے نظر آئیں گے؟ علی حسام کا فاؤنڈر گروپ سے بغاوت کرنے کی بنیادی وجہ ان کی لیڈرشپ کے کئے بعض فیصلے تھے جن سے نوجوانوں کو دبایا جا رہا تھا۔ اب علی کے بارے میں یہ تاثر بھی ٹریڈ مارکیٹ میں آ گیا ہے کہ یہاں بھی اختیارات تقسیم کرنے کے باوجود کبھی کسی تو کبھی کسی کے ساتھ اتحاد کے بعد بالآخر پی بی جی کوایک اتحاد کی طرف جانے کی ضرورت کیوں پیش آئی جبکہ وہ تو تمام دوسرے گروپس کے مقابلے میں تیس کی تیس سیٹوں کا دعویٰ کر رہے تھے۔اور انہوں نے ایک بڑے ڈنر میں اپنے تیس کھلاڑیوں کو اتارنے کا فیصلہ بھی کرلیا تھا پھراچانک وہ تیس کھلاڑی کہاں چلے گئے کہ علی حسام کو دس فیصد ٹولے پر اتحاد کیلئے مجبور ہونا پڑا؟
اور آخری بات……!
علی حسام نے پریس کانفرنس میں جو گفتگو کی اس کے پس منظر میں دیکھا جائے تو انہوں نے جس موروثی سیاست کی وجہ سے فاؤنڈر کو چھوڑا تھا گزشتہ روز انہوں نے خود بھی اپنی ہی بنیادوں کو اپنے ہاتھوں کھوکھلا کر دیا۔یہ میری ذاتی رائے ہے ہار جیت تومقدروں کا کھیل ہے۔
تبصرے بند ہیں.