تاریکی میں چھپی طاغوتی دنیا

52

دورِ حاضر میں انٹرنیٹ کے ذریعے معلومات تک رسائی اس حد تک عام ہو چکی ہے کہ تازہ ترین معاشی صورتحال سے لے کر موسماتی احوال تک کی نت نئی معلومات تک ہمہ وقت رسائی ممکن ہے۔ انگلیوں کے ذرا سے تال میل کے جواب میں گوگل آن کی آن میں نتائج لئے حاضر ہوتا ہے اور یہ سب کچھ صرف اس لیے ممکن ہوتا ہے کہ گوگل ویب سائٹس کی معلومات فہرستوں کی صورت میں اپنے پاس محفوظ رکھتا ہے، اور معلومات کو ذخیرہ کرنے کا یہ عمل دن رات جاری رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انٹرنیٹ صارفین کو ہر لمحے تازہ ترین معلومات تک رسائی حاصل رہتی ہے۔ لیکن انٹرنیٹ کا یہ ظاہری حصہ صرف کچھ فیصد تک سرگرمیوں کا احاطہ کرتا ہے۔ بنی آدم کی بسائی اس دنیا کے کسی کونے میں طاغوتی طاقتیں اپنا ایک الگ جہاں آباد کیے ہوئے ہیں، جہاں غیر اخلاقی سرگرمیاں انجام پاتی ہیں۔ ظاہر کی آنکھ سے ڈھکی چھپی ایک ایسی ہی دنیا ڈیپ اور ڈارک ویب کے نام سے انٹرنیٹ کی دنیا پر پائی جاتی ہے، جس تک رسائی ایک خاص طبقہ، خاص کرنسی کے ذریعے خاص سرگرمیوں کے لیے حاصل کرتا ہے۔ ایک ایسا گمنام عالمی آن لائن نظام جسے تلاش کرنا اور اس کے بارے میں معلومات حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہے اور اس کی یہی خاصیت ہی اسے مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث افراد میں مقبول بناتی ہے۔ یہ دراصل کمپیوٹر صارفین کا ایک ایسا نیٹ ورک ہے جن کا مانناہے کہ انٹرنیٹ کو کسی بھی قانون کا پابند نہیں ہونا چاہیے۔ ایک ایسا حساس موضوع کہ جس پر بات کرنا آسان نہیں، یہ ولڈ وائڈ ویب کا ایک ایسا حصہ ہے جس تک رسائی حاصل کرنے کے لیے خصوصی سافٹ ویئر کا استعمال کیا جاتا ہے۔ یہاں قانونی اور غیر قانونی دونوں طرح کی سرگرمیاں انجام پاتی ہیں یہ جرائم کی وہ دنیا ہے جہاں قانونی اداروں کی رسائی بھی مشکل ہے۔ انٹرنیٹ کی دنیا میں ڈارک ویب کا حجم کتنا ہے یا پھر اسے کتنے افراد استعمال کر رہے ہیں یہ آج تک کوئی بھی نہیں جانتا۔ ڈارک ویب یا ڈیپ ویب پر موجود مواد صرف اسی قدر تشہیر ہوتا ہے جس قدر اس کا تخلیق کار چاہتا ہے۔ یہ دنیا ایسے لوگوں اور گروہوں کا مسکن ہے جو خود کو عام دنیا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے چھپا کر رکھنا چاہتے ہیں۔ یہاں پرائیویسی اور گمنامی کے متلاشی افراد، اور مجرم اپنی سرگرمیاں انجام دیتے ہیں۔ ڈارک ویب انٹرنیٹ ویب سائٹس کا پوشیدہ مجموعہ ہے جس تک رسائی صرف ایک مخصوص ویب براؤزر کے ذریعے ہی ممکن ہے لیکن جب ایک بار اس ویب تک رسائی ممکن ہو جائے تو یہ بلکل ایسے ہی نظر آتی ہے جیسے کوئی عام ویب سائٹ۔ مگر عام انسان اس دنیا تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے صرف وہی لوگ اس ویب تک پہنچ سکتے ہی جن کا تعلق یا تو آن لائن جرائم کی اس گھناؤنی دنیا سے ہو یا پھر وہ اس کمیونٹی کا حصہ ہوں۔ ایک اندازے کے مطابق عام انسانوں کی رسائی صرف سولہ فیصد ویب سائٹس تک ہی ہے جبکہ باقی حصہ ڈارک ویب پر مشتمل ہے۔ ڈارک ویب کے ریڈ رومز خفیہ طور پر چلائے جانے والے ایسے مبینہ آن لائن پلیٹ فارم ہیں جہاں براہ راست لوگ قتل و غارت، تشدد اور دیگر غیر قانونی سرگرمیوں تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ کہنا بلکل بھی غلط نہیں کہ یہ ویب مسخ شدہ ذہنیت اور انسانوں کے روپ میں چھپے درندوں کی آماجگاہ ہے۔ ایسے وحشی انسانوں کی بے حسی اور درندگی کا گڑھ جنہیں دیکھ کر جنگلی درندے بھی خوف کے مارے اپنی کچھاروں میں دبک جائیں۔ یہ چھپی ہوئی ویب اتنی بڑی ہے کہ یہ دریافت کرنا ناممکن ہے کہ ایک وقت میں اس پر کتنے صفحات یا ویب سائٹس فعال ہیں۔ اس ویب کا استعمال انٹرنیٹ کی تمام قانونی اور غیر قانونی سرگرمیوں کو گمنام اور نجی رکھنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ کچھ لوگ اس ویب کا استعمال حکومتی سنسر شپ سے محفوظ رہنے کے لیے کرتے ہیں مگر زیادہ تر یہ نیٹ ورک انتہائی غیر قانونی سرگرمیوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ڈارک ویب عموماً غیر قانونی آن لائن سرگرمیوں، جیسے کہ اسلحہ کی فروخت، منشیات کے کاروبار، چوری شدہ دیٹا، انسانی اعضا کی خرید و فروخت، جعلی دستاویزات، انسانوں کے جنسی استحصال اور دیگر غیر قانونی مجرمانہ سرگرمیوں کی خریدو فروخت کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ یہ نیٹ ورک خریدنے اور بیچنے والے دونوں کو گمنام رہنے میں مدد کرتا ہے۔ انٹرنیٹ کی اس دنیا میں کچھ ویب سائٹس اس حد تک پوشیدہ ہوتی ہیں کہ کوئی سرچ انجن بھی انہیں ڈھونڈ نہیں سکتا، ان تک رسائی صرف خصوصی ایڈریس موجود ہونے کی صورت میں ہی ممکن ہے۔ ا نٹرنیٹ کی دنیا کے اس حصے میں خصوصی مارکیٹس قائم ہوتی ہیں جہاں غیر قانونی کاروبار کیا جاتا ہے۔ تاریکی کی دنیا کا یہ حصہ ذہنی مفلوج اذیت پسند لوگوں کی پسندیدہ جگہ ہے۔ وحشیانہ جبلت کی تسکین کے مکروہ اعمال کے اس گھناؤنے کاروبار سے ہوشربا پیسہ اور کمائی منسلک ہے۔ بین الاقوامی جریدوں کے مطابق تاریک انٹرنیٹ کی اس مکروہ دنیا سے تعلق رکھنے والے تشدد پسند ذہنی مریضوں کی تعداد اس وقت پانچ سو ملین سے زائد ہے۔
ان تمام ویب سائٹس کے ذریعے جو کالا کاروبار ہو رہا ہے اسے امریکا کی ایف بی آئی اس پر ایک دہائی سے زیادہ عرصہ کام کرنے کے باوجود بھی نہیں روک سکی۔ ایک اندازے کے مطابق ڈارک ویب کم از کم پچاس ہزار انتہا پسند ویب سائٹس اورتین سو سے زائد دہشت گرد فورمز کا گڑھ ہے۔ جرائم کی اس بھیانک دنیا سے تعلق رکھنے یا اس کو چلانے والے درندوں تک پہنچنا انتہائی مشکل امر ہے۔ عام براؤزر کے بجائے خصوصی براؤزرز اور آئی پی ایڈریس استعمال کرنے والے یہ درندے سب سے پہلے اپنے تحفظ کو یقینی بناتے ہیں۔ یہاں جرائم کی ایسی ایسی شکل میں موجود ہیں کہ ان کے بارے میں سوچ کر ہی وہشت ہونے لگتی ہے۔آج بھی دنیا میں سائبر کرائم کا کوئی بھی ادارہ یا تحقیقاتی ایجنسی یہ دعویٰ نہیں کر سکتی کہ اسے ڈارک ویب یا ڈیپ ویب تک مکمل رسائی حاصل ہے، یا اسے معلوم ہے کہ ڈارک ویب کے ریڈ رومز کہاں کہاں کام کر رہے ہیں۔۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی اور امن و امان کی صورتحال یہ ہے کہ یہاں معصوم بچوں کے اغوا، بے حرمتی اور پامالی کا تناسب ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے۔ گزشتہ تین سال میں سب سے زیادہ بچے پنجاب سے اغوا کیے گئے ہیں اسی بات سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ہمارے خاندان اور بچے کتنے محفوظ ہیں۔ ایک سبب یہ بھی ہے کہ ہمارے معاشرے میں ذہنی عوارض سے متعلق آگاہی انتہائی کم ہے، جبکہ یہاں ماہر نفسیات تقریباً نا ہونے کے برابر ہیں، اور جو موجود ہیں ان سے علاج عام آدمی کے بس کی بات نہیں۔ اس وجہ سے پاکستان میں اس گھناؤنے غیر اخلاقی کھیلوں پر قابو پانے کے لیے نا صرف قانون سازی کی ضرورت ہے بلکہ ذہنی صحت اور تعلیم پر بھی کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

تبصرے بند ہیں.