ریت پر قلعے تعمیر نہ کریں

20

گزشتہ ہفتے قوم نے 78واں یوم آزادی منایا اور ہم یہ آزادی کا دن ہر سال مناتے ہیں۔ صرف ایک دن کے لیے گھروں، سڑکوں، گلیوں میں قومی پرچم لہراتے ہیں۔ ایک دن کے لیے جلوس، ریلیاں، فوٹو شوٹ کراتے ہیں۔ میڈیا دن رات یوم آزادی کے حوالے سے پروگرام کرتا ہے۔ ہر طرف شور ہے، ہنگامہ ہے، ہر بندہ، بندی، بچے، بچیاں، نوجوان لوگ اپنے اپنے انداز سے آزادی کا دن منائیں گے اور پھر 15اگست کو ہم اگلے سال کے لیے 14اگست کو بھول جائیں گے۔ آزاد قومیں نہ اس طرح یوم آزادی مناتی ہیں نہ وہ یوم آزادی کو بھولتی ہیں، نہ ہی وہ قومی جھنڈے کے تقدس کو پامال کرتی ہیں، نہ اپنے پیروں تلے روندتی ہیں۔ فضاؤں میں لہرانے والے قومی جھنڈے کی بڑی علامت یہ ہوتی ہے کہ وہ قوم کی تصویر ہوتی ہے۔ ایسی تصویر جو نسل در نسل پوری دنیا میں آپ کی آزادی کو تسلیم کرواتی ہے۔ ہمارے ساتھ بہت کچھ ہونے کے بعد بھی کیا 14اگست کو ہم یوم آزادی منانے کے حقدار ہیں۔ وہ آزادی ہمیں قائداعظمؒ نے دلوائی، پاکستان لے کر دیا کہ ہم غلامی کی بجائے ایک پرچم کے سائے تلے ایک اچھی قوم بن سکیں اور کیا ہم بحیثیت قوم آج کے دن کو اس کی شاندار روایات کے تحت اس عہد کو نبھا پائے جو قائداعظمؒنے 23مارچ 1940ء کو منٹو پارک جہاں مینار پاکستان نشان پاکستان بن کر کھڑا ہے لیا تھا اور کیا وہ عہد آپ کو یاد ہے… نہیں یاد ہے۔ یاد کیسے بھی ہو کہ ہمیں کسی نے یاد رکھنے کا سبق ہی نہیں پڑھایا۔ ہم کیسے 14اگست سے قبل آزادی کی قربانیوں کو یاد رکھیں کہ ہماری نسلوں کو ان قربانیوں کے بارے میں آگاہی نہیں دی گئی۔ اس کے باوجود ہم ایک دن کے لیے یوم آزادی مناتے ہیں اور 77سالوں سے اس کو منا رہے ہیں مگر اس کی پاسداری نہیں کر پائے۔ کچھ دنوں سے میرے اندر کا انسان مجھ سے یہ سوال کر رہا ہے کہ کیا پاکستان میں ہم صبح سے رات گئے ایک دوسرے کو دھوکہ تو نہیں دیتے۔ کیا ہم 76برسوں سے اپنی خوشیوں کی خاطر دوسروں کی خوشیوں پر ڈاکہ تو نہیں ڈال رہے اور اپنے لیے ہنستے ہیں اور کسی کو ہنستا نہیں دیکھ سکتے۔ 77برس سے ایک دوسرے کے خلاف سازش تو نہیں کر رہے۔ کیا اپنوں میں رہتے رہتے ہم ایک اجنبی تو نہیں بن گئے۔ ہمارے اندر برداشت کا مادہ ہی نہیں رہا۔ سکون کی تلاش میں سرگرداں انسان ایسی زندگی میں بھی پناہ ڈھونڈتا ہے جو اسے مار ڈالتی ہے۔ کیا یہ زندگی سب جھوٹ ہے، ادا کاری ہے، ناٹک ہے اور ہم ایک دوسرے کو دھوکہ دینے کی باتوں میں سکون کی تلاش میں بے سکونی کو اپنا رہے ہیں۔ کیا یہ ہے میرا پاکستان۔ پہلے میں تین بڑے فلاسفر حضرات کی باتوں کو آپ کے ساتھ شیئر کرلوں جو آج پاکستان میں بسنے والے ہر شہری پر لاگو ہوتی ہیں۔ یہ میری ذاتی رائے ہے۔
جوزف ہیلر کے شاہکار افسانہ ’’آشوب شہر‘‘ کی کچھ سطریں ہیں۔
’’بڑے شہر میں راستہ گم کر دینا بہت اذیت ناک ہوتا ہے ، اور آدمی کا دماغ بھی ایک بڑا شہر ہے، جہاں آدمی بھٹکتا پھرتا ہے… ساری زندگی… راستہ ڈھونڈتا ہے، ٹھوکریں کھاتا ہے مگر راستہ نہیں ملتا۔ ملتا ہی نہیں… دنیا ایک بہت بڑا شہر ہے اور ہم سب اس شہر میں بھٹک رہے ہیں،اجنبی ہیں‘‘۔
ہکسلے نے کہا تھا ’’جدید دنیا اس قدر تیزی سے مادّیت کی دلدل میں دھنستی جارہی ہے کہ وہ دن دور نہیں جب مادی آسائشوں کی مٹی آدمی کا چہرہ بھی ڈھانپ لے گی اور جس دن روحانیت کی آخری رمق بھی ختم ہوگئی اْس دن کرۂ ارض کے تمام باسی پاگل ہو جائیں گے۔‘‘
ٹالسٹائی نے کہا تھا ’’میں کیا کروں؟ کہاں جاؤں؟ کائنات دائمی اور لامحدود ہے، میں یہاں لمحے بھر کو چمکنے کے بعد بجھنے والا ہوں… اور اب میں کچھ کرلوں۔ اس طرف سے زمین کھود کر ادھر نکل جاؤں… اس طرف سے کھود کر واپس اس طرف نکل آؤں ، اپنی موجودہ حالت سے نجات ممکن نہیں ہے۔ میرا یہ آغاز اور انجام کہاں، کیوں اور کس کی مرضی سے طے کر دیا گیا ہے۔‘‘ جوگی کسی کو اپنے ساتھ چلنے پر مجبور نہیں کرتے ، وہ صرف خواہش دریافت کرتے ہیں کسی کو محل بنانے کی خواہش ہو تو کہتے ہیں ’’ببالو‘‘ پھر وہ دوسرا پھیرا لگاتے اور خواہش جاننا چاہتے ہیں کسی بھی خواہش کا اظہار کیا جائے وہ کامیابی اور خوش رہنے کی دعا دیتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ ان کی آراء کے بعد میرا خیال ہے کہ ہم کسی کو جینے کا حق دینا نہیں چاہتے ، یہی ہے میری زندگی کا تجربہ۔ آج ہمارے عزیز ترین رشتے ، بدترین استحصالی ثابت ہوتے ہیں۔ جب تک آپ ان کی ہدایات پر عمل کریں آپ بہت اچھے ہوتے ہیں۔ وہ آپ کے گن گاتے ہیں اور جیسے ہی وہ اپنا حق وہ حق جو انہیں ان کا رب دیتا ہے استعمال کرنا چاہیں آپ ان کے خون کے پیاسے بن جاتے ہیں۔ آپ صرف خود کو دیکھتے ہیں ، آپ کے پاس ہر ایک کے لیے اپنے معیارات ہیں۔ آپ کا ہر پل نئی عینک لگا لیتا ہے، کچھ دیر پہلے وہ جو عزیز ترین تھا۔
یہی کیفیات میرے پاکستان کے ساتھ ہیں۔ اگر میں آزاد ممالک کے لوگوں کے حوالے سے بات کروں تو ان کے معاشرے آزادی کو آزادی سمجھ کر مناتے ہیں۔ عوام ہے کیا جو اپنے لیڈروں سے مانگتی ہے اور آزادی کی قیمت اس کی نظر میں کیا ہے؟ آزاد معاشرہ، اچھی تعلیم، اچھی صحت، اچھا ماحول۔ یہی کسی بھی قوم کی آزادی کے تقاضے ہوتے ہیں ناں مگر ہمارے ہاں یہ سب کچھ نہیں۔ یہاں تو یہ ہو رہا ہے کہ جسے آپ ناز نخرے سے پالتے ہیں اسے خود ہی اپنے ہاتھوں دفن بھی کر دیتے ہیں۔ یہاں زیادہ سفاک یہی رویہ ہوتا ہے۔ کوئی کسی کی زندگی میں آ کر تھوڑے سے رنگ بھر دے گا اور ان کے اداس چہرے پر مسکراہٹ بکھیرنے کی کوشش کرے گا۔ خود کو کہتے ہیں ہمیں تم سے محبت ہے۔ یہ کیا دوغلا پن ہے، انسان کو رب نے جو حقوق دیئے ہیں وہ آپ کیسے سلب کر سکتے ہیں۔ یہاں میری حکمرانوں سے گزارش ہے کہ آپ ضرور جئیں ، سدا جئیں، مگر اوروں کو بھی جینے دیں۔ عوام کو بھی اپنی خواہشات کی سولی پر مت چڑھائیں۔ اگر آپ نے عوام کی خوشیاں چھینیں تو آپ بھی خوش نہیں رہیں گے۔ یہ کہتے ہوئے بھی کہ دنیا اسی طرح غموں کے سمندر میں غوطے کھاتی رہے گی اور آخر ڈوب جائے گی۔ ادھوری سچائی پورے جھوٹ سے زیادہ تباہ کن ہوتی ہے۔ ریت پر قلعے تعمیر نہیں کیے جاسکتے۔ سچ کو چھپایا نہیں جاسکتا وہ اپنا راستہ خود نکالتا ہے۔ چاہے کچھ دیر کے لیے وہ پسپا ہو جائے لیکن وہ ہمیشہ سرخرور ہتا ہے۔
اور آخری بات…
میری درج بالا باتیں ان حکمرانوں کے لیے، ان اداروں کے لیے، ان مراعات یافتہ طبقے کے لیے ہیں جو ہم پر حکمرانی کرتے ہیں۔ ان لوگوں کے لیے ہیں جنہوں نے آج کے ہر پاکستانی کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ کیا ہم آزاد قوم ہیں۔ ہم نے 78واں یوم آزادی منایا جس کی قیمت ہماری آنے والی کئی نسلیں ادا نہیں کر سکتیں۔ آزادی منانے والے دعویداروں سے، کیامیں یہ بات پوچھنے کا حق رکھتا ہوں کہ ہم دل سے، ایمان سے، نیت سے، خلوص سے یوم آزادی مناتے ہیں؟میرا خیال ہے کہ نہیں مناتے، زندگی نے وفا کی تو 14اگست 2025ء کو پھر بات کریں گے۔

تبصرے بند ہیں.