دھرنوں کی سیاست

40

آج کل جماعت اسلامی کا دھرنا زیر بحث ہے۔ کیا کھویا اور کیا پایا پر بحث جاری ہے تاہم جماعت اسلامی کی قیادت اور کارکن مبارکباد کے مستحق ہیں جنہوں نے بجلی کے ظالمانہ بلوں کے خلاف احتجاج کیا۔ کم از کم وہ باہر نکلے اور انہوں نے عوامی امنگوں کی ممکنہ حد تک ترجمانی کی۔ اگر جماعت اسلامی احتجاج سے قبل تمام سیاسی جماعتوں سے مکالمہ کرتی اور اس احتجاج کو قومی احتجاج بنانے کے لئے سب کو ساتھ ملا لیتی تو حکومت کے لئے یقیناً مشکلات پیدا ہوتیں۔
اگر ہم دھرنوں کی سیاست پر بات کریں تو ڈاکٹر طاہرالقادری کا ذکر کئے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے لاپرواحکومتوں کی توجہ عوامی مسائل کے حل کی طرف مبذول کروانے کے لئے ملکی سیاست میں دھرنے کی شکل میں احتجاج کا ایک موثر طریقہ متعارف کرایا جسے آج تک ہر جماعت کاپی کررہی ہے۔ان جماعتوں نے بھی ڈاکٹر طاہرالقادری کے دھرنے کو کاپی کیا جو ان کے دھرنے کی سب سے بڑی مخالف تھیں۔ یہ ماننا پڑے گا ڈاکٹر طاہرالقاری نے ملکی سیاست کو احتجاج کا ہنر سکھایا۔ دھرنے کے احتجاج کا ایک یہ فائدہ ضرور ہے کہ مسئلہ حل ہو یا نہ ہو مگر وقت کے حکمرانوں کی نیندیں ضرور حرام ہو جاتی ہیں۔ جو شخص بھی اسلام آباد میں دھرنا دیتا ہے۔حکومت سچا، جھوٹا وعدہ کرکے دھرنا ختم کروانے میں عافیت جانتی ہے۔
جب پارلیمنٹ میں مشکوک مینڈیٹ والے نمائندے کسی نہ کسی طرح داخل ہو جاتے ہیں تو پھر پارلیمنٹ کا فلور عوامی مفاد کے تحفظ کی بجائے اشرافیہ کے مفادات کا تحفظ کرنے لگ جاتا ہے۔ مشکوک اور عوامی سطح پر ناقابل قبول مینڈیٹ والی اسمبلیوں کو اخبارات کے ناقدانہ اداریوں، مخالفانہ کالموں، مخلصانہ تجاویز، غم و غصہ سے بھری ہوئی خبروں، ٹاک شوز، پریس کلبوں کے باہر احتجاج کی کوئی پروا نہیں ہوتی۔ ایک وقت تھا ایک اداریہ ایک شذرہ ایک کالم اور ایک سنگل کالمی خبر تھرتھلی مچا دیتی تھی۔ جب سے یونیورسٹیوں، کالجوں ، سکولوں کی تعداد بڑھی ہے ،علم اور شعور عام ہوا ہے، ڈگریوں کا جمعہ بازار سجا ہے، شرح خواندگی میں اضافہ ہوا ہے تب سے ہمارا قومی دل ،دماغ اور ضمیر بلٹ پروف ہو گیا ہے۔ مجال ہے کوئی بات اثر کر سکے۔ ایسے مزاج کی حکومتیں صرف اسٹیبلشمنٹ کے ڈنڈے ، عدالتوں کے فیصلوں اور دھرنوں سے ڈرتی ہیں۔
پارلیمنٹ عوام کا نمائندہ ادارہ ہے اگر کوئی جماعت عوامی مسائل و مشکلات کے حل کے لئے پارلیمنٹ کے سامنے آنا چاہتی ہے تو اس سے پارلیمنٹ کی عزت کیسے کم ہو جاتی ہے؟ میں سمجھتا ہوں کہ پارلیمنٹ کے سامنے احتجاج کرنے کی باقاعدہ اجازت دی جائے اور اس کے لئے ڈی چوک میںجگہ مختص کی جائے۔ پارلیمنٹ کے سامنے احتجاج کرنے سے روکنے کی سوچ غاصبانہ اور ’’برہمانہ‘‘ ہے۔ پارلیمنٹ کے باہر چند نعروں سے پارلیمنٹ کا تقدس پامال نہیں ہو گا۔ پارلیمنٹ کے اندر ہم نے مائیک ٹوٹتے بھی دیکھے ہیں، بجٹ دستاویز اور قانون سازی کے ایجنڈے اور مسودے پرزہ پرزہ ہوتے ہوئے دیکھے ہیں۔ سپیکر اور وزیراعظم کا گھیرائو ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ سپیکر کی طرف اشیائے ضروریہ ’’تھرو‘‘ ہوتے ہوئے دیکھی ہیں۔ اراکین پارلیمنٹ کو پھینٹی لگاتے اورپھینٹی کھاتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔ گالم گلوچ، غیر پارلیمانی جملوں کا تبادلہ تو اب سرے سے کوئی غیر اخلاقی فعل نہیںسمجھا جاتا۔ اگر اس سب کے باوجود پارلیمنٹ کی عزت قائم و دائم ہے تو پارلیمنٹ کے سامنے احتجاج سے پارلیمنٹ کا تقدس کیونکر پامال ہو گا؟۔ محترم سپیکر سے گزارش کریں گے کہ وہ ہائوس کی ایک کمیٹی بنائیں جو پارلیمنٹ کے باہر جگہ کا تعین کرے اورپرامن احتجاج ریکارڈ کروانے کے آئینی حق کو تسلیم کیا جائے۔ اس سے پارلیمنٹ کے تقدس اور وقار میں کمی نہیں اضافہ ہو گا۔ جمہوری ممالک کے عوام نے اپنے حقوق پارلیمنٹ سے نہیں مانگنے تو پھر کس سے مانگنے ہیں؟
کسی جماعت، شخص،مذہبی، سماجی گروہ کو عدالتوں کے باہریا کسی جج کی عدالت کے باہر احتجاج کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ ججز آئین اور قانون کے مطابق فیصلے کرتے ہیں۔ عدالتوں کے باہر احتجاج کا مطلب عدالتی کارروائی اور فیصلوں پر طاقت کے زور پر اثر انداز ہونا ہے۔ عدالتوںکے باہر احتجاج کی روش بڑھتی جارہی ہے۔ اس کی ہر گز اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ عدالتی فیصلوں کے بارے میں رائے دینے کے حق کا مطلب عدالتوں کی بے توقیری ہر گز نہیں ہے۔ آج کل ایسا ہورہا ہے۔ یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے، عدالتوں کے پسند نہ آنے والے فیصلوں کو چیلنج کرنے کا ایک طریقہ کار موجود ہے اسی طریقے کو اپنانا چاہیے۔ اسی طرح افواج پاکستان ہماری قومی سلامتی کا ایک محافظ ادارہ ہے۔ اس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کسی جماعت کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ سیاسی مفادات کے لئے ادارے کو مخاطب کرے، ٹارگٹ کرے یا اس ادارے سے جڑی ہوئی تنصیبات یا دفاتر کو احتجاج کے لئے منتخب کرے۔ احتجاج چاہے منصفانہ ہو یا پرامن ایسے اداروں کے سامنے احتجاج کا کسی کو حق اور اجازت نہیں ملنی چاہیے۔ یہ قابل مذمت، قابل نفرت اور قابل گرفت عمل ہے۔ ہماری سیاسی جماعتوں اور تحریکوں میں یہ سوچ داخل ہو چکی ہے۔ اسے ختم ہونا چاہیے یہ کام سیاسی قائدین کے کرنے کا ہے ، ماضی میں اداروں کو ٹارگٹ کرنے والے تمام قائدین کو اپنے اس رویے پر نادم ہونا چاہیے اور معذرت کرنی چاہیے۔ سیاسی جماعتیں سیاسی طریقے سے احتجاج کا حق استعمال کریں۔صو بائی اسمبلیوں کے سامنے آئے روز مختلف طبقات احتجاج کے لئے آتے ہیں اور پھر سپیکر صوبائی اسمبلی، اراکین اسمبلی کے ایک وفد کو بات چیت کے لئے بھیجتے ہیں اور پھر وہ وفد اسمبلی میں آ کر مظاہرین کا نقطہ نظر ہائوس کے سامنے رکھتا ہے۔ یہ ایک جمہوری اور شریفانہ انداز ہے۔ پارلیمنٹ کو بھی اس طریقہ احتجاج اور شریفانہ برتائو پر کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔ میں یہاں شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہرالقادری کا باردگر ذکر کروں گا کہ سانحہ ماڈل ٹائون پر جے آئی ٹی نہ بننے پر انہوں نے پاکستان کے ہر شہر میں احتجاج شروع کر رکھا تھا پھر سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے ازخود نوٹس کے تحت انہیں بلایا اور ان سے پوچھا کہ ڈاکٹر صاحب آپ احتجاج کیسے ختم کر سکتے ہیں؟ ڈاکٹر طاہرالقادری نے بھری عدالت میں کہا جے آئی ٹی بنا دی جائے جو سانحہ ماڈل ٹائون کیس کے حوالے سے تفتیش کرے نہ صرف احتجاج ختم کر دوں گا بلکہ جے آئی ٹی کے فیصلوں کو من و عن تسلیم کروں گا۔ سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی بنا دی اور ساتھ ڈاکٹر طاہرالقادری سے کہا کہ امید ہے کہ اب آپ احتجاج کی بجائے قانونی راستہ اختیار کریں گے اور اپنا موقف عدالتوں میں پیش کریں گے۔ اس بات کو 4 سال سے زائد عرصہ گزر گیا ڈاکٹر طاہرالقادری نے سپریم کورٹ کے ججز سے کئے ہوئے وعدے کی لاج رکھی اور سانحہ ماڈل ٹائون پر احتجاج کی بجائے قانون کی عدالت میں اپنا کیس لڑرہے ہیں۔ اگرچہ حالات بڑے صبر آزما ہیں ، سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل نہیں ہوا، اس کے باوجود وہ اپنا کیس سڑکوں کی بجائے عدالتوں میں لڑرہے ہیں۔ تمام سیاسی راہ نمائوں کو چاہیے کہ وہ اداروں کو سیاست میں نہ گھسیٹیں۔

تبصرے بند ہیں.