بارشی پانی کیسے محفوظ کیا جائے؟

36

جب بھی مون سون آتا ہے ہمارے ہاں اس سوال کو ضرور اٹھایا جاتا ہے کہ ہم قدرت کی اس انمول شے پانی کو کس بے دردی سے ضائع کر رہے ہیں۔ اگر دیکھا جائے توپانی خدا تعالیٰ کی وہ انمول نعمت ہے کہ جس کے بغیر زندگی کا تصور بھی محال ہے۔ زندگی کا ہر رنگ پانی کا مرہون منت ہے ،پاکستان زرعی، معدنی اور دیگر شاندار قدرتی خزانوں کی ساتھ ساتھ بہترین آبی وسائل سے بھی مالا مال ہے۔ اگر انہیں بروئے کار لایا جاتا تو پاکستان دنیا کا خوشحال ترین اور ترقی یافتہ ملک بن سکتا تھا مگر افسوس کہ ہمارے پالیسی سازوں نے اس پر کوئی خاص توجہ نہ دی ۔پاکستان بہترین جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے شاندار آبی وسائل رکھتا ہے لیکن وافرمقدارمیں پانی دستیاب ہونے کے باوجود قیام پاکستان سے اب تک کسی حکومت نے بھی پانی کے شعبہ میں اصلاحات اور آبی ذخائر میں اضافے کو اپنی ترجیح بنایا ہی نہیں جبکہ ملکی آبادی اور ان کی ضروریات میں تو اضافہ ہوتا رہا لیکن آبی ذخائر میں توسیع نہ ہو سکی۔
اگر ہم اعداد شمار اور رپورٹس کو دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ وزرات منصوبہ بندی کے سالانہ پلان 14-2013 میں کہا گیا کہ پاکستان کی پانی ذخیرہ کی صلاحیت صرف نو فیصد ہے جبکہ دنیا بھر میں یہ شرح چالیس فیصد ہے۔اسی طرح فلڈ کمیشن آف پاکستان کی رپورٹ 2013ء کے مطابق پاکستان کے مشرقی اور مغربی دریاؤں میں سالانہ ایک سو چوالیس ملین ایکڑ فٹ (ایم اے ایف) پانی آتا ہے جس کا صرف چھیانوے اعشاریہ آٹھ فیصد حصہ صوبوں کے استعمال میں آتا ہے اور بقیہ پانی ضائع ہو جاتا ہے۔۔ ڈیم، نہریں، تالاب اور کنویں وہ ذرائع ہیں جن میں پانی ذخیرہ کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے نظام آبپاشی کا شمار دنیا کے بڑے نیٹ ورکس میں ہوتا ہے جو کہ 45 ملین ایکڑ رقبے پر محیط زرعی اراضی کو سیراب کرتا ہے۔ یہ نظام بنیادی طور پر تین بڑے ذخائر منگلا، تربیلا اور چشمہ پر مشتمل ہے جبکہ 19 بیراج، 12 انٹر ریور لنک کینالز،45 انڈیپینڈنٹ اری گیشن کینالز اور 143 درمیانے ڈیمز (جنکی اونچائی 15فٹ یا اس سے زیادہ ہے)۔
تاہم افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ قیام پاکستان سے اب تک پانی ذخیرہ کرنے کے ان ذرائع میں کوئی قابل ذکر اضافہ نہیں کیا گیا، چنانچہ اس غفلت اور موسمیاتی تغیر کے نتیجے میں گزشتہ برسوں (1950 سے 2013 تک) کے دوران شدید نوعیت کے 21 سیلابوں کی تباہی کی وجہ سے پاکستان کو مجموعی طور پر 37 بلین ڈالر سے زیادہ کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
چھ لاکھ مربع کلومیٹر سے زیادہ رقبے پر قیامت ڈھانے والے یہ سیلاب گیارہ ہزار 572 افراد کو نگل چکے ہیں جبکہ ایک لاکھ 88ہزار 531 دیہات زیرآب آنے وجہ سے بڑی تعداد میں زرعی فصلیں اور مکانات تباہی سے دوچارہوئے جبکہ سال 2010 کے سیلاب کو پاکستان کی تاریخ کا بدترین سیلاب قرار دیا جاتا ہے جس نے 20 ملین لوگوں کو متاثر کیا تھا۔سیلاب سال 2010؛ ہلاکتوں کی تعداد 1985۔ تباہ شدہ مکانات، تعمیرات کی تعداد 16 لاکھ 8184، مالی نقصان 10 بلین ڈالر، 17ہزار 553 دیہات زیرآب آئے، ایک لاکھ ساٹھ ہزار مربع کلومیٹر رقبہ متاثر ہوا۔برسوں پہلے نیشنل فلڈ پروٹیکشن پلان میں پانی کے شعبہ میں ملک کے موجودہ انفراسٹرکچر کی تعمیرنو اور آبی وسائل میں توسیع کے لیے قابل عمل منصوبہ پیش کیا گیا تھا، لیکن بدقسمتی سے اس پر کوئی عمل نہیں ہوسکا۔ یہی وجہ ہے کہ جولائی تا ستمبر مون سون سیزن میں بارشوں کا سلسلہ شروع ہوتے ہی ملک کے بیشتر علاقوں میں سیلاب کے خطرات منڈلانے لگتے ہیں۔
مندرجہ بالا رپورٹ چشم کشا بھی ہے اور ہمارے لئے سوچ بچار کے راستے بھی کھولتی ہیں لیکن یہاں ہم اس ضمن میں پنجاب میں ہونے ولی پیش رفت کے بارے بات کرنا چاہتے ہیں کہ اگر دیگر صوبے اور بڑے شہر اس طریقہ کار پر عملدرامد کر لیں تو ہمارے شہر ڈوبنے سے بچ سکتے ہیں اور پانی کا مفید استعمال بھی کیا جاسکتا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق پنجاب کی حکومت لاہور شہر میں اربوں کی لاگت سے مون سون کے بارشی پانی کو محفوظ کرکے دوبارہ استعمال کرنے کے لیے گیارہ مقامات پر زیر زمین واٹر سٹوریج تعمیر کرنے کے منصوبے پر کام کر رہی ہے۔ اس منصوبے پر کام کرنے والے ماہرین کے مطابق اس منصوبے کی تکمیل کے بعد مون سون کے سیزن میں نہ توبارشی پانی سڑکوں پر کھڑا ہوگا اور نہ ہی سڑکیں بارشی پانی کھڑا ہونے سے توڑ پھوڑ کا شکار ہوں گی۔ اس سے ٹریفک میں روانی بھی برقرار رکھی جا سکے گی اور بارشی حادثات سے بچنا بھی ممکن ہو سکے گا۔ ”اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ پارکوں کی آبیاری کے لیے انڈر گراؤنڈ واٹر استعمال نہیں کرنا پڑے گا بلکہ یہی ذخیرہ کردہ بارشی پانی پارکوں میں آبپاشی کے لیے استعمال ہوگا، اس طرح ٹیوب چلانے کے لیے استعمال کی جانے والی بجلی کی بھی بچت ہو گی۔‘‘
لاہور میں ہونے والی اوسط درجے کی بارش لاہور شہر کو تقریباً دو کروڑ گیلن پانی مہیا کرنے کا باعث بنتی ہے اگر مون سون کے سیزن میں کم از کم دس بار اچھی بارشیں بھی ہو جائیں تو اس سے بیس کروڑ گیلن پانی ملے گا جسے مختلف مفید مقاصد کے لیے دوبارہ کام میں لایا جا سکتا ہے بارشی پانی کو دوبارہ استعمال کرنے کے لیے زیر زمین محفوظ کرنے کا پہلا منصوبہ کامیابی سے لاہور کے لارنس گارڈن میں مکمل کیا جا چکا ہے یہاں بارش کے پانی کو ایک ٹینس کورٹ کے نیچے ذخیرہ کیا جا رہا ہے اور یہاں پندرہ لاکھ گیلن پانی سٹور کیا جا رہا ہے۔ دو ایسے مزید منصوبے کشمیر روڈ اور شیرانوالا گیٹ کے پاس اندرون لاہور کے علاقے میں مکمل کئے جا چکے ہیں اور اس سال یہاں بارشی پانی سٹور کیا جا رہا ہے۔
قذافی سٹیڈیم کے نزدیک بھی ایک بڑا زیر زمین سٹوریج بنایا جائے گا جس میں چالیس لاکھ گیلن پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہو گی۔ حکومت پنجاب نے اس سال کے بجٹ میں وارث روڈ کے مقام پر ایک اور واٹر سٹوریج بنانے کے لیے رقم مختص کی ہے۔ مزید ایسے سٹور جن علاقوں میں بنائے جائیں گے ان میں تاجپورہ، فروٹ مارکیٹ ملتان روڈ، کریم پارک اور رسول پارک جیسے علاقے بھی شامل ہیں۔
عالمی ادارے ایسے منصوبوں کے لیے فراخدلی سے مدد کرنے کو تیار رہتے ہیں۔ ہم نے جرمنی کے ترقیاتی ادارے جی آئی زیڈ کو درخواست کی کہ لاہور کی سڑکوں پر بہت پانی کھڑا ہوتا ہے انہوں نے کمپوٹرائزڈ تحقیق کی مدد سے ہمیں بتایا کہ کتنی بارش ہونے کی صورت میں کس علاقے میں کتنا پانی کھڑا ہوگا۔ یہ ڈیٹا حاصل کرنے کے بعد ہم نے ان علاقوں کی نشاندہی کرلی جن میں زیر زمین سٹوریج بننے تھے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس طرح کے منصوبوں پر کام کرنے سے ہم بارشی پانی کو ضائع ہونے سے روکنے کے ساتھ اس کا مفید استعمال کر سکتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں.