14اگست… یومِ آزادی!

42

اگست کا مہینہ آئے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم اُن بے مثال قربانیوں کو بھول جائیں، ہم ہزاروں افراد کے تہہ تیغ ہونے کو بھول جائیں، ہم لاکھوں افراد کے اپنے گھروں سے بے دخل کیے جانے اور بے سرو سامانی کے عالم میں مہاجر بننے کو بھول جائیں، ہم بیاس اور ستلج دریائوں کے کناروں پر بہنے والے خونِ ناحق کی ندیوں کو بھول جائیں، ہم بیل گاڑیوں اور چھکڑوں میں سوار اورپیدل چلنے والے لُٹے پُٹے قافلوں کو بھول جائیں ہم ریل گاڑیوں کے ڈبوں کے اندر اور چھتوں اور دروازوں کے ساتھ لٹکے ہوئے کٹے پھٹے اور زخموں سے چُور بے حال مسافروں کو بھول جائیں، ہم اِکتر سال قبل کے اِن دل دوز مناظر کو کیسے بھول جائیں جن کی جھلکیاں کبھی کبھار ہمیں اخبارات کے صفحات اور ٹی وی کی سکرینوں پر نظر آجاتی ہیں۔یقینا ہم ان مناظر کو نہیں بھول سکتے کہ ان کا تعلق اُس بے مثال جدوجہد سے ہے جو برصغیر جنوبی ایشیاء کے مسلمانوں نے اپنے عظیم قائد محمد علی جناح کی قیادت میں اپنے لیے ایک الگ خطہ ارض حاصل کرنے کے لیے کی ۔ یہ جدوجہد بلا شبہ عدیم المثال تھی۔ اس میں بڑے، بوڑھے، بچے، جوان اور مرد وزن سبھی شامل تھے۔ یہ اسی عدیم المثال جدوجہد کا نتیجہ تھا کہ برصغیر جنوبی ایشیاء کے مسلمانوں کے لیے ایک آزاد مملکت دُنیا کے نقشے پر اُبھری۔۔۔ 14گست 1947 کو برصغیر جنوبی ایشیاء میں مسلمانوں کے لیے الگ آزاد مملکت کا قیام ایک ایسا واقعہ تھا جس کی مثال قوموں کی تاریخ میں نہیں ملتی ۔ یقینا یہ منشاء الہٰی تھا ، یہ امر ربی تھا، یہ ربِ کریم کا احسانِ عظیم تھا اور اُس کے پیارے حبیب ﷺ کی نظرِ کرم تھی کہ برصغیر جنوبی ایشیاء میں جہاں مسلمان کم و بیش ایک ہزار سال تک حکمران رہے تھے اور جہاں انہوں نے اسلامی تہذیب و تمدن اعلیٰ اخلاقی اقدار، مذہبی آزادی، وسعت نظری اور عدل و انصاف کی شاندار روایات قائم کی تھیں اور تعمیرو ترقی اور خوشحالی کے انمٹ نقوش چھوڑے تھے وہاں اُن کا اقتدار ختم ہوا تو انہیں انتہائی بے چارگی، بے بسی اور بے کسی کے ساتھ غلامی کے شب و روز اس انداز سے بسر کرنا پڑے کہ اُن کے لیے اپنے قومی وجود کے تحفظ اور ملی تشخص کو برقرار رکھنا ہی مشکل نہیں ہو گیا تھا بلکہ اُن کا دین ، اُن کا مذہب اور اُن کی تہذیب و ثقافت بھی ستم کا نشانہ بننے
لگے تھے۔ اور اُن کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں رہا تھا کہ وہ برصغیر جنوبی ایشیا کے جن خطوں میں اکثریت میں تھے ان خطوں کو ملا کر اپنے لیے ایک آزاد مملکت کا مطالبہ کریں۔
یہ ربِ کریم کا احسانِ عظیم تھا کہ اُس نے برصغیر جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کو انتہائی زوال اور انحطاط کے دور میں علامہ ڈاکٹر سر اقبال مرحوم اور قائد اعظم محمد علی جناحؒ جیسے صاحبِ بصیرت اور صاحبِ درد رہنما عطا کیے جو قوم کی ڈگمگاتی کشتی کو کنارے پر لانے کے لیے ناخُدا بن کر سامنے آئے ۔ اقبال جو کہ مفکر تھے ، جو ایک شاعر تھے جو دیدہِ بینا کے مالک تھے اور اپنی شاعری کے ذریعے مسلمانوں کو اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنے کا پیغام مسلسل دے رہے تھے اور برصغیر جنوبی ایشیاء کے مسلمانوں کے قومی وجود کے تحفظ کے بارے میں سخت فکر مند رہتے تھے انہوں نے دسمبر 1930 میں اپنے خطبہ الہ آباد میں جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے جُداگانہ قومی وجود کو بنیاد بناتے ہوئے اُن کے لیے الگ ملک کا مطالبہ پیش کر دیا۔ علامہ اقبال ؒ کے خطبہ الہ آباد کو سامنے آئے دس سال ہی گزرے تھے کہ 23 مارچ 1940 کو برصغیر کے مسلمانوں نے اپنے میرِ کارواں محمد علی جناحؒ کی قیادت میں منٹو پارک لاہور میں منعقدہ آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں قراردادِ پاکستان منظور کر کے ایک الگ آزاد مملکت کے حصول کو باضابطہ طور پر اپنا قومی نصب العین قرار دے دیا ۔ یہ میرِ کارواں کی پکار تھی ، یہ منزل کے تعین کا یقین تھا، یہ منزلِ مقصود کو پانے تڑپ تھی، یہ ایثار ، قربانی اور عزمِ راسخ کا اظہار تھا، یہ عزم و یقین اور قوتِ ایمانی کا اعجاز تھا کہ انگریز حکمرانوں کی شاطرانہ اور منافقانہ چالیں اور ہندو اکثریت کی مخالفانہ سازشیں دھری کی دھری رہ گئیں اور برصغیر جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے لیے آزادی کا سورج 14 اگست 1947 کو ایک نئی آزاد مملکت کے قیام کی صورت میں طلوع ہوا۔
برصغیر کے مسلمانوں کے الگ ملک حاصل کرنے کے مطالبے یعنی قیامِ پاکستان کے محرکات کے بارے میں جتنا بھی غور کیا جائے ، جتنی بھی چھان پھٹک کی جائے ، جس حوالے اور جس پہلو سے جانچا جائے،سیاسی محرکات کو سامنے رکھا جائے، معاشی اور اقتصادی اسباب کو بنیاد بنایا جائے، مسلمانوں اور ہندوئوں کے درمیان فکری اور تہذیبی تصادم کو اہمیت دی جائے، مسلمانوں کی مذہبی رواداری اور وسعت نظری پیشِ نظر رکھی جائے اور ہندوئوں کی تنگ نظری پر نگاہ ڈالی جائے ، مسلمانوں اور ہندوئوں کی باہمی آویزشوں کا جائزہ لیا جائے، مسلمانوں کے ایک ہزار سالہ طویل دورِ حکمرانی کے اہم واقعات اور فتوحات پر نظریں دوڑائی جائیں اور اُن کی حکومت کے ختم ہونے کے اسباب کا جائزہ لیا جائے غرضیکہ کوئی بھی رُخ ہو ، کوئی بھی پہلو ہو اور کوئی بھی گوشہ ہو یہ حقیقت واضح طور رپر سامنے آتی ہے کہ مسلمانوں کی الگ قومیت، اُن کا الگ تمدن اور اُن کا جُداگانہ ملی او ر مذہبی تشخص جسے عرفِ عام میں دو قومی نظریہ یا نظریہ پاکستان کہا جاتا ہے وہ بنیاد ہے جس کے تحت انہوں نے ایک الگ مملکت کے حصول کو اپنی منزل قرار دیا۔ یہ کوئی معمولی اتفاق نہیں تھا کہ3 جون 1947 کو تقسیمِ ہند کے منصوبے کا اعلان ہوا تو وائسرائے لارڈ مائونٹ بیٹن نے صرف اتنا ہی کہا کہ ہندوستان میں انتقالِ اقتدار 15 اگست تک کر دیا جائے گا۔ اُس وقت 14 اگست کی تاریخ کا تعین نہیں کیا گیا اور نہ ہی کسی کے وہم و گمان میں یہ بات تھی کہ 14اور 15 اگست 1947 کی درمیانی رات لیلۃ القدر ہو گی جو برصغیر جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی آرزئوں اور تمنائوں کی تکمیل کی مبارک ساعت بنے گی ۔یقینا یہ منشائے ربانی تھا کہ یہ خطہِ ارض جو اُس کے نام پر حاصل کیا جا رہا تھا اُس کا قیام لیلۃ القدر کی مبارک ساعتوںمیں عمل میں آیا۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بے جا نہ ہو گا کہ پاکستان کا ۷۷واں یومِ آزادی مناتے ہوئے ہمارے لئے انتہائی مسرت ، خوشی اور فخر کا موقع ہے کہ ہمارے نوجوان اتھلیٹ ارشد ندیم نے پیرس اولمپکس میں جیولین تھرو کا نیا ریکارڈ قائم کر کے گولڈ میڈل حاصل کیا ہے۔ ارشد ندیم بلا شُبہ قابلِ صد مبارک بادہیں کہ انہوں نے یہ کارنامہ سر انجام دے کر ملک و قوم کا نام فخر سے سر بلند کر دیا ہے۔ پاکستان مملکتِ خداداد ہے۔ اللہ کریم نے اس مملکت اور یہاں کے رہنے والوں کو بے پناہ وسائل ، صلاحیتوں اور خصوصیات سے مالا مال کر رکھا ہے۔ صرف مواقع ملنے کی دیر ہے ورنہ ہم کب پیچھے رہے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں ، اشرافیہ اور قیادت کی نا اہلی اور کم ہمتی ہے کہ ہم قوموں کی برادری میں اونچا مقام حاصل کرنے کے بجائے گراوٹ کا شکار ہو رہے ہیں۔ بلا شُبہ خوش بختی اس قوم کا مقدر ہے۔ ہم نہیں تو ہمارے بعد والی نسلیں یقینا اس سے ہمکنار ہوں گی۔ اقبال ؓ نے کہا تھا
نہیں اقبال نا اُمید اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی ذرخیز ہے ساقی

تبصرے بند ہیں.