ارشد ندیم کی کامیابی

59

گو کہ کالم کچھ دن تاخیر کا شکار ہے لیکن اس میںہماری کوئی کوتاہی نہیں بلکہ جس دن کالم نے شائع ہونا ہے ظاہر ہے کہ اسے کھینچ تان کر پہلے تو نہیں کیا جا سکتا ۔ ارشد ندیم نے جو بے مثال کامیابی حاصل کی ہے اس کامیابی کو اگر کچھ سیاسی جماعتیں اور دیگر کچھ گروہ اپنے ساتھ منسلک کر رہے ہیں تو اس موقع پر انھیں یہ سب کرنے دیں اس لئے کہ کامیابی کے سو ماں باپ اور والی وارث پیدا ہو جاتے ہیں لیکن ناکامی ہمیشہ بانجھ ہوتی ہے ۔ اس لئے ایسی چھوٹی موٹی باتوں پر توجہ نہیں دینی چاہئے بلکہ ان لوگوں کا حال تو اس بندے جیسا کہ جو ایسے ہی گول گپے والی ریڑھی کے پاس کھڑا تھا اور جب ایک گاہک کو گول گپے دیئے تو کہنے لگا کہ پائین کھٹا تھوڑا کم ہے تو انھیں جو کرتے ہیں کرنے دیں اصل بات یہ ہے کہ ٹھیک چالیس سال بعد اولمپکس میں وطن عزیز کو کسی نے گولڈ میڈل لا کر دیا ہے اور اس قومی ہیرو کو کہ جس نے دنیا میں پاکستان کا نام روشن کیا ہے اسے اگر ملکی سطح سے ہٹ کر پوری دنیا سے مبارک بادیں مل رہی ہیں تو اس کی وجہ صرف ارشد ندیم کی کامیابی نہیں بلکہ 92.97یعنی305فٹ دور نیزہ پھینک کر 118برس پرانے ریکارڈ کو توڑنا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر پرانا ریکارڈ 118سال میں ٹوٹا ہے تو اس ریکارڈ کو ٹوٹنے میں بھی شاید کئی صدیاں لگ جائیں اور اتنی دیر تک ارشد ندیم کا نام جیولین تھرو اور اولمپک کی دنیا میں روشن رہے گا اور یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے بلکہ ایک بہت بڑا کارنامہ ہے کہ جو ارشد ندیم نے ملک و قوم کے لئے سر انجام دیا ہے اور اس وقت انجام دیا ہے کہ جب پوری قوم مہنگائی بیروز گاری اور بجلی کے بلوں کی گھمن گھیریوں میں بری طرح پھنسی ہوئی ایک پریشان حال قوم کے طور پر زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے اور اپنی جیت سے اس قوم کو خوشی کے لمحات سے نواز کر ایک احسان عظیم کیا ہے ۔
نوجوان نسل کو تو شاید پوری طرح کھیلوں کے سب سے بڑے مقابلے اولمپکس کی اہمیت کا اندازہ بھی نہیں ہو گا اور اس میں ہم پاکستانیوں کی دلچسپی کا تو بالکل بھی پتا نہیں ہو گا بلکہ نوجوان نسل تو کیا ادھیڑ عمر کے لوگوں کو بھی پتا نہیں ہو گا اس لئے اولمپکس میں آخری گولڈ میڈل 1984کے اولمپکس میں جیتا تھا اور اس کا مطلب یہ ہوا کہ جس کی عمر کم از کم 50سال ہے اسے وہ اولمپکس گیم یاد ہوں گے کہ جس میں ہم نے ہاکی کے میدان میں سونے کا تمغہ جیتا تھا ۔ ارشد ندیم نے ہم ایسے بابوں کو جیت کی خوشی سے ہی روشناس نہیں کرایا بلکہ ہمیں نوجوانی کے دور میں بھی پہنچا دیا ہے کہ جسے ہم ہی نہیں بلکہ ہر کوئی گولڈن پیریڈ کے طور پر یاد کرتا ہے ۔ پاکستان میں کھیلوں کا ماضی بڑا تابناک ہے ۔ کرکٹ، سکوائش ، فن پہلوانی اور کشتی رانی میں ہمار بڑا ا نام ہوتا تھا لیکن ہاکی کے کھیل کی تاریخ بڑی شاندار ہے ۔ آج جن اولمپکس گیمز کے لئے ہماری ہاکی ٹیم کوالیفائی ہی نہیں کر سکی اسی اولمپکس میں ہم تین مرتبہ سونے کا میڈل جیت چکے ہیں لیکن پاکستان کی ہاکی کی تاریخ میں اگر سب سے بہترین وقت کی بات کریں تو اسے ہم بجا طور پر ستر کی دہائی کے آخر سے لے کر اسی کے عشرے کے وسط تک کے پیریڈ کو کہہ سکتے ہیں کہ اس دوران 1980میں ماسکو اولمپکس ہوئے تو افغانستان میں روسی مداخلت کی وجہ سے پاکستان سمیت امریکن بلاک کے تمام ممالک نے ان اولمپکس کا بائیکاٹ کیا تھا جس کی وجہ سے ہم اس وقت اولمپکس کا ٹائٹل حاصل نہیں کر سکے لیکن پھر1984کے لاس اینجلس اولمپکس گیمز میں پاکستان نے ہاکی کا اولمپک ٹائٹل جیت کر اس وقت کے دنیائے ہاکی کے تمام ٹائٹل جن میں اولمپک ، ورلڈ کپ ، ازلان شاہ ، چمپئن ٹرافی ، ایشین گیمز سمیت تمام ٹائٹل اپنے نام کر لئے جو کہ ہمارے خیال میں بذات خود ایک ریکارڈ تھا ۔ اس دور میں اکلوتا پی ٹی وی ہوتا تھا لیکن ہاکی کے تمام میچز براہ راست آتے تھے اور روزانہ رات کو پورے دن میں اولمپکس میں جو بھی مقابلے ہوتے تھے ان کی جھلکیاں دکھائی جاتی تھی جس سے ہر بندے کو علم ہوتا تھا کہ اولمپکس کے بڑے مقابلے شروع ہو چکے ہیں جبکہ اب حالت یہ ہے کہ سو کے قریب ٹی وی چینلز میں پی ٹی وی کہیں گم ہو کر رہ گیا ہے اور پھر پی ٹی وی بھی کئی چینلز میں تقسیم ہو چکا ہے اور کسی کو خبر نہیں کہ اولمپکس جیسے کھیلوں کے میگا ایونٹ میں کیا ہو رہا ہے بس نیوز چینل دیکھنے والوں کو اتنا پتا چل گیا کہ اب اولمپکس شروع ہوئے ہیں اور اب ان کا اختتام ہو چکا ہے یہ تو خدا بھلا کرے ارشد ندیم کا کہ جس نے جیو لین تھرو میں سونے کا تمغہ جیت کر نوجوان نسل کو بھی بتا دیا کہ اس دنیا میں کرکٹ مقابلوں کے علاوہ بھی کچھ ہوتا ہے ۔
ارشد ندیم نے پوری دنیا میں پاکستان کا نام اگر روشن کیا ہے تو وطن واپسی پر قوم نے بھی اس ہیرو کو بھرپور عزت سے نوازا ہے اور صرف قوم نے نہیں بلکہ حکومتی اور ریاستی اداروں کی جانب سے بھی عزت دے کر حوصلہ افزائی کی گئی ہے ۔ جس جہاز میں سوار تھے اسے واٹر کین کی سلامی دی گئی اے ایس ایف نے سلامی دی اور ائر پورٹ پر احسن اقبال سمیت کئی وفاقی اور صوبائی وزراء استقبال کے لئے موجود تھے ۔ اس کے علاوہ تینوں مسلح افواج کے سربراہوں نے بھی انھیں مبارک دی ہے جبکہ مختلف حکومتوں اور اداروں کی جانب سے مالی رقم کے بھی اعلانات کئے گئے ہیں جو ان کی مستقبل کی زندگی کے لئے نیک شگون ہیں ۔ کچھ لوگوں کی جانب سے ارشد ندیم کو بجا طور پر قومی ہیرو کا درجہ دینے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے ۔ یقینا حکومت کو یہ کام کرنا چاہئے اور قوی امید ہے کہ حکومت یہ کام کرے گی لیکن ارشد ندیم نے جتنا بڑا کارنامہ انجام دیا ہے تو اس کے بعد اسے قومی ہیرو کے درجہ کے لئے کسی حکومتی سند کی ضرورت نہیں بلکہ وہ از خود قومی ہیرو کے منصب پر فائز ہو چکے ہیں ۔

تبصرے بند ہیں.