well done ارشد ندیم !!

36

پاکستان کے جیولین تھروور ارشد ندیم نے پیرس اولمپکس میں گولڈ میڈل جیت کر پاکستان اور پاکستانیوں کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے۔ تقریباً چالیس برس کے طویل انتظار کے بعد پاکستان نے اولمپکس میں گولڈ میڈل جیتا ہے۔ جب سے یہ خبر سامنے آئی ہے تب سے سارے ملک میں ارشد ندیم کے نام کی گونج ہے۔ ٹیلی ویژن چینلوں کی سکرینیں، اخبارات کے صفحات اور سوشل میڈیا پلیٹ فارموں پر ارشد ندیم چھایا ہوا ہے۔وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی سطح پر بھی ارشد ندیم کی خوب پذیرائی ہو رہی ہے۔ انعامات اور اعزازات کی بارش برس رہی ہے۔ سب سے بھاری بھرکم انعام کا اعلان وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے کیا ہے۔ انہوں نے ارشد ندیم کیلئے 10کروڑ روپے کی رقم بطور انعام دینے کا اعلان کیا ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے میاں چنوں میں ارشد ندیم کے نام پر ایک سپورٹس سٹی بنانے کا اعلان بھی کیا ہے۔ حکومت سندھ نے ارشد کو 5 کروڑ روپے کی رقم دینے کا اعلان کیا ہے۔ گورنر سندھ کامرا ن ٹیسوری اور گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر خان نے بھی,20 20 لاکھ روپے انعام دینے کا اعلان کیا ہے۔ انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف ایتھلیٹکس فیڈریشن گولڈ میڈل جیتنے والے ہر کھلاڑی کو 50 ہزار ڈالر کی انعامی رقم دیتی ہے۔ ارشد ندیم کو بھی یہ رقم ملے گی۔ نجی سطح پر بھی ارشد کی خوب حوصلہ افزائی ہو رہی ہے۔ معروف گلوکار علی ظفر ، کرکٹر احمد شہزاد سمیت مختلف کاروباری شخصیات کی طرف سے ارشد ندیم کیلئے انعامی رقوم کے اعلانات سامنے آ رہے ہیں۔ تجویز تھی کہ حکومت پاکستان ارشد ندیم کو صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی عطا کرے۔ صدر آصف علی زرداری نے اس تجویز سے کئی قدم آگے بڑھ کر ارشد ندیم کو پاکستان کا سب سے بڑا سول ا یوارڈ ہلال امتیاز دینے کا اعلان کیا ہے۔

وطن واپسی پر ارشد ندیم کا شاندار استقبال ہوا۔ وفاقی وزراء سمیت اعلیٰ حکومتی عہدیداروں نے ارشد کو لاہور ایئر پورٹ پر خوش آمدید کہا۔ سینکڑوں، ہزاروں مداح بھی قومی ہیرو کے استقبال کیلئے موجود تھے۔ ایک بڑے قافلے کی صورت ارشد ندیم اپنے آبائی گائوں پہنچے۔ گائوں میں ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے ڈالے گئے۔ ارشد کو ہار پہنائے گئے۔ پھولوں کی پتیاں نچھاور کی گئیں۔ مٹھائیاں تقسیم کی گئیں۔ اس کامیابی پر ارشد کے والدین اور عزیز و اقارب بے حد خوش ہیں۔ ارشد ندیم بھی حکومت اور عوام کے مشکور ہیں۔ وہ پرعزم ہیں کہ اولمپکس 2028 کی بھرپور تیاری کریں گے اور ملک کا نام مزید روشن کریں گے۔

یہ تو تھی ارشد ندیم کی کامیابی کے بعد کی کہانی۔ اصل کہانی اس کامیابی سے پہلے کی ہے۔ یہ کہانی محنت، عزم، ہمت اور جہد مسلسل سے عبارت ہے۔ اس کہانی میں نوجوانوں کیلئے بہت سے سبق پوشیدہ ہیں۔ ارشد ندیم نے نہایت محدود وسائل اور سہولیات کیساتھ اپنے سفر کا آغاز کیا۔ وہ مسلسل محنت کرتا رہا اور آخر کار اس نے وہ مقام حاصل کر لیا کہ آج سارے پاکستان میں اس کے نام کا ڈنکا بج رہا ہے۔ ارشد کی کہانی سبق دیتی ہے کہ کیسے میرا رب راتوں رات کسی کو عرش سے اٹھا کر فرش تک پہنچا دیتا ہے۔ رب کی قدرت دیکھیں کہ ایک عام سا کھلاڑی چند گھنٹوں میں شہرت کی بلندیوں پر جا پہنچا۔ ارشد کی کامیابی کی کہانی میں نوجوانوں کیلئے یہ سبق بھی ہے کہ محرومیوں اور محدود وسائل کا رونا رونے کے بجائے محنت اور کاوش کی جائے تو معمولی حالات میں بھی غیر معمولی کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔ ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ ہماری نوجوان نسل دستیاب سہولتوں اور وسائل کی طرف دیکھنے کے بجائے، مغربی ممالک میں دستیاب سہولیات کی طرف دیکھتی ہے۔ یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ ہمارے نوجوان سمجھتے ہیں کہ اس ملک میں ان کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ ان حالات میں رہ کر وہ اپنے خواب پورے نہیں کر سکتے۔ اعلیٰ مقام حاصل نہیں کر سکتے۔ بیشتر نوجوانوں کا خیال ہے کہ آگے بڑھنے کے لئے بھاری بھرکم سفارش یا اعلیٰ حسب نسب درکار ہوتا ہے۔ میاں چنوں کے ارشد ندیم نے ان سب نوجوانوں کی سوچ کو غلط ثابت کر دیا ہے۔ ارشد نے ثابت کیا ہے کہ عالمی اداروں کی ڈگریوں، بھاری بھرکم سفارش، امیر کبیر خاندانی پس منظر کے بغیر بھی آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ اللہ پاک کے فضل، والدین کی دعائوں، اور جہد مسلسل سے دنیا میں کوئی بھی مقام حاصل کیا جا سکتا ہے۔

پاکستان کی بد قسمتی دیکھیئے کہ یہاں کچھ برسوں سے ایک ایسا ٹولہ مسلط ہے جو پاکستان کی ہر کامیابی پر اپنے سروں پر خاک ڈالنے پر آمادہ رہتا ہے۔ صرف سیاسی مخاصمت میں ایک ٹولہ ارشد کی کامیابی پر خوش ہونے کے بجائے حکومت کو تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے۔ کہہ رہا ہے کہ ارشد کی ساری کامیابی کا کریڈٹ صرف ارشد کو ہی جاتا ہے۔ حکومت نے ارشد کی کبھی سرپرستی نہیں کی۔ وہ بغیر کسی سرپرستی اور حوصلہ افزائی کے اولمپکس میں طلائی تمغہ جیت لایا۔ جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اگرچہ ہمارے ہاں قومی کھیل ہاکی سمیت کسی بھی کھیل کو کرکٹ جیسی سرپرستی حاصل نہیں ہے۔ تاہم یہ کہنا درست نہیں کہ ارشد ندیم کو حکومتی سرپرستی حاصل نہیں تھی۔ گزشتہ کئی برس سے ارشد کو حکومتی معاونت حاصل ہے۔ ارشد کئی غیر ملکی دورے کر چکا ہے۔ جاپان، انڈونیشیا، بھارت، آذربائیجان، آسٹریلیا سمیت کئی ملکوں میں پاکستان کی نمائندگی کر چکا ہے۔ بیرون ملک ٹریننگ کر چکا ہے۔ معمولی فہم رکھنے والا بھی بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ یہ سب حکومتی سرپرستی اور مالی معاونت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ پیرس جانے سے قبل بھی ارشد کا پرائم منسٹر یوتھ پروگرام کے چئیرمین رانا مشہود احمد اور وزیر اعظم شہبا شریف سے رابطہ اور ملاقاتیں تھیں۔خود ارشد ندیم نے اپنی کامیابی کا کریڈٹ اپنے کوچز اور ٹرینرز کو دیا ہے۔ ارشد نے اعتراف کیا ہے کہ اس نے شہباز شریف کی وزارت اعلیٰ کے دور میں سپورٹس فیسٹول میں بھرپور حصہ لیا تھا۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ سپورٹس فیسٹیول کا لگایا گیا پودا ہوں۔

تاہم اس حقیقت سے کون انکار کرے کہ پاکستان میں کرکٹ کے علاوہ کسی کھیل کو بھرپور حکومتی سرپرستی اور عوام کی حوصلہ افزائی حاصل نہیں ہے۔ کرکٹ کے علاوہ کسی دوسرے کھیل میں کروڑوں اربوں روپے کی رقم خرچ نہیں کی جاتی۔ برسوں سے یہ مطالبہ سامنے آ رہا ہے کہ حکومت کرکٹ کے ساتھ ساتھ دیگر کھیلوں کی بھی سرپرستی کرے۔ باقی کھیل تو رہے ایک طرف، یہاں تو قومی کھیل ہاکی عشروں سے حکومتی عدم توجہی کا شکار ہے۔ لازم ہے کہ حکومت ساری توجہ کرکٹ اور کرکٹروں پرصرف کرنے کے بجائے، دیگر کھیلوں اور کھلاڑیوں کی بھی حوصلہ افزائی کرے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں ملک کے مختلف شہروں اور قصبوں میں کھیلوں اور کھلاڑیوں کی سرپرستی کریں، تو کیسے کیسے ہیرے پاکستان کو میسر آ سکتے ہیں۔ ارشد ندیم ہی کی طرح پاکستان کا نام روشن کر سکتے ہیں۔ یہ دیکھ کر بہت اچھا لگا کہ ارشد ندیم نے سارے پاکستان کو جوڑ دیا۔ پارلیمنٹ ، جہاں سے ہمیشہ لڑائی جھگڑوں کی خبریں آتی رہتی ہیں، وہاں سب نے مل کر اس خوشی کو منایا اور ارشد کو خراج تحسین پیش کیا۔ پاکستان کے بارے میں ہم اکثر کہتے ہیں کہ اس کے بارے میں اچھی خبریں کم کم ہی نصیب ہوتی ہیں۔ ارشد ندیم کی وجہ سے ہمیں ایک اچھی خبر سننے کو ملی ہے۔ اللہ کرے کہ ہمارے یہاں کھیلوں کے ساتھ ساتھ دیگر شعبوں سے متعلق بھی اچھی اور مثبت خبروں کا تانتا بندھا رہے۔ آمین۔

تبصرے بند ہیں.